مِرا سخن جو تمھارے خیال تک پہنچا
تو خستہ حال بھی اپنے کمال تک پہنچا
نکھار اور بڑھا ہے گلاب کا تب سے
یہ تیرے ہونٹوں کی جب سے مثال تک پہنچا
خوشا نصیب کہ دل آ گیا ہے آنکھوں میں
یہ بے زباں بھی کسی عرض ِ حال تک پہنچا
تِری جدائی بھی تیری طرح مکمل تھی
مَیں اپنے ہجر کے اوجِ کمال تک پہنچا
کسی جواب کی مجھ کو نہیں ہے خوش فہمی
یہی بہت ہے وہ میرے سوال تک پہنچا
Advertisements
یہ شعر دیکھنے والے کو کیا خبر فیصل
کہ کس عذاب سے ہو کر خیال تک پہنچا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں