میرا سخن جو تمھارے خیال تک پہنچا۔۔فیصل فارانی

‎مِرا سخن جو تمھارے خیال تک پہنچا
‎تو خستہ حال بھی اپنے کمال تک پہنچا

نکھار اور بڑھا ہے گلاب کا تب سے
یہ تیرے ہونٹوں کی جب سے مثال تک پہنچا

‎خوشا نصیب کہ دل آ گیا ہے آنکھوں میں
‎یہ بے زباں بھی کسی عرض ِ حال تک پہنچا

‎تِری جدائی بھی تیری طرح مکمل تھی
‎مَیں اپنے ہجر کے اوجِ کمال تک پہنچا

‎کسی جواب کی مجھ کو نہیں ہے خوش فہمی
‎یہی بہت ہے وہ میرے سوال تک پہنچا

Advertisements
julia rana solicitors london

‎یہ شعر دیکھنے والے کو کیا خبر فیصل
‎کہ کس عذاب سے ہو کر خیال تک پہنچا!

Facebook Comments

فیصل فارانی
تمام عُمر گنوا کر تلاش میں اپنی نشان پایا ہے اندر کہِیں خرابوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply