• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مسلم حکومتوں میں رشوت لینے /دینے کی روایت۔۔۔(قسط اوّل)تحریر: محمدشعبان/ ترجمہ: نایاب حسن

مسلم حکومتوں میں رشوت لینے /دینے کی روایت۔۔۔(قسط اوّل)تحریر: محمدشعبان/ ترجمہ: نایاب حسن

یحیٰ بن میمون حضرمی، جو 723ء میں مصر کے قاضی مقررکیے گئے، ان کے منشیوں کاحال یہ تھاکہ بغیررشوت کے ایک فیصلہ بھی لکھنے کوآمادہ نہیں ہوتے تھے، قاضی صاحب کواس بارے میں کئی بارخبردارکیاگیا، مگرانھوں نے کوئی توجہ نہ دی، بالآخرشکایت اس وقت کے اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک بن مروان تک پہنچی، تواس نے مصرکے گورنرولیدبن رفاعہ کوخط لکھ کرفورایحیٰ کومعزول کرنے کافرمان جاری کیا، ہشام بن عبدالملک نے خط میں لکھا: “یحیٰ کوذلیل وخوارکرکے عہدۂ قضاسے برطرف کرو اور اس منصب کے لیے کسی پاک دامن، متقی وپرہیزگار، بے عیب اور امورِ دین میں مخلوق کی ملامتوں سے بے پرواانسان کاانتخاب کرو “ـ

اس واقعے کو مؤرخ محمدبن یوسف کندی نے اپنی کتاب “کتاب الولاة وكتاب القضاة ” میں بیان کیاہے، اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ مسلم حکومتوں کے بعض مخصوص شعبوں، حتی کہ قضا(عدلیہ) جیسے شعبے میں بھی رشوت کارواج تھا، یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ عہدِغلامان (ممالیک) تک پہنچتے پہنچتے مختلف اعلی مناصب کے حصول کے لیے رشوت کابطوروسیلہ استعمال عام ہوگیا ـ

عہدِ عباسی:
عہدِ عباسی میں بصرہ کاقاضی بننے کے لیے قاضی حسین بن محمدہاشمی نے دولاکھ درہم خرچ کیے،لیکن اس سے پیسے لے لیے گئے اورقاضی نہیں بنایاگیا، جسے بیان کرتے ہوئے معروف مؤرخ ابن تغری بردی نے اپنی کتاب “النجوم الزاھرة في ملوك مصروالقاهرة “میں لکھاہے: “اللہ تعالی اس شخص پررحم کرے، جس نے اس کے ساتھ یہ حرکت کی اوراسے دھوکہ دیااوران لوگوں پربھی رحم کرے، جوایسے عہدے کے حصول کے لیے رشوت دیتے ہیں “ـ

محمدبن یوسف کندی نے توعہدِ عباسی کے کئی ایسے قاضیوں کی نشان دہی کی ہے، جورشوت لے کر فیصلہ کرنے میں مشہورتھے، مثلاً عبدالرحمن بن عبداللہ عمری، جو801ءمیں مصرکے قاضی مقررکیے گئے، محمدبن حسن بن ابوالشوارب (وفات: 960ء) جنھیں”کوئی بھی اچھانہیں کہتاتھا اوروہ رشوت لے کرفیصلہ کرنے میں مشہورتھے “ـ اسی طرح قاضی محمدبن بدرصیرفی (وفات: 911ء) کی رشوت خوری بھی زبان زدِ عام تھی ـ

عہدِ اخشیدی:
وقت کے ساتھ ساتھ مسلم حکومتوں میں رشوت خوری کی روایت بھی مضبوط ہوتی گئی، حتٰی کہ اخشیدیوں کی حکومت میں رشوت دے کر بڑے سے بڑا سرکاری /مذہبی عہدہ حاصل کرنا ایک عام بات تھی، کندی نے ایک واقعہ بیان کیاہے کہ عمربن حسن بن عبدالعزیزہاشمی مکہ کے پڑوس میں رہتاتھا،جب وہ قاہرہ پہنچا اور لوگوں کواس کے احوال کاعلم ہوا، توانھوں نے اس کی تحسین کی اوراس کے ظاہری علم وتقویٰ وغیرہ کودیکھ کر اسے قاضی کے عہدے کے لائق قراردیا، چنانچہ اسے بھی قاضی بننے کاشوق ہوا، کوشش کی اوربالآخرکافوراخشیدی (905-968) کی خدمت میں “نذرگزارنے”کے بعد عہدۂ قضاتک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوگیا ـ ۔کندی نے ایک دوسراواقعہ مصرکے قاضی عبداللہ بن محمدبن خصیب کانقل کیاہے، لکھتے ہیں “اس(ابنِ خصیب) نے دمشق کے قاضی ابوطاہرذہلی پر جھوٹے الزامات لگاکر کافورکواسے معزول کرنے پراکسایا، چنانچہ کافورنے ذہلی کومعزول کرکے دمشق کااضافی چارج بھی اسے ہی سونپ دیا اورابوطاہر کی تمام ترصفائی کو ان سنی کردی، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابن خصیب نے ابوطاہرپرجھوٹے الزامات لگانے کے ساتھ دمشق کاقاضی بننے کے لیے کافورکورشوت بھی دی تھی ـ

کافوررشوت خوری کاعادی تھا، چنانچہ مختلف ملازمتوں کے خواہاں لوگ اسے مال پیش کرتے اورآسانی سے اپنی مرادپالیتے تھےـ مکہ کے قاضی عبداللہ بن احمد بن شعیب، جوکھانے کھلانے میں مشہورتھے ?جب انھیں پتاچلاکہ مصر کے قاضی ابن خصیب (جس کااوپرذکرہوا)کاانتقال ہوچکاہے، توانھوں نے فوراًمصرکاقاضی بننے کے لیے کافورکوتین ہزاردینار کی رشوت پیش کی، لیکن دوسری طرف مصرکے بااثراور اصحابِ رائے لوگوں کی رائے تھی کہ دمشق کے معزول شدہ قاضی ابوطاہرذہلی کومصرکاقاضی بنایاجائے، کیوں کہ وہ مصرمیں پہلے سے موجودتھے اور اس عہدے کے لائق بھی تھے، کافورکے لیے بڑی مشکل کھڑی ہوگئی، ایک طرف تین ہزاردینارکی نذر، تودوسری طرف مصرکی اکثریت کی رائے، بالآخر اسے لوگوں کی رائے کے سامنے جھکناپڑااورتین ہزاردینارکی قربانی دے کر ابوطاہرکو مصرکاجج بنایاـ

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply