کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟۔۔ راحیلہ کوثر

پاکستان کے دیہات کا مقبول و معروف اور محبوب کھیل’ کبڈی’جب شہروں کے میدان سر کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پربھارت ،کینیڈا،امریکہ،ایران،انگلینڈ،سری لنکا ودیگر ممالک میں بھی کھیلا جانے لگا ،تو پاکستانی کبڈی ٹیم کوبھی اپنا مستقبل روشن  نظر آنے  لگا ۔

کبڈی کا پہلا ورلڈ کپ 2010 میں منعقد ہوا جس کی فتح کا سہرا انڈیا کے سر تھا ۔ بعد ازاں منعقد ہونے والےتمام کبڈی ورلڈکپ 2011 ۔2012 ۔2013۔ اور 2014 بھی بھارت کے نام رہے۔ رواں سال کبڈی ورلڈ کپ کی میزبانی کا شرف پہلی بار پاکستان کو حاصل ہوا تو پاکستانی کبڈی ٹیم نے میدان مار لیا اور کبڈی ورلڈ کپ 2020 اپنے نام کر لیا۔

ورلڈ کپ میں پاکستانی کبڈی ٹیم کی قیادت محمد عرفان نے کی جبکہ شفیق احمد ٹیم کے نائب کپتان کے فرائض سر انجام دیتے دکھائی دیئے۔ دیگر کھیلاڑیوں میں شاہرام ساجد، راشد محمود، بن امین، قمر زمان، ظفر اقبال، ارسلان محمود، ہیرابٹ، محمد نفیس، مشرف جاوید، کلیم اللہ، اکمل شہزاد، محمد سجاد، بلال محسن، وقاس احمد، ساجد نثار، عبید اللہ، محمدزوالقرنین اور توصیف لیاقت شامل ہیں۔
سب سے پہلے تو اپنی فاتح ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو مبارک باد اور سلیوٹ پیش کرتی ہوں اور ان کے لیے دل وجان سے دعا گو بھی ہوں کہ اللہ آپ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے اور آئندہ بھی پاکستانی کبڈی ٹیم ہی چیمپئن بنی رہے۔

اب آتی ہوں میں اصل موضوع کی جانب، بلاشبہ پاکستان کا کرکٹ میں اپنا ایک تشخص ہے اور 1992 کا اکلوتا ورلڈ کپ پاکستان کے حصے میں بھی آیا اور تو اور یہ وہ کھیل ہے جس کے بے شمار سپانسرزبھی ہیں اور اس کھیل میں بہت سا پیسہ بھی ہے۔ ان تمام حقائق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پی۔ایس۔ایل کا نیا سلسلہ بھی کچھ دنوں میں شروع ہو جائے گا جو کہ نہایت ہی خوش آئند بات ہے۔

روزانہ خبروں میں اس کی تیاریاں دکھائی جاتی ہیں اور ابھی سے کرکٹرز کی کمرشلز کا دور دورہ ہے ۔ پی۔ ایس۔ ایل۔ کا ہر سال نیا اینتھم بنتا ہے جبکہ ہر ٹیم کا بھی اپنا اپنا اینتھم ہے جو ٹی وی پرکئی اشتہاروں کا حصہ   بنا ہوا ہے۔ جبکہ میرے لمبے انتظار کے بعد بھی کوئی کبڈی کا کھلاڑی اچھی کارگردگی کے باوجود کسی ٹی وی کمرشل میں نہیں دکھا بلکہ ہر ٹی وی چینل کے بلیٹن کے اختتامی مراحل میں چند سیکنڈز کی خبر میں پاکستان کے پہلی مرتبہ کبڈی ورلڈ کپ جیتنے کی نوید سنائی گئی، جبکہ پی ایس ایل کی تیاریوں کی خبر کا دورانیہ  حسب معمول زیادہ تھا جو کہ میرے نزدیک نہایت ہی افسوس کی  بات ہے۔ہر کھیل کا کھلاڑی اپنی ز ندگی دیتا ہے اس کھیل کی بقا کی خا طر ،کیا ان کی خدمات کو سراہنے کے لیے بھی وقت کی بندر بانٹ کھلا تضاد نہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

کیا ہم اپنے قومی کھیل ہاکی اور ثقافتی کھیل کبڈی اور دیگر کھیلوں کے ساتھ ایسا ہی امتیازی سلوک روا رکھیں گے؟ کیا ہمارے کبڈی کے ورلڈ چیمپئنز کو مارننگ شوز میں بلایا جائے گا ؟ یا شادی بیاہ  جیسے موضوعات پرہی اکتفا کرلیا جائے گا۔ ہمارے مارننگ شوز کے پاس نو بیاہتا جوڑے دکھانے، سوشل میڈیا کے  سٹارز کے انٹرویوز لینے اور حریم شاہ کو ٹاک شوز کا حصہ بنانے کا بہت وقت رہا ہے اور تو اور خبرنامے میں بھی ایک معقول دورانیہ ان سب کے حصے میں رہا ہے مگر کبڈی کے چیمپئنز کے لیے صرف چند رسمی سیکنڈز؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply