• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا وائرس، چین سے پاکستانیوں کی واپسی۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

کرونا وائرس، چین سے پاکستانیوں کی واپسی۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

چین کے اندر کرونا وائرس نے تباہی مچا رکھی ہے، اب تک پچاس ہزار سے زائد لوگ اس وائرس سے متاثر ہو کر ہسپتالوں میں داخل ہیں، اور 1100 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، چین کے اندر28ہزار سے زائد پاکستانی طلباء موجود ہیں ،جو مختلف شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے وہاں مقیم ہیں ،کرونا وائرس چونکہ بہت حساس وائرس ہے جوکہ ایک شخص سے دوسرے کو بہت تیزی سے اپنی لپیٹ میں لیتا ہے، حالیہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت نے چند روز قبل چین سے اپنے باشندے پاکستان نہ لانے کا فیصلہ کیا ،تاہم بعدازاں اپنا فیصلہ تبدیل کیا، لہذا چین میں موجود پاکستانیوں کو واپس لانے کا سلسلہ جاری ہے ،کرونا  وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر ووہان ہے ،لہٰذا حکومت ِ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صرف چین کے شہر ووہان میں موجود پاکستانیوں کو فی الحال واپس نہ لایا جائے، بلکہ ابھی چین ہی میں رہنے دیا جائے، کیونکہ ایسے خدانخواستہ پاکستان میں بھی یہ وائرس پھیل جانے کا امکان ہے، کیونکہ وائرس کا سب سے زیادہ متاثرہ شہر ووہان ہی ہے۔

اگر ٹھنڈے دل سے اور مکمل سوچ بچار کے بعد دیکھا جائے تو جہاں تک چین کے شہر ووہان میں مقیم پاکستانیوں کو فی الحال پاکستان واپس نہ لانے کے حکومتی مؤقف کا تعلق ہے میں اس سے جزوی طور پر اتفاق کرتا ہوں، کیونکہ ابھی تک یہ وائرس پاکستان میں نہیں آیا، لیکن اگر خدانخواستہ کسی ذریعے سے بھی اس وائرس نے پاکستان کا رخ کر لیا تو کیا ہم اس ہنگامی صورتحال سے نبرد آزما ہو پائیں گے؟

یقیناً اکثریت کی نظر میں اس کا جواب نفی میں ہو گا ۔چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے، چین ایک بہت بڑی معیشت ہے ،جہاں پر علاج معالجہ کی جدید ترین سہولیات ہیں، تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے باوجود ابھی تک اس معاملے کو کنٹرول نہیں کر پا رہے ،دوسری طرف ہمیں تو اس بیماری اور وائرس کے متعلق بنیادی آگاہی ہی نہیں ہے ،اگر خدانخواستہ اب تک ہمارا کوئی پاکستانی بھائی اس وائرس سے متاثر ہو چکا ہے تو چین میں تو بہتر علاج معالجہ کی سہولیات کیساتھ اس کا علاج ہو جائے گا ،لیکن پاکستان میں فی الحال ہمارے لیے ناممکن ہے ترقی یافتہ ممالک جہاں پر علاج معالجہ کی نت نئی سہولیات موجود ہیں ،اور ان کے پاس فنڈز بھی وافر مقدار میں موجود ہیں ،وہ تو بآسانی اپنے شہریوں کو اپنے ممالک میں لے کر جا سکتے ہیں اور متاثرہ شہریوں کا علاج معالجہ بھی بطریق احسن کر سکتے ہیں کیونکہ وہاں دنیا کی جدید سہولیات پہلے سے موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم ان ممالک کی فہرست میں شامل ہی نہیں ہیں ۔

ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہمیں اکثر یہ تک سوچنا پڑتا ہے کہ کیا پاکستان میں علاج کی بنیادی سہولیات بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق موجود ہیں یا نہیں، بیشتر قارئین کا جواب نفی میں ہو گا ہمارا حال تو یہ ہے کہ جن بیماریوں سے ہمارے ملک میں اموات ہو جاتی ہیں دیگر ممالک میں وہ بیماریاں معمولی نوعیت کی سمجھی جاتی ہیں ،ہمارے ہاں تو ہسپتال میں کتے کاٹے جیسے مرض کی ویکسین بھی نایاب ہو جاتی ہے، پوری دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور تباہ حال ممالک نے پولیو کے مرض کو اپنے ممالک میں سے جڑ سے اکھاڑ باہر کیا، اور آج کئی سال سے وہاں پولیو وائرس کا نشان تک موجود نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے ہم دنیا کے ان صرف تین ممالک کی فہرست میں شامل ہیں کہ جو پولیو کو اپنے ملک سے ختم نہیں کر سکے اور ہر سال پولیو وائرس کے کیسز رپورٹ ہو جاتے ہیں۔

ہم بیس سال سے زائد عرصہ سے پولیو کے خاتمے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اس کا جڑ سے خاتمہ ممکن نہیں ہو پایا ،دوسری مثال ڈینگی کی ہی لے لیں کہ کس طرح پاکستان میں ڈینگی نے تباہی مچا دی ،ڈینگی کنٹرول کیلئے حکومت پاکستان نے بھی قابل ِ ستائش اقدامات کیے، لیکن اس کے باوجود آج دس سال بعد بھی   ڈینگی کے خطرات منڈلاتے نظر آتے ہیں، اگر حالیہ دنوں میں ٹڈی دل کی ہم بات کریں تو سندھ سے ٹڈی دل پنجاب میں بھی پھیلنے کی اطلاعات آ رہی ہیں، کیا ہم نے ٹڈی دل سے نمٹنے کیلئے کافی اقدامات کیے ہیں ،دیکھیں کہ ہم کیا اقدامات کر پائے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

جہاں تک کرونا وائرس اور ووہان میں موجود پاکستانیوں کا تعلق ہے تو پاکستانی حکام کا فیصلہ جزوی طور پر درست ہے ،لیکن ووہان میں موجود پاکستانی بہت پریشان ہیں، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ فی الفور ووہان میں موجود ہر یونیورسٹی اور دیگر پبلک مقامات پر ہنگامی بنیادوں پر ہیلپ ڈیسک قائم کیے جائیں، کیونکہ اس مشکل وقت میں ان پاکستانیوں کی بات سننے، ان کو حوصلہ دینے اور ان کی ہمت بندھانے کی ضرورت ہے ۔ان کے والدین پاکستان میں الگ سے پریشان ہیں، لہٰذا انکے اپنے پیاروں کیساتھ رابطوں میں آسانی پیدا کی جائے ،یہ ہماری ریاستی ذمہ داری ہے کہ ووہان میں موجود طلبہ کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس کا ایک آسان سا حل یہ ہے کہ اس معاملے میں فوری طور پر پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ بحث کروائی جائے۔ وزیراعظم پاکستان اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اس کو فوری طور پر خود مانیٹر کریں۔ وزارت اوورسیز پاکستانی کے تحت چینی حکومت کے تعاون سے ووہان میں موجود پاکستانیوں کی سکریننگ کیلئے ڈاکٹرز کے پینل پر مشتمل کاؤنٹر قائم کیے جائیں اور وہاں موجود تمام پاکستانیوں کی سکریننگ اور مکمل طبی معائنہ کیا جائے جو لوگ مکمل طور پر تندرست ہیں اور وائرس سے متاثر نہیں ہیں انکو فوری طور پر بحفاظت پاکستان واپس لے کر آ جائیں جو لوگ خدانخواستہ کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں ان کا چین میں ہی علاج معالجہ کا مکمل انتظام کیا جائے اور مکمل تندرستی کے بعد انھیں بھی پاکستان واپس لانے کے انتظامات کیے جائیں ۔چین نے اس آفت سے نمٹنے کیلئے چند ہی دنوں میں بہت بہترین حفاظتی انتظامات کیے ہیں ،اور بہت تیزی سے کر رہا ہے جو کہ قابل ستائش ہے کسی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کیلئے حفظ ماتقدم کے طور پر پاکستان کو بھی سنجیدگی سے انتظامات کرنے چاہئیں۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply