نطشے کا مرزاغالب کو خط۔۔ اظہر وقار

نطشے کا مرزاغالب کو خط
میرے عزیز!
امید کرتا ہوں تم خیریت سے نہیں ہو گے جانتا ہوں خیریت و سکون تم پہ حرام ہے مگریہ بات باعث حیرت رہی کہ برصغیر جیسی سرزمین پہ کوئی ایسا شاعر ہے جو روائتی بتوں کے الٹنےکے درپے ہے۔ ان پرانے بتوں کا الٹنا بہت ضروری ہے جب تک یہ ہستی میں رہیں گے ہم پستی میں رہیں گے، گر یہ پست ہوں گے تو ہم بلند ہوں گے۔ تم مشرق سے ہو اور مشرق کی زمین مجھے یوں بھی بھلی لگتی ہے۔ زرتشت کا تعلق بھی اسی زمین سے تھا اوراس سے تو تم خوب واقف ہو گے، عجب شخص تھا آدمی تھا یا آگ تھا۔ خیر ایک انگلستانی دوست کے ذریعے تمھارے بارے معلوم ہوا، اسی نے تمھاری شاعری کو مجھ تک پہنچایا مگر یہ اہم نہیں، بلاشبہ تمھارا کلام اہمیت کا حامل ہے۔
مجھے اس شخص سے فطری طور پہ ہمدردی ہو جاتی ہے جو میرے جیسی طبیعت رکھتا ہے اور تو بھی میری ہی طبیعت کا نکلا، تومشکل چیزوں کا ہمیشہ غار یار رہا ہے اور اپنے گھر کو بلندی پہ تعمیر کرنے کی دھن میں لگا رہا ہے۔
تمھاری شاعری پڑھی پڑھتا گیا پڑھتا گیا۔ آہ ظالم تو نے کیا کیا کہ میرا ماضی قبریں توڑ کر نکل آیا۔ وہ تکلیفیں جو کفن اوڑھے سو رہیں تھیں وہ سب بیدار ہو گئیں۔ ان کی بیداری اب طبیعت پہ بھاری ہے اور شاعری میں خودداری تمھاری سواری ہے۔ میں جانتا ہوں کیسے اس خود داری نے تمھارے جنون کو تھام رکھا ہے ۔ میرا جنون بھی معلوم نہیں کس قدر بڑھ جاتا اگر مسرت زندگی اور خود داری مجھ کو نہ بچا لیتی ۔ سنو دوسروں کے پاس ہم خود کو کھونے کے لیے جاتے ہیں اور آج میں بھی تمھارے پاس خود کو کھونے کے لیے آ پہنچا۔ آہ بہت عرصے تک تنہائی کا قیدی رہا ہوں لہذہ خاموش رہنا بھول گیا ہوں۔ میں سر تا پا کلام ہوں ضبط کرتا ہوں اور ضبط سے بے آرام ہوں۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکان کو ایک نقش پا پایا

تمھارا یہ شعر جو نظر سے گزرا اس کو اعلی پائے کا شعر جانتا ہوں میں اس شعر کو پڑھتا ہوں اور لطف اندوز ہوتا ہوں۔ بات یوں ہے کہ اس شعر سے بڑھ کر پڑھ نہیں پایا کیونکہ آگے کچھ ہے ہی نہیں۔ اس میں طاقت، حوصلہ، بے بسی، حیرت سب یکجا ہو گئے۔
یوں تو شاعری کو خرافات جانتا ہوں کیونکہ شاعر اپنے پانی کو جان بوجھ کر گندہ کرتے ہیں تا کہ گہرا معلوم ہو۔ پستی میں رہتے ہوے خود کوبلند سمجھنا بد نیتی ہے، افسوس کرتا ہوں ان کے مبالغے پر اور جھوٹی روشنی پر۔ مگر تم روائت شکن ہو تخلیق کے حقیقی درد سے بخوبی آگاہ ہو۔ جو بھی تم نے تخلیق کیا کتنا بہتر ہو کہ
اب تم اس سے بڑھ کر تخلیق کرو۔ ہاں میں فلاسفرز کا بھی کوئی خاص شیدائی نہیں یہ تعصب پھیلاتے ہیں سچائی نہیں۔ تعصب کے اوپر سچائی کا رنگ چڑھا کراس کو سجا کر لوگوں کے آگے پیش کرتے ہیں۔ لیکن ایسا ہے کہ ہمیشہ ایسے انسان پیدا ہوتے رہنا چاہییں جو تمھیں بلندی کی طرف کھینچیں اور تم میں نئی زندگی کی چہل پہل پیدا کردیں ان کے بغیرتمھاری زندگی ہیچ ہے۔ کیا اس سے پہلے تمھیں کسی نے یہ بات بتائی؟
تمھیں چاہیے کہ تم طاقت کواپنے کلام میں خاص اور اہم مقام دو۔ طاقت نیکی ہے، سمجھداروں کے لیے ضروروی ہے کہ طاقت حاصل کر کے نیک ہو جائیں ۔ تو کلام لکھنے کی طاقت رکھتا ہے اور طاقت حق رکھتی ہے کہ تیرے کلام کا مرکز بنے پس میری بات مانو اس کوحق جانو اور اپنا فرض ادا کرو۔ اور ہاں فوق البشر کو نہ بھول جانا۔ بھلا معلوم بھی ہے فوق البشرکون ہے؟ وہ جو خود سے بڑھ کر پیدا کرتا ہے۔
یہ کیا تم کہتے ہو کہ موحد ہو اور ساتھ ہی کہتے ہو تمھارا کیش ترک رسوم ہے، کیا موحد ہونا بھی ایک رسم نہ ہوئی؟ خدا پہ ابھی تک کیوں ٹکے ہوے ہوتمھیں خبر نہ ہوئی کہ خدا تو کب کا مر چکا ہے۔ یہ انسان تواس کی ایک غلطی تھی یا پھر خدا کی تخلیق انسان کی ایک غلطی تھی۔ تم اب اس رسم کو بھی ترک کروبلکہ تصور خدا ہمیشہ کے لیے دریا برد کرواور کچھ بڑھ کر پیدا کرو۔ کیا تم جانتے ہو مذہبی رہنماؤں کا ایک ہجوم ہے جس نے دن رات آسماں سر پہ اٹھایا ہوا ہے۔ یہ مذہب کی پیداوار ہیں یا مذہب ان کی پیداوار ہے معلوم نہیں مگریہ بظاہر مذہب کے پیروکار ہیں۔ بہرحال ایسے لوگ میری طبیعت پہ بہت گراں گزرتے ہیں یہ کتنے ناپسندیدہ ہیں۔ میرا تو گناہ بھی ان کی نیکیوں سے زیادہ پاک ہے، اس پاکیزگی میں منافقت نہیں اور جہاں منافقت ہے وہاں پاکیزگی نہیں۔ اس گناہ کا خیال کتنا بہتر ہے جو سرزد ہو کر تحلیل ہو جائے بہ نسبت اس کے جو شعور کو مسلسل گندلا کرتا رہے لیکن سرزد نہ ہو سکے۔ آہ منافقت تو خود کی سلطنت کو اندر سے دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیتی ہے۔ بلا شبہ انسانوں میں عالی شان خیالات کی قحط سالی ہے۔
گردو نواح کا یوں ہے کہ لوگوں سے کوئی خاص سروکار نہیں پڑھنے لکھنے کے شغل سے وابستہ ہوں جو بیکار نہیں۔ یہ لوگ نہ میری بات سنتے ہیں نہ ان کو سناتا ہوں نہ سمجھنا چاہتے نہ میں سمجھاتا ہوں۔ سنو تم سننے والے ہو میں وہ منہ ہی نہیں جو ان کانوں کے لیے بنایا گیا اور نہ میرے کان ہیں جو ان کے منہ کے لیے بنائے گئے ہوں۔ تمہیں نہیں معلوم دنیا ان لوگوں سے بھری پڑی ہے جو ضرورت سے زائد ہیں اور انہوں نے دوسروں کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔ یہ نہیں جانتے یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ جو دنیا کو کھو بیٹھا اس نے اپنی دنیا پیدا کر لی اوراس کافر نطشے نے بھی دنیا کو کھو دیا اور اس نے اپنی دنیا پیدا کر لی اور میری دنیا ان کی دنیا سے ذیادہ وسیع الشان ہے۔ اب یہاں ایسی زندگی گزارتا ہوں کہ خود پہ خود کی سلطنت قائم رکھی ہوئی ہے خود ہی خود کا حاکم ہوں خود ہی خود کا محکوم۔ حاکمیت ایسی جیسے خودمختار بادشاہ اورغلامی ایسی جیسے انتہا درجے کی غلامی۔ خود کی فرمانبرداری کر کے خود کو بہت محبوب رکھتا ہوں۔ دیکھو دیکھو میری زبان تیز ہوگئی ہے اورمیرے دل میں میری قدر بڑھ گئی۔ آہ نوشہؔ کیا میرے دل کا دہرا عزم تمھاری سمجھ میں آتا ہے؟

تمھیں محبت سے متعلق بھی کچھ بتانا چاہتا ہوں، یہ ایک ڈھونگ ہے جس میں محبت کرنے والے یونہی ایک دوسرے سے متعلق غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جب کوئی محبت میں داخل ہو تو اس سے فیصلہ کرنے کا اختیار چھین لو کیونکہ وہ کبھی بھی  بہتر فیصلہ نہ کر پائے گا۔

سنو! جو لوگ میرے ساتھ برائی کر تے ہیں، میں ان کو معاف کر دیتا ہوں لیکن جو یہ خود اپنے ساتھ کرتے ہیں اس پہ ان کو کیسے معاف کر دوں؟ اب میں اپنے دل میں ایک عظیم الشان رفعت محسوس کرتا ہوں، اس رفعت پہ میرے علاوہ اور کون ہے؟ بلندی پہ غالب ہوں میری کتنی خواہش ہے کہ کوئی آئے اور مجھ کو مغلوب کر لے۔ آہ نوشہؔ کیا میرے دل کا دہراعزم تمھاری سمجھ میں آتا ہے؟

بہت سی ناگزیر قسم کی روایات سے بھی آزاد ہو گیا ہوں روح کی روح سے ہمزاد ہو گیا ہوں دیکھو غالب میں آزاد ہو گیا ہوں۔ تم کتنے محاذوں پہ کتنی دیو ہیکل بلاؤں سے لڑ رہے ہو مگر یاد رکھنا ان بلاؤں سے لڑتے لڑتے کہیں خود بھی کوئی عفریت نہ بن جانا۔ کیا اس سے پہلے تمھیں کسی نے یہ بات بتائی؟

میرے ہمدم! رات ہو گئی ہے رات ہو گئی ہے اس وقت گیت جاگ اٹھتے ہیں میری روح بھی کسی چاہنے والے کا گیت ہے رات ہو گئی ہے۔ میں بلندی پر کتنا تھکا ماندہ ہوں بھاگ جانے والوں کو ناپسند کرتا ہوں گیتوں کی طرف میلان کرتا ہوں۔ مگر اب سراپا انتظار ہوں لیکن انتظار آخر کس کا ہے؟ انتظار آخر کس کا ہے ؟ مکان میرا بادلوں سے بہت قریب ہے، ہاں پہلی تجلی کے انتظار میں ہوں۔ آہ نوشہؔ کیا میرے دل کا دہراعزم تمھاری سمجھ میں آتا ہے؟

طویل گفتگو اس لیے ناپسند ہے کیونکہ اس میں سے اخلاص اڑ جاتا ہے اور اخلاص مجھے پسند ہے۔ آج میں نے تمھیں مختلف احوالوں میں سے اپنا ایک حال بتایا پس اس کوقال سے زیادہ حال سمجھنا حالانکہ جانتا ہوں میرا حال سمجھنا محال ہے۔ یہ گویا کسی جام کا حال تھا وہ جام جو پوری طرح سے بھر چکا ہے اور اب چھلکنا چاہتا ہے۔

یہ تمھارے لیے کتنا بہتر ہے کہ تم مجھ سے ملاقات کرو حالانکہ تجھ پہ یہ فرض نہیں لیکن یہ میری خواہش ہے۔ اگر ممکن ہے تو میری طرف سفر کا ارادہ کرو تاکہ کچھ دن باہم بسر ہو جائیں۔ اپنی کچھ کتابیں ترجمے کے ساتھ تمھیں بھجوا رہا ہوں، ان کا مطالعہ کرنا اور باقی جو حال ہے مجھے اس سے آگاہ کرو۔ نطشے تمھارے خط کے انتظار میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تمھارا نطشے
ویمر- جرمنی
10 مئی بروز اتوار، 1868

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply