• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مطالعہ تاریخ ۔ مولانا کوثرنیازی: تجزیاتی مطالعہ۔۔۔عبدالغنی محمدی

مطالعہ تاریخ ۔ مولانا کوثرنیازی: تجزیاتی مطالعہ۔۔۔عبدالغنی محمدی

مولانا کوثر نیازی نے اپنی  کتاب “مطالعہ تاریخ ” میں تاریخ  کی متعدد اہم مباحث کو اٹھایا ہے۔ یہ کتاب  مولانا کے بعض خطابات ہیں ، بہت ہی مختصر ہے  لیکن اپنے موضوع کے حوالے سے بعض اہم سوالوں کو ایڈریس کرتی ہے ۔

کتاب کے ابتدائی صفحات کی طویل بحث اس حوالے سے ہے  کہ ماضی میں تاریخ کے کوئی معتبر ذرائع تھے کہ نہیں   ؟ انگریز مؤرخ ایچ جی ویلز کی  رائے ہے کہ دو چار سو سال پہلے تک انسانی تاریخ محض قصے کہانیوں اور قیاس آرائیوں تک محدود تھی ۔مغرب میں مختلف حوالوں سے پائی جانے والی تعلی میں ایک بات یہ بھی ہے کہ ان کے رائٹر پوری انسانی تاریخ پر اپنے موجودہ عہد کو فوقیت دy دیتے ہیں ۔فن تاریخ میں بھی وہ اسی طرح کرتے ہیں ۔حالانکہ موجودہ دور کی تحقیقات بھی متھز اور دیومالا ہیں یا  واقعی کچھ حقیقی چیزیں ہیں اس کا فیصلہ بھی مستقبل ہی کرے گا ۔

مولانا اس پر طویل بحث کرتے ہیں  اور بہت سے دلائل و شواہد سے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہاں تاریخ کا فن بہت پرانا ہے ۔ انہوں نے تاریخ لکھتے ہوئے   صرف نقل پر انحصار نہیں کیا ہے بلکہ خارجی اور عقلی شواہد کو بھی متن کی تصدیق میں استعمال کیا ہے ۔ ان کے ہاں نقدو نظر کا بہت گہراا درک تھا اور جانچ پرکھ کا بہترین انتظام تھا۔ مسلمانوں کے علاوہ یونانیوں ،چینیوں ، ایرانیوں اور ہندوستانیوں   کے حوالے سے مختلف تاریخوں کے حوالے دے کر یہ بات کہتے ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں میں  ہزاروں سال  سے نا صرف تاریخ لکھنے کا عمل شروع ہوچکا تھا بلکہ اس کی تحقیق اور تنقید کا عمل بھی شروع ہوچکاتھا۔تاریخ کی شہادتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ  ہندوستانی ادب چھ  ہزار سال پہلے تخلیق کیا گیا ، اس قدیم ادب میں کن چیزوں کو موضوع بنایاگیا ہے مولانا اس کا بھی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ خارجی شواہد آج بھی ان کی تصدیق کرتے ہیں ۔

مولانا عروج و زوال کے قرآنی فلسفے کو بیان کرتے ہیں ۔ قرآن میں زوال کی نشانیوں کے طور پر امراء قوم کا فسق و فجورمیں مبتلا ہوجانا اور عیاشی میں  لگ جانا ،  وہ لوگ ظالم ہوتے ہیں  ،  وہ قوم انسانیت کے لئے فائد ہ مند نہیں رہتی ،  یہ چیزیں زوال کا باعث ہوتی ہیں ۔

کسی بھی قوم کے عروج و زوال کے الہی قاعدے کو بیا ن کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ” آیت”  کے چار معنی ہیں ۔ ایک تو آیا ت جن سے سورتیں مرکب ہیں ، دوسرا ان معجزات کے لئے ، تیسرا وہ علامت یا نشانی جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے ، چوتھے ان دلائل کے لئے جو زمین و آسمان اور آفاق و انفس کے ہر گوشے میں موجود ہیں۔  جس قوم نے ان میں سے کسی ایک آیت کو اپنایا ہے اس نے  ایک شعبے کی حد تک جزوی طور سے کامیابی حاصل کی ہے ۔ مغربی اقوام نے ایک طرح کی آیات میں غور کیا ، ان میں تدبر کیا ، علم و فنون میں مہارت حاصل کی ، کائنات کے اسرار و رموز  کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی زندگی میں مادی لحاظ سے آسانیاں پیدا ہوگئیں لیکن مغربی اقوام نے آیات تاریخ کو نظر  انداز کیا ، تاریخ کے اسباق کو پس پشت ڈالا ،نتیجہ آہستہ آہستہ ان کے اندر انحطاط پیدا ہونے لگا ،جیسا کہ اس عظیم برطانیہ کی حماقت ہمارے سامنے ہے جس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔ ہاں اشتراکی ملکوں نے آیات تاریخ پر   ایک حد تک غور کیا ، تاریخ کے فلسفے اور تاریخ کے سبق کو ایک حد تک سمجھنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی اقوام فکری میدان میں ان سے شکست کھانے لگیں اور اشتراکی ملکوں کو کم ازکم اس میدان میں غلبہ حاصل ہونے لگا ۔

مولانا کمیونزم کے حامیوں میں سے تھے ، پیپلز پارٹی جس کے ساتھ یہ منسلک رہے وہ بھی ملک میں اسی فکر کو نافذ کرنے کی خواہاں تھی ۔ اگرکمیونزم کو فتح ہوتی تو یقیناً  آیات تاریخ میں ان کا غور درست قرار پاتا اب جبکہ ان کی فکر ی شکست ہوگئی ،تو آیات تاریخ میں ان کا غور بھی غلط ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کی داعی ریاستوں کا آیات تاریخ میں غور و فکر درست ہے ۔ اس انداز میں سوچنا کس حد تک درست ہے ؟    یہ ایک سوال ہے لیکن ہمارا عمومی انداز فکر ایسا ہی ہے ۔

سور ہ عصر کی روشنی میں کامیابی اور عروج کے لائحہ عمل کو لکھتے ہیں ۔ سب سے پہلے ایمان  یعنی مشن پر پورا یقین ، عمل صالح یعنی کام کو اچھی طرح کرنے کاطریقہ معلوم ہو  ، اسی طرح اداء کرنا جس طرح مطلوب ہے ، اس عمل  کی اشاعت و تبلیغ ، جو مشکلات آئیں ان پر صبر کرنا۔

سورہ معارج کی آیت چھ میں انسانی تاریخ  کے پچاس ہزار برس کو ایک دن قرار دیاگیا ہے ۔ اس لئے قوموں کے حالات میں تبدیلی اتنی جلدی نہیں آتی ۔ قوموں کا عروج و زوال کوئی دنوں یا دہائیوں  کاکھیل نہیں ، بلکہ اس میں صدیاں لگ جاتی ہیں ۔

اس کے بعد ایک اہم بحث اٹھا تے ہیں کہ تاریخ از خود جنم لیتی ہے یا اس میں کسی کا عمل دخل ہے جو پوری پلاننگ کے ساتھ اس کو چلارہا ہے ۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ تاریخ خدا کا عمل ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں “ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض ” خدا انسانوں کے ایک گروہ کے ذریعے دوسرے گروہ کو دور کرتا ہے ، شکست دیتاہے ۔ اس لئے ہم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسلام تاریخ کوکوئی اندھی بہری طاقت تسلیم نہیں کرتا بلکہ مانتا ہے کہ وہ قدرت کے منضبط اصولوں کے مطابق کام کرتی ہے ، وہ رضائے الہی کے تابع ہوتی ہے  ۔ وہ اگر کبھی چنگیز اورہلاکو کا کردار اداء کرتی ہے تو صرف اس لئے کہ ناکارہ ، نااہل ، اور اپنی حفاظت پر آپ قادر نہ ہونے والے انسانی گروہوں کو سزا دے ۔ ایک دوسری آیت  میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے ” یدبر الامر من السماء الہی الارض ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنہ مما تعدون ” مطلب کاموں کی  تدبیر کا عمل آسمان سے ہوتاہے ۔

والعصر میں زمانے کی قسم کھائی ہے ، جس کا اصل مفہوم بقول سید سلیمان ندوی زمانہ مع اپنی پوری انسانی تاریخ کے گواہ  ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے تاریخ کی شہادت دلائی ہے ، تاریخ کو گواہ ٹھہرایا ہے اور جو دعویٰ آگے کیا اس کے لئے دلیل کے طور پر تاریخ کو پیش کیا چنانچہ معلوم ہوا کہ تاریخ کوئی اندھی بہری اور گونگی قوت نہیں ہے ۔ محض جذباتی عمل سے اس کے اندر انقلاب پیدا نہیں ہوتے بکہ یہ ان قوانین کی  پابند ہے جنہیں سنن الہیہ کہتے ہیں ۔

انسان کی حیثیت اس کائنات میں ایک بے حیثیت پرزے کی نہیں بلکہ یہ اشرف المخلوقات ہے ، سپنگلر ، ہیگل اور کارل مارکس کے نزدیک انسان سوسائٹی کا ایک پارٹ ہے جز و ہے ۔ فرد کو سماج کا جزو  قرار دینے سے انسان بھی دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہوجاتی ہے ان سے زائد کچھ نہیں ،اسی طرح اس کی روحانی اہمیت کچھ نہیں رہتی ۔ سماج اور معاشرہ انسان کے لئے ہے نا کہ انسان اس کے لئے ،  جو ایک مشین ہو  جس کواس کے لئے بس  کام کرناہے ۔ کائنات انسان کے لئے مسخر کی گئی ہے نہ انسان اس کائنات کے لئے کام میں لگایا ہے ۔

مولانا ایک ایسے دور میں رہ رہے تھے جس میں سوشلز م ایک آئیڈیے  ، نظریے اور عقیدے کی  بنیاد پر عالمی حکومت کا داعی تھا ۔ سوشلز م کے بعد نظریے کی بنیاد پر حکومت کی تعمیرسازی کا عمل عالمی سطح پر مرچکا ہے لیکن اس کی ضرورت کس حد تک مسلمہ ہے مولانا اس کو واضح کرتے ہیں ۔

تاریخ دنیا کو اس موڑ پر لے آئی ہے جہاں ایک عالمی حکومت کا قیام وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے ۔ فلسفی برٹینڈرسل اور تاریخ دان آرنلڈ ٹوائن بی عالمی حکومت کی وکالت میں لب کشائی کرتے ہیں ۔ انہوں نے جبر و اسبتداد ، بے ایمانی اور دوسروں پر دھونس جماکر حکومت کے نظریہ کی جگہ راستی اور عقیدہ و ایمان کی بنیاد پر عالمی حکومت کے نظریہ کو اپنانے پر زرو ر دیا ہے  ۔

دنیا اب سنجیدگی سے ایک ایسی عالمی حکومت کے قیام پر غور کررہی ہے جو باہمی خیر خواہی اور معاہدات کےذریعے عالم وجود میں لائی جائے ، جس میں زبان ، تہذیب و تمدن اور طرز زندگی کی یکسانیت اتحاد کی اساس ہو ۔ روحانی او ر دلی اتحاد کی بنیاد پر قائم حکومت  مضبوط بنیادوں پر استوار ہوسکتی ہے اور بنی نوع انسان کو اس سے  فائد ہ مل سکتاہے ۔ اس لحاظ سے ایسی حکومت کے قیام کے لئے مشترک مذہب ایک لازمہ بن جاتاہے  ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک دور تھا جس میں حکومتیں مذہب کی بنیاد پر قائم ہوتی تھیں یا اپنی بقاء اور لوگوں کی وحدت کے لئے ان کو مذہب کا سہارا لینا پڑتا تھا ، دو صدیوں سے ریاستوں کو مذہب کے عمل دخل سے پاک کرنے کی کوشش کے کیا اچھا برے نتائج نکلے ہیں جہاں یہ چیز گہرے غور و فکر کی متقاضی ہے وہیں اس امکان پر بھی غور وفکر کرنا چاہیے کہ کیا واقعی مذہب مرچکاہے اور آئندہ کی صدیوں میں لاخدا ریاستوں کا وجود ہی ہوگا یا مذہب اپنی قوت اور کشش کی بناء پر افراد و اقوام کو مجبور کردے گا کہ اس کو سوسائٹی اور ریاست کا لازمی حصہ بنایاجائے ؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی عملی صورتیں کیا ہوں گی ؟ مولانا نے اس بحث کے بنیادی حصے کو چھیڑا ہے لیکن اس کے ساتھ جڑے ان سوالوں پر غور وفکر ہمارا کام ہے ۔

Facebook Comments

عبدالغنی
پی ایچ ڈی اسکالر پنجاب یونیورسٹی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply