• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پوٹھوہاری تہذیب کی نمائندہ کتاب۔۔۔طاہر یاسین طاہر

پوٹھوہاری تہذیب کی نمائندہ کتاب۔۔۔طاہر یاسین طاہر

کسی زبان کا حسن اس کا روز مرہ ، محاورے اور اس کا ادب ہوتا ہے۔یہ بحث کا مقام نہیں کہ پوٹھوہاری زبان ہے یا بولی،نیزبولی اور زبان میں کیا فرق ہے؟ یا کوئی مقامی بولی کن مراحل سے گزرتےہوئےزبان جیسا وسیع دامن لےکر سائنسی و سماجی علوم کو اپنے ہاں جگہ دیتیہے۔ماہرین ِ لسانیات اس حوالے سے کام کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ کسی قیام کے بغیر جاری رہے گا۔البتہ اس میں کلام نہیں کہ پوٹھوہار کی اپنی ایک توانا تہذیب اور اپنا ایک الگ رنگ ہے۔یہ دعوے دیگر خطے بھی کرتے ہیں، یقیناً ہر خطے کی ایک تہذیب اور اس کا رنگ ہوتا ہے اور اس کے باسی اپنی تہذیب اور رنگ سے جدا نہیں ہو سکتے، مثلاً سندھ دھرتی،اور سرائیکی وسیب کی اپنی ایک تہذیب اور اپنا جداگانہ رنگ ہے، اسی طرح پنجاب کا خطہ اپنے دامن میں زرخیر ادبی روایت کا امین ہے۔کوئی زبان اس وقت تک زرخیر زبان نہیں کہلائی جا سکتی جب تک اس کا ادب زرخیر اور ہمہ گیر و عالمگیر نہ ہو۔
پوٹھوہاری تہذیب، پوٹھوہاری زبان اور پوٹھوہاری ادب کے حوالے سے زرخیز اذہان تخلیق و تحقیق میں لگے ہوئے ہیں اور دھرتی سے اپنی محبت کا حق ادا کر رہے ہیں۔مجھے یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ ابھی تک پوٹھوہاری میں کام کرنے والوں نے ایسا معرکۃ آرا ادبی شہ پارہ تخلیق نہیں کیا جسے کم از کم ہم اردو تو کجا ،سرائیکی ادب کے برابر بھی لا سکیں۔لیکن پوٹھوہاری تہذیب اور اس کی ادبی روایات کو مستحکم کرنے میں جو احباب دن رات کام کر رہے ہیں ،ان کی محنت،جستجو اور ماں بولی سے ایمان کی حد تک محبت کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے بلکہ خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔اس امید کے ساتھ کہ انشا اللہ پوٹھواری “غزل،بیت،
نظم،چو مصرعہ،ماہیا،گیت ” وغیرہ کی ہیئت اور اس کے اوزان و عروض طےکرتے ہوئے “اہلِ زبان” اپنی تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو عادلانہ فکر کے ساتھ بروئے کار لائیں گے۔پوٹھوہاری میں ابھی غزل ،نظم،چو مصرعہ کہا جا رہا ہے،گیت بھی کہے جا رہے ہیں، افسانے بھی لکھے جا رہے ہیں،ڈرامے اور ٹیلی فلمیں بھی لکھی جا رہی ہیں، مگر میری دانست میں اس حوالے سے مزید گیرائی و گہرائی کی بے تحاشا گنجائش باقی ہے۔میاں محمد بخش نے جب اپنی معرکۃ الاآرا کتاب ” سیف الملوک” لکھی تو انھوں نے اظہار کے لیے جس زبان کا انتخاب کیا وہ پنجابی ہے، میاں صاحب نے ایک عہد کو متاثر کیا ہے اور آئندہ کئی نسلیں ان کے پر اثر کلام سے استفادہ کرتی رہیں گی،اسی طرح ہمارے خطہ پوٹھوہار میں سائیں احمد علی ایرانی کے چو مصرعہ نے تقریباً ہر تیسرے شخص کو متاثر کیا، لیکن سائیں احمد علی ایرانی کا لب و لہجہ بھی پوٹھوہار ی نہیں،بلکہ ان کے کلام میں فارسی ترکیبیں،اور لہجے میں ہندکو زیادہ پائی جاتی ہے۔مثلاً” شاعر بعید از ذہن ہو گئے حسن ِ کودک نے وصف بنانڑ لگیو” ایسی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔اسی بنا پر میں نے کہا کہ ابھی پوٹھوہاری تخلیق کاروں کو سخن کی زمین سے شیریں پانی نکالنے کے لیے فکر کی کئی کدالیں توڑنا پڑیں گی۔
تحقیق اور مسلسل تفکر انشا اللہ پوٹھوہاری ادب کو علاقائی زبانوں کے ادب میں ممتاز کرے گا اور اہل ِ فکر و ہنر کی محنت ضرور رنگ لائے گی،کیونکہ پوٹھوہاری زبان اپنےاندر جو لچک رکھتی ہے اس سے یہ نئے الفاظ و تراکیب کو اپنے لہجے میں سمو لے گی۔پوٹھوہار کے بڑے بوڑھوں نے اپنے تجربات کا جو نچوڑ لفظوں کی شکل میں دیا ہے انھیں ہی اس زبان میں ” اکھانڑ” کہا جاتا ہے۔میرے سامنے اس وقت برادرِ عزیز فیصل عرفان کی کتاب”پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے” ہے۔فیصل عرفان ایک عامل صحافی ہیں اور انھوں نے بڑی دقت اور لگن کے ساتھ اپنے کام کو تکمیل کی لڑی میں پرویا ہے۔یہ امر واقعی ہے کہ پوٹھوہاری کا رسم الخط،اس کے قواعد و ضوابط پر اس زبان کی ” علمی و ادبی” بنیادیں کھڑی کرنے والے ہی ابھی تک متفق نہیں ہو سکے ہیں۔جب کسی زبان کے قواعد ہی ابتدائی مراحل میں ہوں تو اس زبان میں کسی بڑے ادبی شہ پارے کی امید صحرائوں میں میٹھے چشمے تلاش کرنے کے مترادف ہے۔محقق نے اپنی کتاب میں پوٹھوہاری محاورے اور اکھانڑ رقم کرتے ہوئے ان کا اردو میں ترجمہ بھی ساتھ شائع کیا ہے تا کہ قارئین کو آسانی رہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پوٹھوہار کی ادبی تاریخ،بلکہ پوٹھوہار کا سرسری ذکر بھی اس کتاب کے بغیر نا مکمل رہے گا۔آئندہ جو بھی پوٹھوہار پر کام کرے گا ،اس محقق کو فیصل عرفان کی کتاب کی طرف لازمی رجوع کرنا پڑے گا۔اس کتاب کا فلیپ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب نے لکھا ہے جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں،ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور عروض و لسانیانت کے ماہر ہیں۔شیراز طاہر اور یاسر کیانی جیسے پوٹھوہاری کے تخلیق کاروں نے اس کتاب پر تبصرہ کیا ہے۔فیصل عرفان نے بجا لکھا کہ ” مندرہ سے چکوال روڈ کا پوٹھوہاری لہجہ اور ہے، شرقی گوجرخان کا پوٹھوہاری لہجہ اور ہے،اور، روات سے کلر سیداں و کہوٹہ کا پوٹھوہاری لہجہ اور ہے۔شاید یہی لہجے کا فرق اس کے بنیادی قواعد کی “متفقہ” بنیاد اٹھانے میں حائل بھی ہے۔کتاب سے چند مثالیں دیکھیے۔” انہاں تلاں وچ تیل نئیں”۔” انھاں کتا وائو کی پہھونکے خصم آکھنڑ شکار آیا”پلے نئیں تہھیلا تے کرنی میلہ میلہ”۔ ” پانڑی ہمیشہ لہھائی دَر گشناں”۔ ” پچھوں آئے ہور،جناں اگلے دتے ٹور”۔ ” خصم کرے نانڑیں چٹی دوہترے کی “۔ ” رنڈی مائو نے پتر بادشاہ”۔” پتراں نی کھٹی نصیباں آلے کھانڑیں”۔ “ہِک نہ تے سو سکھ”۔ “ہلوں چھٹ موہر پٹ”۔ اب ذرا پوٹھوہاری محاورے دیکھیں۔” آپڑیں گور انگاریں پہھرناں”۔”اکھیں پلاہیں ہتھ باہنڑاں”۔”انت چانڑاں”۔”اتھروں نیں ہار پرونڑاں”۔”اڈنے بازے نے پر کپڑاں”۔ ” ڈنگ ٹپانڑاں”۔” لکوں پینڑاں”۔
یہ چند مثالیں جو کتاب سے لی گئی ہیں،اس سے قارئین اندازہ کر سکیں گے کہ پوٹھوہار کی ” سینہ بہ سینہ” پھیلتی دانش کو محقق نے کس جانفشانی اور دیانت سے یکجا کر کے خطہ پوٹھوہار کی اجتماعی دانش کا ذخیرہ اہلِ فکر و ہنر کےسامنے پیش کر دیا ہے۔میں ضرور یہ تجویز دوں گا کہ فیصل عرفان اس نہج پر بھی تحقیقی کام کریں کہ پوٹھوہار کی اپنی صنفِ سخن کون سی ہے؟ اور یہ کہ ابھی تک اس زبان میں کس کس ادبی صنف پر تحقیقی و تخلیقی کام ہوا ہے۔فیصل عرفان ان “گالیوں” کو نہ مرنے دیں جو شادی بیاہ پر عورتیں ڈھولک کی تھاپ کر گایا کرتی تھیں جیسے” رنگ لغا مراجئے رنگ لایا” کیونکہ اب یہ ہماری تہذیبی روایت قریب قریب دم توڑ چکی ہے۔اسی طرح شادی بیاہ میں ہی عورتیں ایک دوسری کو “سٹھڑیاں” بھی دیا کرتی تھیں۔پوٹھوہار کی ثقافت اور اس کے علاقائی و تہذیبی رنگ کو جمع کرنے والے دوستوں کو اس نہج پرضرور کام کرنا چاہیے۔بارِ دگر عرض ہے کہ فیصل عرفان کی کتاب” پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے” آئندہ پوٹھوہار کی تاریخ و تہذیب پر کام کرنے والوں کو اپنی پوری تحقیقی قوت کے ساتھ اپنی طرف متوجہ کرتی رہے گی۔ پوٹھوہار کی تہذیب پر ہونے والا آئندہ کام اس کتاب کے حوالے کے بغیر نا مکمل ہو گا۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پوٹھوہاری تہذیب کی نمائندہ کتاب۔۔۔طاہر یاسین طاہر

Leave a Reply to راجہ نوید حسین Cancel reply