کیا اب برقع پر بحث بند ہونی چاہیے؟۔۔ابھے کمار

سپریم کورٹ کے سابق جج اور پریس کونسل آف انڈیا کے سابق چیئرمین مرکنڈے کاٹجو نے ایک بار پھر متنازع بیان دیا ہے اور اقلیت مسلمانوں کے مذہب اور ثقافت کے متعلق غیر سنجید گی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل بھی وہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو یہ کہہ کر مایوس کر چکے ہیں  کہ ‘مسلم پرسنل لاء  انصاف پر مبنی قانون نہیں ہے۔ یہ وحشیانہ قانون ہے۔ یہ فرسودہ قانون ہے کیونکہ یہ خواتین کو کمتر سمجھتا ہے’۔ اُن کے اس بیان پر کافی لوگوں نے رد عمل ظاہر کیا اور کہا کہ اُن کی مسلم پرسنل لاء  کے بارے میں جانکاری آدھی ادھوری ہے۔۳۱ جنوری کے روز اُنہوں نے ٹویٹ کر  کے پھر ہنگامہ کھڑا کر دیا اور کہا کہ ‘شاہین باغ میں غیر متناسب تعداد میں حجاب پوش خواتین کی موجودگی اس طرح کے تاثرات پیدا کرتی ہے  کہ یہ مسلمانوں کا جلسہ ہے اس لیے  اس نے  انجانے میں زیادہ تر ہندوؤں کو دور کر دیا ہے، جس کا فائدہ دہلی انتخابات کے دوران بی جے پی اٹھائے گی۔’ جسٹس کاٹجو اتنا ہی کہہ کر خاموش نہیں رہے ، بلکہ یہ بھی سوال کیا کہ مسلم خواتین کیا بغیر حجاب کے جلسے میں شرکت نہیں کر سکتی ہیں؟۔۔

کاٹجو صاحب نے شاہین باغ کے بارے میں جو کچھ بھی کہا وہ بہت حد تک ہندو فرقہ پرستوں کے پروپیگنڈے سے مماثلت رکھتا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے دہلی انتخابات کے دوران شاہین باغ کا خوف دکھایا اور ہندو رائے دہندگان سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر بی جے پی دہلی میں اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے، تو وہ شاہین باغ کے مظاہرے کو ختم کروا دے گی اور مسلمانوں کی “زیادتی”سے اُن کو “نجات” دلا دے گی۔ دہلی کے رائے دہندگان سمجھدار نکلے اور وہ بی جے پی کے جھانسے میں نہیں پڑے ۔ اُنہیں یہ بات بخوبی معلوم تھی کہ دہلی پولیس مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں ہے  اور نظم و ضبط کی ذمّہ داری مرکزی حکومت کی ہے، لہٰذا دہلی میں سرکار ہونے اور نہ ہونے کا براہ راست تعلق شاہین باغ سے نہیں ہے۔

یہ سب سن کر مجھے بھی حیرانی ہوتی ہے کہ ہندو فرقہ پرست، جن کی پوری سیاست مسلم مخالف ایجنڈے پر منحصر ہے، اور کاٹجو جیسے سیکولر اور نہرو کے نظریہ کے حامل، بعض اوقات ایک ہی زبان میں بولنے لگتے ہیں۔ دونوں کے اندر  اقلیتوں کے مذہب، کلچر اور تہذیب کو لے کر ایک طرح کی بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا موقف مسلم دشمنی پر ٹکا ہوا ہے اور کاٹجو جیسے روشن خیال لوگ سیکولرازم اور جدیدیت کے نام پر مسلمانوں کے پرسنل لا ء اور مسلم خواتین کے برقع اور حجاب پہننے پر واویلا مچاتے ہیں۔

گزشتہ دو مہینوں سے میں خود شاہین باغ اور اس طرح کے دیگر مظاہروں کو بڑے قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ شہریت ترمیمی قانون، جو مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے والا کالا قانون ہے، ہمارے آئین سے ٹکراتا ہے اور یہ آئین کی ایک اہم اقدار سیکولرازم کی روح کے بھی خلاف ہے۔ ہمارے ملک میں دھرم اور مذہب کے نام پر کسی کے ساتھ تعصّب نہیں برتا جا سکتا ہے۔جب دھرم کی بنیاد پر ہمارے دیش میں کسی کو بھی وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ بننے سے روکا نہیں جا سکتا ہے، تو مذہب کے نام پر “ناگرکتا” کیسے دی جا سکتی ہے؟

اس بات کو ہماری  سیاسی جماعت وقت پر نہیں سمجھ پائی۔ اگر وہ سمجھتی تو یہ بل پارلیمنٹ میں ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ملک کے بڑے بڑے ماہر آئین بھی دل سےیہ قبول کرتے ہیں کہ یہ قانون بھارت کی سیکولر  سیاست  کے لیے صحیح نہیں ہے، مگر اپنے مفاد کی خاطر وہ خاموش ہیں۔

وہیں دوسری طرف شاہین باغ کی خواتین، جو اُن کی طرح زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں اور غریب اور محکوم بھی ہیں، اپنے بچوں کو سینے سے لگائے ہوئے سڑکوں پر اُتر جاتی ہیں اور یہ پیغام سرکار کو دیتی ہیں کہ مذہب کے نام پر وہ بھارت کو پھر سے بٹنے نہیں دیں گی ۔ سردی کے عالم میں سڑکوں پر بیٹھ کر لوگوں کے حوصلے کو گرم رکھنے کے لیے وہ دن رات نعرہ بلند کرتی ہیں۔ ایک ایسی ہی خاتون نازیہ ہر روز شاہین باغ احتجاج میں شرکت کرنے کے لیے جاتی تھی۔ اُن کے لبوں پر ہندو مسلم اتحاد اور بھارت کے آئین کی تمہید رہتی تھی۔ مگر سردی نے اُن کے چار مہینے کے بچے کو   اُن سے چھین لیا۔ نازیہ اپنے معصوم بچے کو کھو چکی ہیں، مگر وہ اب بھی لڑ رہی ہیں۔ انہوں  نے یہ بھی افسوس ظاہر کیا کہ اگر یہ کالا قانون نہیں تھوپا جاتا ،تو شاید اُن کا بچہ انکے پاس اب بھی کھیلتا ہوا،موجود ہوتا ۔

شاہین باغ کی خواتین کی اتنی بڑی قربانی کو فراموش کر کے ان کے لباسوں پر تبصرہ کرنا بہت ہی غیر حساسیت کا اظہار کرنا ہے۔ جو لوگ مسلمانوں کے لباس اور اُن کی شناخت پر سوال کرتے ہیں وہ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اُن کی خود کی زندگی بھی اُن کے دھرم سے رہنمائی پاتی ہے۔ کوئی بھلے ہی خود کو سیکولر اور ملحد کہے ، مگر وہ اس بات سے انکار نہیں کر سکتا ہے کہ کسی بھی ملک میں اکثریتی طبقے کی مذہبی علامات “قومی علامات” تصوّر کی  جاتی  ہیں اور اقلیتوں کی  مذہبی علامت پر “ڈر اور خوف” کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔

آپ ہی بتلائیےکیا دہلی کی سڑکوں پر دوڑ رہی ڈی ٹی سی کی بسوں پر دیوی دیوتا کی تصویر نہیں دیکھنے کو ملتی ہے؟ کیا سرکاری دفتروں میں دیوی دیوتا کے مجسموں کو رکھنا “نرمل” نہیں بتلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ یہ “طرزِ زندگی” کا حصہ ہے؟ کیا سرکاری منصوبوں کا افتتاح پوجا پاٹھ سے شروع نہیں کیا جاتا؟ کیا ہمارے سیاست داں اور بڑے بڑے آئینی منصب پر بیٹھے لوگ پوجا پاٹ  کرتے تصویر کو اخبارات میں شائع نہیں کرواتے اور یہ پیغام دینے کی کوشش نہیں  کرتے ہیں کہ وہ ہندؤں کے بڑے ” خیر خواہ ” ہیں؟

تبھی تو اقلیتوں کے لباس اور اُن کی  مذہبی علامات کو دیکھ کر خوش ہونا چاہیے ۔اُن سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ لوگوں کی پوشاک، طرزِ زندگی، مذہب اور عقیدے  الگ الگ ہوتے ہیں ان سب کا احترام ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں سیکولرازم کا مطلب مذہب سے بغاوت نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اکثریتی طبقے کے دھرم کو ریاست اپنا دھرم تسلیم کر سکتی ہے۔ بھارت کا آئین یہ کہتا ہے کہ ریاست کا کوئی اپنا مذہب نہیں ہوگا۔ مگر ریاست تمام مذاہب کا تعین یکساں سلوک کے ساتھ  کریگی اور کسی کے ساتھ تعصب نہیں برتے گی۔ بھارت کی اصل طاقت تکثیریت اور تنوع ہے۔ گاندھی جی نے بھی یہی بات کہی تھی۔ انہوں نے  ایک مذہبی ہندو ہونے کے باوجود بھی کسی دوسرے مذہب کے پیرو کار کو یہ نہیں کہا کہ آپ اپنی  مذہبی علامتوں کو کیوں ظاہر کرتے ہیں۔

جسٹس کاٹجو ان باتوں کو اکثر بھول جاتے ہیں اور کئی بار ایسے بیانات دے دیتے ہیں جن کی وجہ سے ہندو فرقہ پرستوں کو تقویت مل جاتی ہے۔ وقت کا تقاضا  ہے کہ برقع اور حجاب سے متعلق بحثوں کو ختم کیا جائے۔ یہ ساری بحثیں نئی نہیں ہیں بلکہ ان کے تار مستشرقین سے بھی جڑے ہوئے ہیں، جنہوں نے اسلام اور مسلم سماج کی شبیہ بگاڑنے میں بڑا رول ادا کیا۔ اسلام میں عورتوں کے  حقوق نہیں ہیں ۔ اسلام کے اندر سکولرازم اور جمہوریت نہیں آ سکتی کیونکہ وہاں لوگ مذہب کے جنون  میں مبتلا ہیں۔ اسلام میں اصلاح نہیں ہوپائی  ہے۔ ایسے سوالات کھڑے کرکے  مستشرقین اور مغربی مصنفین نے مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان متعصبانہ تحریروں کی تنقید پیش کی جائے۔ مسلم سماج میں اصلاح کی ضرورت کو  کوئی خارج نہیں کر رہا ہے۔ اصلاح ہونی چاہیے اور محکموں کے لیے مزید حقوق کی بات ضرور ہونی چاہیے۔ مگر یہ بحثیں سیکولر پلیٹ فارم پر ہوں ، اور وسیع تناظر میں ہوں ۔ اصلاح کے نام پر ان بحثوں کو نہ تو فرقہ ورانہ کیا جائے اور نہ ہی مسلمانوں کی شبیہ ہی بگاڑی جائے۔

(ابھے کمار جے این یو میں ریسرچ اسکالر ہیں)

Advertisements
julia rana solicitors

debatingissues@gmail.com

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply