جیسا بیج ویسا پھل۔۔روبینہ فیصل

درخت کاٹ کر کاغذ بنا کر جب اس پر لکھا جاتا ہے کہ درختوں کی حفاظت کریں تو کیسا لگتا ہے؟ بالکل ویسا ہی نا جیسے بچوں کو مادیت پرستی، جھوٹ، بغض، مقابلے بازی اور کینہ سکھا کر معاشرے سے بھلائی کی امید رکھی جاتی ہے۔نہ میں ماہر نفسیات ہوں نہ کوئی استاد مگر ایک ماں اور ایک بینا انسان ہوں اور اسی ناطے سے جو نظر آرہا ہے اسے کہہ دینا ضروری ہے۔ ایک صاحب نے کہا اور بجا کہا کہ سیاست کی کیا بات کرنا ہر کوئی کر رہا ہے اور اپنا حق سمجھ کے کر رہا ہے، مگر اخلاق اور سماج کی کوئی بات نہیں کر رہا، ایک گھر کی کوئی بات نہیں کر رہا جس کی چار دیواری کے اندر انسانوں کی وہ کھیپ تیار ہو رہی ہے جو وہاں سے نکل کر مختلف شعبہ ٗ ہائے زندگی میں پھیل جاتے ہیں، اور انہی میں سے ایک شعبہ سیاست بھی ہے تو جو بنیادی تربیت بچے گھروں سے لے کر نکلتے ہیں اسی کا عکس معاشرے میں دکھاتے پھرتے ہیں، گالی صرف سیاست دان کے حصے میں آتی ہے،حالانکہ آج کل اس گالی کا حق دار ہر کوئی ہے۔۔۔ ہر کوئی۔۔۔

کینیڈا کے سکولز میں بچوں کو سوک سینس بھی سکھائی جاتی ہے اور اخلاقیات پر بات بھی ہو تی ہے۔ اپنے حقوق کی بات بھی ہو تی ہے اور ہر وہ چیز جو انہیں ایک انسان کی بہتری کے لئے درست لگتی ہے، اپنی سمجھ بوجھ اور تقاضوں کے مطابق، وہ اسے بچوں کو سکول میں ہی سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسر رہ جائے تو والدین گھر میں سبق دہراتے رہتے ہیں کہ کوئی آپ کے کام آئے تو شکریہ بولو،آپ سے کسی کا نقصان ہو جائے، یا کو ئی چھوٹی بڑی غلطی سر زد ہو جائے تو فوراً معافی مانگ لو، ماں باپ بچوں سے بھی معافی مانگ لیتے ہیں کہ یہ حکم تو ہمارے نبی کا بھی ہے کہ جس کام کی تعلیم دو اس کا عملی نمونہ بھی دکھاؤ کہ بچے سنتے نہیں بلکہ دیکھتے ہیں۔

یہاں سڑک پر چلنے کے قوانین، انسانوں کو ہی نہیں دوسری گاڑیوں کو بھی راستہ اور عزت دینا سکھاتے ہیں۔ یہاں تربیت اور نظام نہ ہو تو گورے، ہم دیسیوں سے زیادہ جنگلی بن سکتے تھے۔ بات سکولوں میں دی جانے والی تعلیم اور ایک مستحکم نظام کی ہے جس کی وجہ سے ہم کینیڈا کو مہذب ملک اور پاکستان کو تھرڈ ورلڈ کا ملک کہتے ہیں۔ اور کہتے رہیں گے جب تک ایک بچے کی تربیت ٹھیک خطوط پر نہیں ہو گی۔

مقام ِ حیرت ہے کہ اسلامی ممالک میں اخلاقیات کا فقدان ہے۔ پاکستان بھی اسلام اسلام کرتا پیدا ہو ا تھا، لا الہ کا نعرہ ہر طرف تھا اور بعد میں بھی جس نے بھی تاجِ حکمرانی سر پر رکھا ساتھ ہی نعرہ تکبیر بھی بلند کردیا اورلوگوں میں اسلام اسلام کا شور ڈلوا دیا ۔ آج بھی نمازیوں کے نہ سجدے کم ہو ئے ہیں اور نہ ماتھوں پر پڑنے والی محرابیں ۔ مگر جسم میں سے روح نکل چکی ہے۔ سکول،اسلام کی اصل روح سے دور ہیں، سرکاری سکول بچوں کو تعلیم نہیں بلکہ صرف ڈگریاں دے رہے ہیں۔ زور ہے تو جسم پر، روح کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں، مدرسوں میں نہ تعلیم ہے نہ ڈگریاں، انگلش میڈیم سکولز گدھوں پر دھاریاں بنا کر زیبرے بنا رہے ہیں اور ماں باپ۔۔۔۔۔ماں باپ بچوں کو منافقت،حرص اور حسد کا سبق ذور شور سے رٹوا رہے ہیں۔

پاکستانیوں کو ایک بات پر بہت ناز ہوا کرتا تھا کہ ہم اعلی اخلاقیات کے علمبردار، کوئی چاند سے اتری مخلوق ہیں جن میں احساس اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی ہے اور گوروں کو سائنسی اور ہر قسم کی ترقی کرتے دیکھ کر جل کڑھ کر خود کو تسلی دیا کرتے تھے یا شاید ڈھٹائی سے اب بھی دیا کرتے ہیں کہ لو دیکھو ذرا کیسے سور کھا کھا کے، بن روح کے جسم جو جذبوں سے خالی ہیں اور یہ مطلبی قسم کے لوگ ہیں جو بغیر غرض کے کسی کی طرف منہ کر کے تھوکتے بھی نہیں۔خود غرض، بے حس اور نہ جانے کونسے کونسے فتوے ان مغربی لوگوں کے لئے ہوا کرتے تھے۔ مگر افسوس کے ساتھ آج کی تاریخ میں یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے ہم جو آدھے تیتر آدھے بٹیر ہیں ہم کون ہیں؟ نہ ہم نے کوئی دنیاوی ترقی کی اور اخلاقی جس کا جھنڈا اٹھائے پھرتے تھے، محبت، رواداری، برداشت، صبر اور نہ جانے قران پاک کی کن کن آیتوں سے کون کون سا عطر نکال کر اپنے مردے پر چھڑکا کرتے تھے کہ پھول تمھارے تو کیا وہا خوشبو تو ہماری ہے۔۔
مگر سوچیں۔۔ رک کر سوچیں اور بار بار سوچیں۔۔ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیوں کھڑے ہیں۔۔

میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہم،مطلب ایک پاکستانی، ایک مسلمان کی حیثیت سے، اس زندگی میں علم اور اخلاق کی کوئی درجہ بندی ہو تو ہم سب سے آخر ی سیڑھی پر کھڑے ہیں اور شاید سیڑھی پر تو ہیں ہی نہیں زمین یا زیر ِ زمین ہیں۔۔۔ محبت، برداشت،اعلی ظرفی،صبر اور خلوص یہ اثاثہ تھا جس کا ہم دعویٰ کیا کرتے تھے۔۔کیا اب بچے یہ سبق گھروں سے لے کر نکل رہے ہیں؟ کیا سکولز انہیں یہ تربیت دے رہے ہیں؟

میرا مشاہدہ یہ ہے اس سے اگر کوئی اختلاف کرے تو مجھے دلی خوشی ہو گی کہ کچھ سچ ایسے ہو تے ہیں جن کے لئے دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ کاش یہ جھوٹ ہی ہوں۔۔ مجھے اس معاملے میں اگر کوئی جھوٹا قرار دے دے تو میں خوشی سے جھوم اٹھوں گی۔۔۔۔۔

والدین بچوں کو خود یہ سبق سکھا رہے ہیں کہ صرف کامیاب ہو جاؤطریقہ کوئی بھی اختیار کرو۔۔ ایسا ہے کہ نہیں؟
بچوں کو کہا جا رہا ہے کہ خبردار کبھی کسی کے سامنے سچ مت بولنا۔۔ جھوٹ بولو گے، اعلی سرکاری عہدے داروں یا امیروں سے دوستی کرو گے، ان کے تلوے بھی چاٹنے پڑیں تو چاٹو گے، دل میں جتنا بھی بغض ہو ماتھے پر ایک بھی شکن نہ آنے پائے، دل گالیوں سے بھرا ہو، منہ سے پھول ہی اگلنے پڑیں گے۔۔۔ ایسا ہے کہ نہیں؟
جس سے ضرورت ہو صرف اس سے ملو، بغیر پیسے، یا بغیر عہدے کے لوگوں کو منہ لگانے کی ضرورت نہیں، ان کے پیار یا خلوص کو چاٹنا ہے کیا؟ ایسا کہا جا رہا ہے یا نہیں؟
جو کام کا بندہ ہو، مطلب جس سے کوئی بھی کام نکل سکتا ہو، وہ کردار کو کتنا بھی کمزور کیوں نہ ہو، شراب پیتا ہو، جوا کھیلتا ہو، رنڈی بازی کرتا ہو، جھوٹ بولتا ہو، قبضہ گروپ ہو، کوئی مافیا ہو، کوئی بھی شیطان ہو۔۔ میرے بچے تمھارا اس سے کوئی تعلق نہیں تم نے اسے بے تحاشا عزت دینی ہے اپنے گھر کھانے پر بلانا ہے جیسے بھی، تمھارے فنکشن میں ایسا بااثر بندہ آجائے تو کیا ہی کہنے۔ کیا ایسا نہیں کہا جا رہا؟
کیا کسی ماں باپ نے آجکل بچوں کو یہ کہا کہ انسانوں میں برتری کا معیار تقوی ہے؟
کوئی تم سے لاکھ محبت کرتا ہو، لاکھ مخلص ہو، اگر اس سے کام نکل آیا اور وہ آگے تمھارے کسی کام کا نہیں تو اس پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں، کامیابی کی کنجی کہ استعمال کرو اور آگے بڑھو۔۔۔ کیا میں جھوٹ لکھ رہی ہوں، کیا ایسی باتیں دانشمندی کی باتوں میں شمار نہیں ہو رہیں؟
تمھیں کسی کی کوئی بات کتنی بھی بری لگی ہو، پیچھے پیچھے سے کر لو اس کو منہ پر بتانے کی ضرورت نہیں، منہ پر بس ہر ایک کو خوش دلی سے ملو، لیکن اگر کوئی بندہ کام کا نہیں تو اس کی رکھ کے بے عزتی کر دو، اس نے کچھ غلط کیا ہو یا نہیں ۔۔ کیا یہ تربیت کا حصہ بن رہا ہے یا نہیں؟

اپنا کام نکلوانے کے لئے اپنے ہی بچے کھا جاؤ۔۔جو تمھاری ترقی کی راہ میں آئے اسے نگل جاؤ اور ڈکار بھی نہ لو۔۔ ترقی کر و آگے بڑھو۔۔ ایسا ہے کہ نہیں، خوشی کے یہ نئے مطلب نکلے ہیں یا نہیں؟
اپنی کسی غرض کے بغیر کسی دوسرے کی مدد کرنے والے کو احمق اور جذباتی نہیں کہا جا تا؟ کسی کی موت کا سوگ منانے والے کو ہا ہا حد سے جذباتی نہیں کہا جا تا۔۔؟
کسی کے دکھ میں دل سے شامل ہو نے والے کو کیا یہ نہیں کہا جا تا کہ پاگل ہے اپنی ہمت سے زیادہ بغیر کسی لالچ کے مدد کر رہا ہے اس کا انجام برا ہونے والا ہے اور کیا اس کا انجام واقعی برا نہیں ہوتا؟صبر اور اللہ پر توکل اور اللہ سے صلہ ملنے کی امید دلانے والے سائے بھی ساتھ نہیں چھوڑ جا تے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو مجھے بتائیں میں سننا چاہتی ہوں کہ میں یہ سب جھوٹ لکھ رہی ہوں۔۔۔
کیا ماں باپ دوسروں سے مقابلے بازیوں اور ضد بازیوں میں بچوں کو اپنا آپ بیچنے، کیش کروانے، اور بولی لگوانے کے طریقے خود نہیں بتا رہے؟

کیا آج گھروں میں بیٹھ کر یہ بات کی جاتی ہے کہ اس بندے نے نیکی کی، اپنی حد سے باہر جا کر کسی کی مدد کی، کسی غریب یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا، ان کی مدد کی، کسی بیٹی کی شادی کروا دی، کسی کو سڑک پار کروا دی، کسی کو منزل دکھا دی، کسی کا منزل تک پہنچنے کا وسیلہ بن گیا، تو چلو مل کر اسے شاباش دیں تاکہ کل کو اس کی تقلید میں ایک پو ری بٹالین تیار ہو، اس کے برعکس اس نیکی کرنے والے کا ٹھٹھہ لگایا جا تا ہے، جس کے ساتھ اس نے نیکی کی ہو تی ہے اس کے ہاتھوں درگت بنتے دیکھ کر سب ہنستے ہیں، پیٹھ پیچھے کہتے ہیں بڑا آیا تھا جنت کمانے والا اور وہ خود بھی اور اس کو دیکھنے والے بھی آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھو نیکی کرنے والے احمقوں کا یہ انجام ہو تا ہے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خبردار!! جو کبھی بھولے سے بھی کسی کے کام آئے۔کیا ماں باپ بچوں کو آپسی احترام، برداشت، مساوات اور انصاف سکھا رہے ہیں؟کیا ماں باپ بچوں کو سچ بات کہنے کی تلقین کررہے ہیں؟ شکر گذاری اور قناعت اور صبر کی تعلیم دے رہے ہیں؟ نفسا نفسی کے اس دور میں دوسروں کا خیال رکھنے کی بات کرتے ہیں؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔۔کوئی کر رہا ہے تو آئے اورمجھے چیلنج کرے۔
اس کے بعد مزاحیہ ترین بات یہ ہے کہ سب بیٹھ کر دوستوں میں، رشتوں داروں میں، فیس بک پر، وٹس ایپ پر گروپس میں اس بات پر افسوس کرتے نظر آتے ہیں کہ نجانے اب لوگ اتنے خود غرض، حاسد اور کینہ پرور کیوں ہو تے جا رہے ہیں۔ نہ جانے کیوں معاشرے سے دردمندی اور احسان مندی ختم ہو رہی ہے۔ وفا، محبت اور خلوص کہاں گیا۔بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔ نہ جانے وہ بھلے وقت کیا ہوئے جب انسان انسان کے کام آیا کرتا تھا، جب سچ کی جیت اور جھوٹ شرمسار ہو کر منہ چھپایا کرتا تھا، دھوکہ دینے والے کا منہ کالا اور ایماندار کے سر پر سونے کا تاج ہو ا کرتا تھا۔
یہ نادان نہیں جانتے کہ یہ سب اپنے ہی بوئے ہوئے بیج ہیں جن کا پھل بالکل وہی ہے جیسا بیج بویا گیا تھا۔
اب تو فوٹو شاپ نے منافقت اور بناوٹ کے سب ریکارڈ توڑ دئیے ہیں، انسان کا اصل تو کہیں کھو ہی گیا ہے۔ اصلی انسان غائب اور ہر طرف نقل ہی نقل چھائی ہو ئی۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جیسا بیج ویسا پھل۔۔روبینہ فیصل

Leave a Reply