“پاک آرمی زندہ باد” مبہم خیالات۔۔۔ذیشان نور خلجی

گئے دنوں کی باتیں ہیں کہ ہر شام، میرا آرمی کینٹ کا چکر لگا کرتا۔ بھلا ایک قانون دان کے بیٹے کا فوجی چھاؤنی میں کیا کام؟ لیکن تب ‘بلڈی سویلین’ جیسی اصطلاح وجود میں نہیں آئی تھی۔ میں نے رولر سکیٹنگ آرمی کے کورٹس میں ہی سیکھی۔ اور وہاں موجود انسٹرکٹر نے، جو کہ آرمی کے حاضر سروس حوالدار تھے، کبھی مجھ میں اور آرمی آفیسرز کے بچوں میں فرق روا نہیں رکھا۔ یہ تب کی بات ہے جب “تم ہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے” اور “ہم پاکستان کی بری فوج کے شیر دلیر سپاہی” جیسے نغمے ہمارا خون گرمایا کرتے تھے۔ میرا بچپن پی ٹی وی پر شہداء کی ڈاکیو منٹریز دیکھتے، اور پاک آرمی کے راہ چلتے جوانوں کو سلام کرتے گزرا ہے۔ کیا خوبصورت دن تھے دل میں اک احترام سا، وطن کے ان غیور جوانوں کے لئے ہوا کرتا تھا۔ شاید تب آرمی اور ہم عوام کے درمیان حد فاصل کی لکیر نہیں کھینچی گئی تھی۔

بلکہ ابھی پچھلے روز کی بات ہے میں بچوں کے ساتھ محو سفر تھا۔ پاس سے ایک آرمی ٹرک گزرا۔ میں نے فرط جذبات سے کہا۔ بچے ! کبھی آرمی کے جوان نظر آئیں تو انہیں محبت سے سیلوٹ کرنا۔ یہ ہمارے محافظ ہیں۔ ہماری قوم کے امین ہیں۔ ہم ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن آج میں لکھنے بیٹھا ہوں تو میرا دل بھی سگریٹ کے ساتھ ساتھ سلگنے لگا ہے۔ آنکھوں میں چبھن سی دھر آئی ہے۔ وہ سبق جو شروع دن سے پڑھتے آئے تھے۔ جیسے بھولنے سے لگے ہیں۔

قارئین ! ان گئے دنوں کے علاوہ بس تین دفعہ ہی کنٹونمنٹ جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ ایک دفعہ جب ایک کلاس فیلو کو کمیشن ملا۔ دوسری دفعہ جب ایک دوست کی میجر رینک پہ ترقی ہوئی۔ اور تیسری اور شاید آخری دفعہ آج۔

پہلے دو تجربات بہت خوشگوار رہے شاید آرمی آفیسرز کا مہمان تھا اس لئے فوجی جوان بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ لیکن سچ کہوں تو میرے دل میں خواہش جاگی کہ میں بھی فوج میں کمیشن لوں۔ لیکن اس سے بہت پہلے کہیں، میں نے اپنے رستے متعین کر لئے تھے۔ بھلا ایک آزاد منش بندے کا آرمی سروسز سے کیا لینا دینا؟

آج کہیں فرنچ کٹ رکھے فلم میکنگ کے رموز ڈسکس کر رہا ہوں، کیا پتا کل کو کہیں شلوار ٹخنوں سے اونچی کیے، تبلیغی جماعت کا ہم سفر ٹھہروں۔

خیر ! آج تو جیسے دل ٹوٹ سا گیا۔ گو ایک ذاتی نوعیت کے معاملے میں کینٹ جانا ہوا اور متعلقہ افسر جن کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا بڑی خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ لیکن وہاں ڈیوٹی پہ موجود جوانوں سے مل کر دل ٹوٹ سا گیا۔ ایسے محسوس ہوا جیسے میں پاک آرمی کے بہادر جوانوں کی بجائے پنجاب کانسٹیبلری کے سپاہیوں کے روبرو ہوں۔ پہلے تو یہی خیال آیا کہ شاید چیک پوسٹس پہ پوچھ تاچھ کے اکتا دینے والے مراحل نے دل کھٹا کر دیا ہے۔ لیکن بعد میں یہ خوش فہمی بھی ہوا ہوئی، واپسی پہ جب میں نے مختلف پوزیشنوں پہ کھڑے جوانوں سے علیک سلیک کی ان کا احوال دریافت کیا۔ ان کی باڈی لینگوئج سے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کہہ رہے ہوں ایک چمڑی والی مخلوق کا وردی والے لوگوں سے کیا لینا دینا۔

ان کے پاس میری مسکراہٹ کے جواب میں احساس سے عاری ہی سہی، کیا ایک بناوٹی مسکراہٹ بھی نہ تھی؟ ایک سستی سی مسکراہٹ تو ہم اس اجنبی شخص پہ بھی نچھاور کر دیتے ہیں جس نے راہ چلتے ہمیں سلام کیا ہو۔ جب کہ میں تو باقاعدہ مصافحہ کر کے ان کا شکریہ بھی ادا کر رہا تھا کہ ہم عوام کے لئے آپ لوگ اپنے آبائی وطن سے دور پردیسیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔
گو کہ اللہ کا شکر ہے اس پاک آرمی کی بدولت ہی میں نے، بجائے حقیقت کے، غاصب افواج کو صرف فلموں کی حد تک ہی دیکھ رکھا ہے۔ لیکن آج ان جوانوں میں، جو   عکس نظر آیا۔ ایسے محسوس ہوا جیسے یہ ہمارے محافظ اور چوکیدار نہیں بلکہ حاکم ہیں۔

کوئی آٹھ دس سال کی بات ہے۔ عقل میں ابھی پختگی نہیں آئی تھی(گو کہ اب بھی نہیں آئی)۔ آرمی کے ایک حاضر سروس صوبیدار میجر سے اختلاف ہو گیا۔ نوبت تکرار تک آ گئی جب اس نے فوج کا رعب جھاڑنا چاہا۔ میں نے گالی کے سے انداز میں کہہ دیا۔ تم لوگ ہمارے ٹیکسوں سے ہی تنخواہ لیتے ہو۔ اس لئے اپنی اوقات میں رہو۔ مجھ پہ رعب جھاڑنے کی ضرورت نہیں۔ خیر ! اس کا بڑا ظرف تھا کہ بات وہیں ختم ہوگئی۔ تب مجھے وہ بہت بُرا لگا تھا۔ لیکن اب سوچتا ہوں شاید وہ ایک اچھا انسان تھا کہ اس نے بات ٹھپ کر دی۔ ورنہ آج تو میں کسی سپاہی رینک کے آدمی کو بھی یہ بات نہیں کہہ سکتا۔

یار لوگ کبھی کبھار آرمی سے بغض کا اظہار کرتے تھے۔ (جس کو تحریر میں لانا ممکن نہیں) تو میں سوچا کرتا تھا کہ وہ کتنے غلط ہیں۔ لیکن اب سوچتا ہوں کہ وہ غلط تھے تو میں بھی کلی طور پہ درست نہیں تھا۔
کوئی کہتا تھا کہ ناگہانی صورتحال میں اگر آرمی امدادی کاموں میں حصہ لیتی ہے تو اس میں ان کا کمال نہیں۔ کیوں کہ بارکوں میں بیٹھی فارغ بٹالین انہی کاموں کے لئے ہوا کرتی ہے۔ لیکن میرا ماننا تھا اگر ہم ایدھی فاؤنڈیشن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں یا ریسکیو 1122 کو ان کی خدمات پہ سراہتے ہیں حالانکہ یہی تو ان کے فرائض ہیں۔ تو پھر ہمیں پاک آرمی کو بھی سراہنا چاہیے۔

اب کبھی سوچتا ہوں کہ بالفرض یار لوگ ٹھیک بھی کہتے ہوں اور (خاکم بدہن) ہماری آرمی غلط بھی ہو۔ پھر بھی ان کی خدمات کے پیش نظر انہیں مارجن دینا بنتا ہے۔
اب یہی دیکھ لیں، رات گئے کالم لکھ رہا ہوں۔ اور تھوڑی دیر میں ایڈیٹر کو بھیج کے سکون سے سو جاؤں گا۔ لیکن کہیں دور بارڈر پہ، میرے وطن کی سرحدوں کا محافظ، پاک فوج کا جوان تو میری حفاظت کے لئے جاگ رہا ہے نا۔ سو اگر اس کا رویہ مجھ سے درست نہیں یا اسے یہ سکھایا گیا ہے کہ تم نے سویلین کو اپنے رویے سے ان کی اوقات یاد دلاتے رہنا ہے۔ پھر بھی وہ اپنی حقیقی ڈیوٹی تو احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے۔ لہذا پاک فوج بالکل درست ہے۔ ہم اسے غلط نہیں کہہ سکتے۔

قارئین ! سوچ کے پنچھی تو قفس کی سلاخوں سے آزاد ہوا کرتے ہیں۔ سو خیال آتا ہے کہ پنجاب پولیس کا وہ سپاہی بھی اپنی جگہ درست ہے جو بیچ چوراہے ناکہ لگائے، آئے دن مجھے جھاڑ پلاتا رہتا ہے کہ اسی کی بدولت میں راہزنوں سے بھی تو محفوظ ہوں نا۔
پھر خیال آتا ہے وہ ڈاکٹر بھی ٹھیک ہے جس کو چار جماعتیں زیادہ پڑھا ہونے کا زعم ہوتا ہے۔ کیا ہوا اگر اس کا رویہ مجھ غریب مریض کے ساتھ تحقیر آمیز ہوتا ہے۔ اس کی سفارش کی گئی دوا سے میں تندرست بھی تو ہو جاتا ہوں۔ بھلے وہ دوا کسی ایسی کمپنی کی ہو جس نے اس کی کمیشن مقرر کی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں پھر تو یہ آرمی بالکل ہی ٹھیک ہے کیوں کہ مجھے اس ملک میں بھی تو رہنا ہے۔ اور اسے غلط کہوں گا تو میرا کالم بھی پبلش ہونے سے رہ جائے گا۔
پاکستان پائندہ باد
پاک آرمی زندہ باد!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply