جن کو عشق نہیں ہے، وندر کیسے جائیں گے۔۔عامبر میر/1

یہ 2012 کے ابتدائی ایام کا واقعہ ہے۔ میری اخباری کالم نگاری کچھ زورآوروں کے لیے تکلیف کا باعث بنی اور مجھے سائنس کالج کوئٹہ سے اٹھا کر وندر بھیج دیا گیا۔ جعفرآباد کا لوکل رکھنے والے اور کوئٹہ میں سیٹلڈ آدمی کے لیے یہ کالا پانی تھا۔ بلوچستان کا نقشہ سامنے رکھیں تو یہ تینوں علاقے ایک دوسرے کے طرفین میں نظر آئیں گے۔ میری شادی کو ابھی سال نہیں ہوا تھا۔ میں کوئٹہ میں ابھی گھرداری کے لیے پاؤں جما رہا تھا۔ یہ زبردست معاشی جھٹکا تھا، جس سے سنبھلنے میں  پھر کئی سال لگے۔

وندر کراچی سے کوئی سو، سوا کلومیٹر پہ واقع ہے۔ مجھے کراچی سے واقف ہوئے ابھی کچھ ہی برس ہوئے تھے۔ لسبیلہ کی یہ چھوٹی سی تحصیل میرے لیے بالکل ہی نیا علاقہ تھا۔ دو چار مہینے کی لیت و لعل کے بعد مجھے بالآخر جوائننگ دینی پڑی۔ یہاں پہنچنے کے بعد حالات البتہ مختلف ثابت ہوئے۔ اور صرف ڈیڑھ دو برس کے ساتھ میں یہ علاقہ میری یادوں کا مستقل حصہ بن گیا۔

وندر اب بھی کوئی بڑا شہر نہیں، مگر ان دنوں تو بالکل ہی چھوٹا سا قصبہ تھا۔ مرکزی شاہراہ پہ واقع اس کا ایک ہی بازار ہے۔ اس زمانے میں ابھی کالج کی کوئی عمارت نہ تھی۔ بوائز اور گرلز سکول میں ہی شام کی کلاسز ہوتیں۔ ہم روزانہ حب سے چالیس منٹ کی ڈرائیو کر کے آتے۔ انٹر کی دو کلاسز بوائز اور دو گرلز میں لیتے۔ شام ڈھلے واپسی ہوتی۔ میری رہائش حب کے ایک ہوٹل میں تھی۔ اتفاق سے پرنسپل نہایت ملنسار اور معاون ملے۔ پروفیسر ریاض احمد بلوچ پنجگور سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اب عرصہ ہوا کہ حب میں ہی مستقل مقیم ہیں۔ 2008 میں وندر کالج منظور ہوا تو یہ اس کے پرنسپل بنے اور اب تک یہ ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ فزکس کے یہ استاد بظاہر مولوی مگر اندر سے ایک معتدل قوم دوست واقع ہوئے ہیں۔ مجھے میری تحریروں کی وجہ سے جانتے تھے۔ میری مشکلات سے بھی آگاہ تھے، سو یہ رعایت دے رکھی تھی کہ مہینے میں ڈیڑھ دو ہفتہ آکر رہیں، کورس مکمل کروائیں اور چلے جائیں۔ میری آدھی تنخواہ اس آنے جانے میں ہی اٹھ جاتی۔

لسبیلہ کا ضلعی ہیڈکوارٹر اوتھل میں واقع ہے۔ شروع میں دفتری کے معاملات کے لیے مجھے ہفتے میں دو تین دن حب سے روزانہ اوتھل آنا پڑتا تو یہاں وندر کے قریب ایک مقام پہ روڈ سے مچھلیوں کی تیز بو نتھنوں میں آ گھستی۔ میں ناک پر ہاتھ دھر لیتا تو وین میں ساتھ بیٹھا بندہ یوں مسکرا کر دیکھتا جیسے آنکھوں میں ہی پوچھ رہا ہو، “نواں آیا اے سوہنڑیا؟” پھر بعد میں وہاں کے دوستوں سے پتہ چلا کہ یہ یہاں آپ کے غیرمقامی ہونے کی پہلی نشانی ہے۔ اس رستے پر روز سفر کرنے والے لوگ تو اس کے عادی ہو چکے ہیں، اس لیے جونہی کوئی آدمی ناک پر ہاتھ رکھتا ہے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بندہ یہاں نیا آیا ہے۔ اس علاقے میں دراصل مچھلیوں کے فارم واقع ہیں۔ اس لیے کوئی دو کلومیٹر تک یہ بو اس راستے پہ آپ کے ساتھ رہتی ہے۔

ریاض صاحب کی کار میں ہم کالج کے چار پانچ لوگ روزانہ حب سے آتے جاتے۔ ایک روز وہ نہیں آ پائے اور مجھے وین سے آنا پڑا۔ واپسی پہ میں سکول سے نکل کر بس اڈے کی طرف روانہ ہوا تو اس گلی کے نکڑ پر مجھے ایک دکان پہ ایک عبارت نظر آئی: سسئی لائبریری ویندر۔ حیرت ہوئی کہ اس چھوٹے سے قصبے میں لائبریری !!. میں وہاں گھس گیا۔ ایک نوجوان کتاب سنبھالے بیٹھا تھا۔ اس سے کچھ تعارف ہوا۔ پتہ چلا کچھ نوجوانوں نے اپنی مدد پ کے تحت حال ہی میں اس کی بنیاد رکھی ہے۔ پچاس کے قریب ممبر ہیں۔ ان کے چندے سے ہی لائبریری کا کام چلتا ہے۔ میں اگلے مہینے جاتے ہوئے کتابوں کا ایک بنڈل ساتھ لے گیا اور لائبریری میں جمع کروا دیا۔ نوجوان نام وغیرہ پوچھتا رہ گیا میں نے کہا بس لکھ دینا کسی کو کوئی قرض ادا کرنا تھا، سو وہ یہ کتابیں یہاں عطیہ کر گیا۔

انھی دنوں ملالہ یوسف زئی پہ حملہ ہوا۔ میں حب میں ہی تھا۔ کوئٹہ میں میری اہلیہ کا پاؤں بھاری ہوا تھا اور میری شدید خواہش تھی کہ مجھے بیٹی کی اولاد ہو۔ ملالہ کی خبر نے مجھے ایسے ہی اداس کیا جیسے میری ہونے والی بچی کو کسی نے مار دیا ہو۔ اس دن کالج میں کلاس میں آتے ہی میں نے پوچھا، آج پاکستان میں کون سا اہم واقعہ ہوا ہے؟ نہ صرف یہ کہ بچوں اور بچیوں کی اکثریت واقعہ سے آگاہ تھی بلکہ حیران کن طور پر کسی نے بھی اسے درست نہ کہا۔ سب نے مذمت کی۔ بعد ازاں جب گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں ایک کلاس میں ملالہ کا ذکر ہوا تو ایک نوجوان نہایت جارحانہ انداز میں کہنے لگا سر آپ اس قادیانی کی بات کیسے کر رہے ہیں وہ تو یہودیوں کی ایجنٹ ہے، داڑھی اور نماز کے خلاف ہے۔ میں نے جب نہایت تحمل سے اس سے پوچھا کہ یہ سب کہاں سے پتہ چلا تو اس جوان نے کہا، مولوی صاحب نے بتایا ہے اور وہ بھلا کیوں جھوٹ بولیں گے!۔ اس کے برعکس وندر کے بچوں اور بچیوں نے نہ صرف ملالہ کے حق میں بولا بلکہ میری تحریک پر انھوں نے ملالہ کے حق میں کچھ تحریریں لکھیں جو پھر “سنگت” میں شائع بھی ہوئیں۔

وندر سے واپسی میری مجبوری تھی مگر یہ میرے دل سے کبھی نہ نکل سکا۔ ان دنوں ڈیوٹی کی مجبوری اور اپنی کسمپرسی کے باعث میں اسے گھوم پھر کر دیکھ نہ سکا۔ پھر بعد ازاں شاہ لطیف کے رسالے کا اردو ترجمہ پڑھتے ہوئے سر سسئی میں یہ سطر جب نظر سے گزری “جن کو عشق نہیں ہے، وندر کیسے جائیں گے” تو میرے حافظے سے گویا چپک کر رہ گئی۔ کہتے ہیں سسئی، پنوں کی تلاش میں بھنبھور سے بیلہ کی طرف نکلی تھی، جہاں جہاں سے وہ گزری، شاہ لطیف انھوں راستوں پہ پاپیادہ چلا اور اس داستان کو اپنی شاعری میں لازوال کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سو، ہم نے طے کیا کہ ہم جدید سہولتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سسئی کے انھی قدموں کے نشاں ڈھونڈتے عشاق کے اس مرقد تک جائیں گے۔ اور یہ پتہ چلا کہ سسئی کو جانے والا راستہ اسی وندر سے ہو کر گزرتا ہے۔ سو ہم دلوں میں عشق کی شمع جلائے کشاں کشاں اسی اور چلے، شاہ لطیف کو گنگناتے وندر کی راہ پہ ہو لیے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply