تنہائی کا عذاب.ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

انسان “انس” سے ہے کہ یہ اپنے جیسوں سے انسیت اور مانوسیت محسوس کرتا ہے۔ یہ سوشل اینیمل ہے، یہ انسانوں سے تعلق کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ کب تک آپ اسے چیزوں اور مشینوں سے تعلق کے سہارے گھسیٹے رہیں گے، یہ بہت جلد اس زندگی سے اکتا جائے گا۔ زندگی سے بیزاری محسوس کرے گا اور مرنے کی خواہش رکھے گا۔

اس کا حل کیا ہے؟ ہم اس ماڈرن لائف اسٹائل کو ختم نہیں کر سکتے، اس سے لڑنا بے کار ہے۔ یہاں جدید شہری زندگی میں دس کلومیٹر کے ریڈیس میں آپ کو کوئی ایک دوست نہیں ملتا جبکہ دیہاتی زندگی میں ایک گلی میں آپ کے دس دوست نکل آتے ہیں۔ تو اب یہ ذہنی طور پر  ایبنارمل نہ ہو تو کیا ہو۔ والدین اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کر سکتے ہیں، ہر ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں لیکن انہیں وقت اور پیار نہیں دے سکتے۔

ایسے میں دعوۃ ایکٹوٹیز کو بڑھائیں تو اللہ سے تعلق تو بنے گا ہی لیکن لوگوں سے بھی انٹریکشن بڑھے گا۔ ویلفیئر کے کاموں میں دلچسپی لیں تو لوگوں کے لیے زندہ رہنے کا جذبہ بیدار ہو گا۔ اور سب سے اہم کہ دوست بنائیں اور ان کے ساتھ وقت گزاریں، اس سے زندگی میں اعتدال آئے گا، ذہنی بیماریاں ختم ہوں گی۔

ماڈرن لائف اسٹائل نے جب ہماری معاشرت کو تباہ کر دیا تو اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے اب معاشرت بھی ورچوئل بنا دی گئی کہ اب فیس بک اور واٹس ایپ پر دوستی کی خواہش پوری کرو۔ اہم تو حقیقی معاشرت ہی ہے لیکن اگر وہ میسر نہ ہو تو یہ بھی غنیمت ہے، اس معنی میں کہ تنہائی سے بہتر ہے۔ تنہائی کتنی بڑی آزمائش ہے، کسی بوڑھے شخص سے پوچھو۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسان تنہائی برداشت نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ یہاں کتنے دوست ہیں جو ایک دن فیس بک چھوڑنے کا اعلان لگاتے ہیں لیکن دوسرے دن پھر یہاں آ ٹپکتے ہیں۔ تو آپ ایک ہی صورت میں اس ورچوئل لائف سے جان چھڑا سکتے ہیں جبکہ آپ کے ارد گرد حقیقی معاشرت موجود ہو؛ سچے دوست، رشتہ دار اور پڑوسی کہ جن کے ساتھ آپ وقت گزار سکتے ہوں، اور یہ سب انہوں نے ماڈرن لائف اسٹائل کے ذریعے ختم کر دیا ہے۔

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply