موت کے بعد ۔۔وہارا امباکر

وہ قتل کر دیا گیا تھا۔ کسی کو اس کی لاش ملی تھی۔ وہ انصاف کا طالب ہے لیکن اس کے پاس دوسروں کو اپنی کہانی سنانے کا طریقہ صرف اس کا جسم ہے۔ پولیس اور فرانزک ماہرین پہنچ چکے ہیں۔ وہ اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ کیا ہوا تھا؟ کب ہوا تھا؟ اس کی آنکھ سے، اس کے جسم سے بڑی احتیاط کے ساتھ ٹشو اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔ درجہ حرارت دیکھا جا رہا ہے۔لیکن اس کو دیکھ کر ماہرین کیسے بتائیں گے؟ اس کیلئے ہم یہاں سے کچھ دور یونیورسٹی آف ٹینیسی میڈیکل سنٹر کے تحقیقاتی مرکز چلتے ہیں جس کو 1981 میں قائم کیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اڑھائی ایکڑ پر یہ خاردار تاروں سے الگ کی گئی درختوں سے بھری جگہ ہے۔ کبھی کوئی گلہریاں بھاگتی نظر آ جاتی ہیں اور سبز گھاس کے قطعات میں سورج کی کرنیں جھلما رہی ہیں۔ یہاں کی دھوپ اور سائے میں کچھ جسم لیٹے ہیں، وہ زندہ نہیں۔ یہ اپنی طرز کا واحد ریسرچ سنٹر ہے، جو صرف موت کے بعد جسم پر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی تحقیق کے لئے مختص ہے۔ لینٹنے والوں نے اپنا جسم تحقیق کے لئے عطیہ کر دیا تھا۔ اور یہ خاموشی سے کریمینل فرانزکس کی سائنس کی پیشرفت میں مدد کر رہے ہیں۔ ہم جتنا زیادہ اس چیز کو بہتر جان لیں گے کہ موت کے بعد جسم کے ساتھ کیا بیتتی ہے۔ کونسے کیمیائی اور بائیولوجیکل پراسس ہوتے ہیں، کتنا عرصہ رہتے ہیں، کس طرح کے ماحول کا ان پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اتنا ہی بہتر جان سکیں گے کہ مقتول کا انتقال کب ہوا تھا۔ سالانہ، سو لوگ اپنا جسم اس فیسلٹی کے لئے عطیہ کرتے ہیں۔

پولیس اب اس کا بہت اچھا اندازہ لگانے کے قابل ہے۔ پہلے چوبیس گھنٹے میں آنکھ کے جیل کا پوٹاشیم لیول یہ بتا دیتا ہے۔ الگور مورٹس، جو جسم کے درجہ حرارت میں ہونے والی فی گھنٹہ تبدیلی ہے۔ اس بات کو بتا دیتی ہے۔ جسم کی حالت کا بہت زیادہ انحصار اس پر ہے کہ صورتحال کیسی تھی۔ کیا جسم کو دفنایا گیا تھا؟ کس طرح؟ درجہ حرارت کیا تھا؟ یونیورسٹی آف ٹینیسی کی آنتھروپولوجیکل ریسرچ فیسلٹی نے کچھ کو کم گہری زمین میں دفن کیا ہے۔ کچھ کو گاڑی کی ڈگی میں رکھا ہے۔ کچھ کو پلاسٹک کے کور میں۔ کچھ کو کنکریٹ کے نیچے۔ کچھ کو پانی میں۔ ہر وہ صورتحال جو قاتل جسم کے ساتھ کر سکتے ہیں، اس یونیورسٹی کے محققین وہ کر رہے ہیں۔

ان حالتوں کے اثر کو سمجھنے سے پہلے بنیادی انسانی ڈیکے کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں پر محققین دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔۔۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سے قانون نافذ کرنے والے افسران کی تربیتی کورس بنتے ہیں اور دئے جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جسم میں توڑ پھوڑ کی ابتدائی سٹیج آٹولوسز کہلاتی ہے۔ اس کو خود کو ہضم کرنا بھی کہا جا سکتا ہے۔ انسانی خلیے مالیکیولز کو توڑنے کے لئے انزائم استعمال کرتے ہیں۔ اس سے مختلف کمپاوٗنڈز کو اپنے استعمال کی چیزوں میں توڑا جا سکتا ہے جن کو خلیہ استعمال کر سکتا ہے۔ جب تک زندگی تھی، خلیے ان انزائمز کو قابو میں رکھتے ہیں۔ کہیں یہ خلیے کی اپنی دیوار کو نہ توڑ دیں۔ موت کے بعد یہ قابو بھی ختم ہو گیا۔ یہ انزائم سٹرکچر توڑنے لگے۔ خلیے کے اندر کا لیکوئیڈ لیک ہونے لگا۔ اس کے نتیجے میں جلد جسم سے اترنے لگتی ہے۔ فرانزک اس عمل کو گلوونگ کہتے ہیں۔

مکھیاں یہاں پر انڈے دے جائیں گی۔ ان جگہوں پر، جہاں سے جسم کے اندر جایا جا سکتا ہے۔ آنکھ، منہ، زخم وغیرہ پر۔ اس کے بچوں کو اس جلد کے نیچے کی چربی پسند ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انزائمز کی وجہ سے جو لیکوئیڈ نکلا تھا، اس نے جسم میں جانا شروع کر دیا ہے۔یہ جسم کے اندر موجود بیکٹریا کی کالونیوں تک پہنچنے لگا ہے۔ یک خلوی جانداروں کے لئے یہ عیش کا وقت ہے۔ ان کو کنٹرول میں رکھنے والا امیون سسٹم پہلے ہی بند ہو چکا تھا۔ اور اب یہ مائع ان کو مرغوب ہے جو آنتوں کے لائننگ سے انہیں مل رہا ہے۔ خوراک کی فروانی ہے۔ ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مائع نہ صرف ان کی خوراک ہے بلکہ آمدورفت کا ذریعے بھی۔ یہ اس کے ذریعے جسم میں ہر جگپ پہنچ رہے ہیں۔ اگلا مرحلہ آ رہا ہے۔ یہ اس جسم کے پھولنے کا ہے۔

بیکٹیریا کی زندگی کا محور خوراک ہے۔ ان کے منہ یا انگلیاں تو نہیں ہوتیں لیکن یہ کھاتے ہیں، ہضم کرتے ہیں اور فاضل مادوں کا اخراج کرتے ہیں۔ ہماری طرح یہ خوراک کو سادہ ٹکڑوں میں توڑتے ہیں۔ ہمارے انزائم گوشت کو پروٹین میں توڑتے ہیں۔ آنت کے بیکٹیریا اس پروٹین کو امینو ایسڈ میں توڑتے ہیں۔ جب ہم فوت ہو جاتے ہیں تو ان کا ہماری خوراک پر انحصار ختم ہو جاتا ہے۔ ہم خود ان کی خوراک بن جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران یہ گیس پیدا کرتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے ہمارے جسم میں پیدا ہونے والی گیس آنتوں کے بیکٹیریا کا فاضل مادہ ہے۔ بیکٹیریا یہی کام زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب ہم زندہ ہوں تو اس کو نکالتے رہتے ہیں۔ مر جانے کے بعد معدے کے مسل کام نہیں کرتے، یہ جمع ہوتی جا رہی ہے۔ جسم پھولتا جاتا ہے۔ اثر ہر جگہ ہے لیکن سب سے نمایاں پیٹ ہے۔ بیکٹیریا کی تعداد یہاں پر سب سے زیادہ ہے۔

مکھیاں جنہوں نے انڈے دئے تھے، ان کے لاورے بھی مصروف ہیں۔ ان کے کھانے کی آواز بھی سنی جا سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ہفتے میں یہ سٹیج ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد سڑنے کے عمل (putrefaction) کی باری ہے۔ اس میں بیکٹیریا ٹشو کو توڑ رہے ہیں۔ اگر کوئی زمین میں دفن ہے تو وہ زمین کا حصہ بن رہا ہے۔ نظامِ انہضام اور پھیپھڑے اس کا پہلے شکار ہوں گے۔ یہاں بیکٹیریا کا عملہ زیادہ ہے۔ دماغ بھی جلد ہی چلا جائے گا۔ یہ بہت جلد مائع بن جاتا ہے۔

مسلز کو کھانے والا بیکٹیریا بھی ہوں گے اور بیٹل بھی۔ جلد کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ اس کا سب سے زیادہ انحصار موسم پر ہے۔ رنگ بدلتی، خشک ہوتی یہ بھی اس عمل کا شکار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور یہ انسانی ڈیکے کی کہانی ہے۔ مٹی میں مل کر مٹی ہو جانے کی۔

یہ انزائم اور خلیے , بلغم اور پیپ، بہہ جانے والے مائع۔۔۔ ہم بائیولوجی ہیں۔ اپنی پیدائش کے وقت سے اپنی موت تک ۔۔۔۔ اور اس وقفے میں ہم ہر وہ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اس حقیقت کو بھول جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تحقیق سے حاصل ہونے والے علم نے۔ یہاں پر بنائے جانے والے تربیتی پروگرام نے بہت سی گھتیاں سلجھانے میں مدد کی ہے۔ واقعاتی شواہدات تفتیش کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ واقعاتی شواہدات نے بہت سے بے گناہوں کو غلط سزا ہونے سے بچایا ہے۔ بہت سے مجرموں کے خلاف گواہی دی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا ہماری کہانی کے مقتول کو انصاف مل گیا؟ معلوم نہیں۔ نوکس ول کے اس میدان میں آرام کرنے والوں نے اور ان پر کام کرنے والوں نے اپنی کوشش تو کی ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply