ٹوگو کی گریٹ ریس آف مَرسی۔۔محسن علی خان

الاسکا، برف کی دبیز تہیں، برفانی خم دار گھاٹیوں کا لامتناہی سلسلہ،جیسے کوئی پری چاندی کی چادر اوڑھے محوّ ِاستراحت ہو۔ جب ہواؤں کے جھکڑ چلتے ہیں تو ٹنوں کے حساب سے برستے روئی کے گالے قطار در قطار باریک چادر بناتے چلے جاتے ہیں۔ طوفان کے دنوں میں تو جب ہوا کا دباؤ بھی ایک سو دس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھتا ہے تو اندھیرے کی ایسی لہر چھا جاتی ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سورج بھی اپنی آگ برساتی کرنوں کی سختی چھوڑ کر منجمد پانی کی ندیوں پہ اپنا عکس دیکھ کر پگھل جاتا ہےاور درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری تک گر جاتا ہے۔ لیکن ہوا جب رقص کرتی ہوئی پہاڑوں سے ٹکراتی ہے تو ارتعاشی موسیقی کی لہریں اصل درجہ حرارت کو بڑھا کر منفی ساٹھ ڈگری تک کر دیتی ہیں ۔

برف سے ڈھکے اس علاقےمیں سخت مصائب اور موسمی شدت کی وجہ سے انسانی زندگی کا زیادہ وجود نہیں تھا بس کہیں کہیں کچھ قبائل سانسوں کے سلسلے کو کائنات سے جوڑے ہوئے تھے لیکن برفانی جانور، معدنیات اور دھاتیں بکثرت پائے  جاتے تھے۔ نوے فیصد سے زیادہ علاقہ رشین ایمپائر کے زیر نگیں تھا۔ امریکہ نے روس سے 1867ء میں خریدلیا اور 1890 ء میں سونے کی تلاش میں نارویجن، بیلجئم ، سکا ٹش ، سائبیرین غرضیکہ مختلف علاقوں سے لوگوں کی آمد شروع ہوئی تو آبادی تقریباً ایک لاکھ تک پھیل گئی۔ اتنے سرد خطہ میں وجود زندگی کوقائم رکھنے کے لئے انسان کا صدیوں سے غاروں سے تعلق اور جانوروں کا شکار والا تجربہ قائم آنے لگا۔

آج کے دور میں تو برفانی علاقوں میں آمدرفت کے لئے سنو موبائل، موٹر سلیڈ، سکی موبائل، سکائی ڈو جیسے مشینی ذرائع استعمال ہو رہے ہیں ۔ لیکن انیسویں صدی تک یہ سب کام سلیڈ ڈوگ سے سر انجام دئیے جاتے تھے۔ جس میں کتوں کو اک مخصوص طریقہ سے آپس میں باندھ کے لکڑی کی بنی گاڑی جس پہ ضرورت کے مطابق پہیے بھی لگا سکتے اس سے باندھ دیا جاتا اور کتے جب اسکو کھینچتے تو انکی طاقت سے گاڑی چلتی۔

2019  جہاں اور بہت سی کامیاب فلموں کے لیے یادگار رہے گا وہاں اک فلم“ ٹوگو“ بھی باکس آفس پہ بہت ہٹ گئی جس کی فلموں کی مشہور ڈیٹا بیس ” آئی ایم ڈی بی ” پر بھی ریٹنگ دس میں سے آٹھ سے اوپررہی جس کے مزید اچھا ہونے کے بھی قوی چانس ہیں۔ اس جاندار کہانی کو ٹام فلین نے ترتیب دیا ہے جو کہ  اک حقیقی واقعہ کے پس منظر میں لکھی گئی ہے اور ایرکسن کور نے اس فلم کو ڈائریکٹ کیا ہے جب کہ  ولیم ڈیفو نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

ٹوگو، ایک بہادر وفادار اور حالات سے لڑ جانے والے نڈر کتے کا نام تھا جو کہ اسکے مالک لیون ہارڈ سیپلا نے اپنے وقت کے مشہور جاپانی شاہی نیوی فوج کے ایڈمرل جنرل ٹوگو ہیچڑو کے نام پہ رکھا تھا جس کی بے مثال بہادری کی وجہ سے اسکو مشرق کا نیلسن بھی کہا جاتا تھا۔

کتے کی انسان سے وفاداری ضرب المثل ہے۔ اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کرنا اور آنکھوں کے راستے اپنے مالک کے دل میں چھپے حکم کو جان لینا اور اس حکم کی اطاعت بجا لانا اسکی بڑی صفتوں میں سے ایک ہے۔ یہ فلم بھی ایسے ہی ایک حقیقی واقعہ کے پس منظر میں ہے جہاں ٹوگو نے اپنی سب طاقت کو اپنی موت کی پرواہ کیے  بنا اپنے مالک کے مقصد کے حصول کے لئے جھونک دیا تھا۔

نوم ، الاسکا میں تقریباً دو ڈگری آرکٹک سرکل جنوب میں واقع اک ٹاؤن ہے۔ جنوری 1925 ء میں جب اس ٹاؤن میں ڈائپٹیریا کی وبا سے بچوں کی اموات کا سلسلہ شروع ہوا اور اینٹی بائیٹک جو کہ  پہلے ہی زائدالمعیاد ہو چکی تھی لیکن پھر بھی بچوں کو جان بچانےکےواسطےدی جا رہی تھی اسکا اثر بھی ختم ہو چکا تھا۔ دوا منگوانے کے لئے صرف چھے دن بچتے تھے ڈاکٹر کے بتانے پر ٹا ؤن کےمیئر نے ہنگامی طور پہ اجلاس بلایا اور دوا لانے کے لئے سیپلا کو چنا جس نے ٹوگو کی مدد سے یہ کام کر دکھایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوم ٹاؤن سے نکل کے سیپلا اور ٹوگو نے کن حالات میں طوفانوں سے لڑتے ہوۓ، راستے کی بھول بھلیوں سے بچ کےدور دراز کے اک گاؤں شاکتولک تک سفر کر کے دوا کا حصول اور پھر واپسی کا سفر طے کرتے ہوئے جھیل کے اوپر ٹوٹتی ہوئی برف کی تہہ، منفی پچاس کا درجہ حرارت جو کہ ہوا کی وجہ سے دوگنا ہو گیا تھا اوپر سے کہرکا اندھیرا ، لیکن کیسے ٹوگو نے زیادہ دیر رکے بغیر ایک ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا جس کو تاریخ آج ” گریٹ ریس آف مرسی ” کے نام سے یاد کرتی ہے۔قصبے کے لوگوں اور معصوم بچوں کی دعاؤں نے کیسے ٹوگو کے ساتھ مل کے موسم کو شکست دی یہ سب دیکھنے کے لیے ہمیں ٹوگو کی قیادت میں سیپلا کے ساتھ سلیڈ ڈوگ میں سوار ہونا پڑے گا۔ فلم میں کسی بھی قسم کا کوئی غیر اخلاقی منظر نہیں اس لیے بچوں سے لے کے بڑوں تک خصوصاً وائلڈ ایڈونچر سے متعلقہ فلم کا شوق رکھنے والے دوستوں کے لئے لازمی ریکمنڈ کی جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply