“اردو زبان کے بیان میں”حافظ صفوان محمد کے چودہ نکات

یہ مضمون ایک اور عنوان سے لکھا تھا لیکن آج سر سید احمد خاں کی آثار الصنادید (1847) کی پہلی جلد کا اختتامی نوٹ دیکھا جو اُسی موضوع پر ہے جس پر میرا مضمون ہے۔ چنانچہ حصولِ برکت اور نسبتِ قدیم سے تعلق قائم رکھنے کی نیت سے یہ عنوان استعمال کر رہا ہوں۔ ح ص م

جیسے ہر علاقے کی اپنی بولی ٹھولی ہوتی ہے جو کسی قدیم الایام سلطنت کے پائے تخت کی اقتدار دار زبان سے اپنی صوتیات و لفظیات وغیرہ میں کچھ مشترکات رکھتی ہے اُسی طرح ہم برِعظیم والوں بھی سیکڑوں زندہ بولیاں اور کئی ایک زبانیں ہیں جو ہمارے راجدھانوں سے کسی نہ کسی طور منسلک ہیں/ رہی ہیں۔

ساری دنیا کی طرح ہماری سرزمین پر آنے والے حملہ آوروں نے بھی ہماری بولیوں بلکہ زبانوں تک کو رگید ڈالا۔ مثلًا جیسے عرب حملہ آوروں نے مصر اور سپین کی زبان تک عربی کر ڈالی تھی ویسے ہمارے ہاں فارسی بولنے والے ترکوں نے چھاؤنی چھائی تو ہماری مقامی بولیاں زبانیں بھی مار بھگائیں اور فارسی صدیوں تک ہماری اشرافیہ کی زبان نیز زبانِ قلعۂ معلی (Language of the Exalted Court) رہی۔

یہ ہمارے خطے کی عوام کا مزاج ہے کہ ہم حملہ آوروں اور اقتدار داروں کی نقالی کو خوبی جانتے ہیں اور اُن کی زبانوں کو بھی نہ صرف قبولتے رہے ہیں بلکہ اپنی بولیوں زبانوں کو بولتے ہوئے شرم بھی فرماتے رہے ہیں۔ فارسی کی جگہ اردو آئی جو ہمارے اپنے علاقوں کی اپنی پیداوار ہے، لیکن اِس کے ’’دیسی پن‘‘ کی وجہ سے ہم اِسے زیادہ دیر برداشت نہ کر پائے اور اب انگریزی کے دیوانے ہیں۔ ہمارے لسانی افق پر تاریخ نے خود کو یوں دوہرایا ہے کہ پہلے ہماری مقامی اشرافیہ مقامی بولیوں زبانوں کو ہیٹھا جانتے ہوئے فارسی بولا لکھا کرتی تھی، آج یہی مقامِ محمود انگریزی کو ملا ہوا ہے۔ اِسی اصول پر کل کلا کو ہماری ایک معتدبہٖ آبادی چینی زبان بھی بول سکتی ہے۔ آج اِندلمانی ثقافت ہے تو کل چِنمانی ثقافت کیوں نہیں ہوسکتی؟

یادش بخیر ہمارے ہاں کے شاہی خاندانوں کی زبان تو فارسی یا ترکی تھی ہی، اُن کے زیرِ اثر دوسرے رجواڑوں نے بھی اِس غیر مقامی زبان فارسی کو ’’اپنا‘‘ لیا تھا۔ یہ بات یقینًا حیرت سے سنی جائے گی کہ اُس دور میں مرہٹہ سرکار کی زبان بھی فارسی تھی۔

یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری سرزمین پر مقامی زبانوں کو عزت دینے والے پہلے اور آخری حکمران انگریز تھے۔ انگریز بہادر ہی نے اردو کو سرکاری درجہ دیا اور اشرافیہ کی زبان فارسی کی جگہ اِسے ’’زبانِ اردوئے قلعۂ معلی‘‘ بنایا تاکہ لوگ اجنبی زبان کی جگہ اپنی مقامی زبان میں لکھ پڑھ سکیں اور علی الخصوص عدالتی کارروائیوں کی زبان و اصطلاحات کو سمجھ سکیں۔ یہ کام انگریز بہادر نے 1835 میں انجام دیا تھا۔ یہ انگریز بہادر کی اِسی لسانی پالیسی کی باقیاتِ صالحات ہے کہ آج دِلّی کی سرکاری زبان پنجابی ہے۔

یہ سوال اہم ہے کہ متذکرۂ بالا گفتگو میں ’’ہماری زبان‘‘ میں ’’ہم‘‘ کا مصداق اور مشارٌ الیہ کون ہے، تو اِس کا جواب ہے: خطۂ برِ عظیم کے زمین زادے۔
٭٭٭

اب میں وضاحت کے ساتھ زبان کے بارے میں اپنے طالب علمانہ خیالات کا تازہ ترین ورژن پیش کرتا ہوں۔ اِنھیں تفننِ طبع کے لیے ’’حافظ صفوان کے چودہ نکات‘‘ کہہ لیا جائے تب بھی حرج نہیں:

1: میں زبان کو آسمانی چیز نہیں سمجھتا۔ خدا کا اعلان بھی آدم کو علم الاسماء دینے کا ہے نہ کہ علم اللسان (زبان) دینے کا۔ میں عربی زبان کے بارے میں ابنِ مضاء (م: 1195) اور سیبویہ (م: 796) کے دلائل کا حامی ہوں۔ اُن کے نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ عربی اگر خدا کی زبان ہوتی تو ہر وحی عربی میں اترتی حالانکہ یہ معلوم ہے کہ آخری کتاب سے پہلے کی سب آسمانی وحیاں عربی میں نہیں بلکہ دعوائے نبوت کرنے والے ہر نبی کی اپنی اپنی زبان میں تھیں۔ مذہبی روایات کے مطابق اولین و آخرین کے اجتماع کے دن زبان وہ ہوگی جو سب کو سمجھ آ رہی ہوگی اور سب وہی زبان بول بھی رہے ہوں گے یعنی ’’عالمی زبان‘‘۔ سہولت کے لیے اِسے Universal Language کہہ لیجیے یا Lingua Mundo۔ لیکن کسی بھی مذہب کی روایات میں یہ ذکر نہیں ہے کہ وہاں کوئی مترجم ہوگا یا وہاں code-mixing کا کوئی تصور ہوگا۔

2: اُم الالسنہ کون سی ہے، اِس کے بارے میں محققینِ زبان متفق نہیں ہیں اور میں اِن محققین سے متفق ہوں۔ یاد رہے کہ میں محققینِ زبان کی بات کر رہا ہوں نہ کہ پنڈتوں کی، کیونکہ ہر پنڈت اپنے استھان کی بولی کو بہ دلائل دیوبانی قرار دیتا ہے بلاتفریقِ عبرانی و عربی و دیو نگر کی ناگری۔

3: کائنات کے پہلے انسانی جوڑے کی زبان و بولی اُن کی اولاد میں چلی اور پھر اِن سے ہزاروں زبانیں اور بولیاں بنیں۔ زبانوں کی فطری تشکیل، لسانی تغیرات اور انحرافِ زبان کے بارے میں میں فائزہ بٹ (2017) کے نظریے کا حامی ہوں۔ فائزہ کے نزدیک ایک ماں باپ کی اولاد کی زبان کے آپس میں مختلف ہوجانے کی وجہ بچے کا ماحول اور پرورش ہے۔

4: مادری زبان سے مراد اگر Mother Tongue ہے تو میرے نزدیک یہ ایک انتہائی مغالطہ آسا اصطلاح ہے، لیکن اگر اِس سے مراد First Language ہے تو ضرور قابلِ اعتنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اصل زبان آبائی زبان (Native/Vernacular Language) ہے۔ آبائی زبان وہ ہے جو بچہ اپنے ماحول اور پرورش سے سیکھتا ہے؛ یہ ماں کی زبان سے مختلف بھی ہوسکتی ہے، اور اب تو اکثر ہوتی ہے کیونکہ جدید دور کی مائیں اب لوریاں تک اُن زبانوں میں دینے لگی ہیں جو زیادہ زور آور، حیثیت دار اور کارگزار ہیں۔

5: اردو کے آغاز اور جنم بھوم کے بارے میں میں پہلے سر سید (1847) کے نظریے کا اور پھر سر چارلس لائل (1880) اور سر گریئرسن (تقریبًا 1900) کے نظریے کا قائل تھا لیکن اب شان الحق حقی (1952) اور خواجہ محمد زکریا (2002) کے نظریات کے مجموعے کا قائل ہوں (واضح رہے کہ جنابِ حقی کا نظریہ چارلس لائل اور گریئرسن کے نظریے ہی کی توسیع ہے جب کہ خواجہ صاحب کا نظریہ دہلی دربار سے دور پنپنے والی اردو کے بارے میں ہے۔)

5.1: سر سید احمد خاں کے نزدیک اردو ملواں زبان ہے۔

5.2: سر چارلس لائل اور سر جارج ابراہام گریئرسن کے نزدیک اردو گنگنا-جمنا بالائی دو آبے اور مغربی روہیل کھنڈ کی زبان پر مبنی ہے۔

5.3: جنابِ حقی کے نزدیک دراوڑی دور سے بھی پہلے برِعظیم میں منڈا بولی کا راج تھا۔ پراکرتوں کا قواعدی ڈھانچہ سنسکرت سے بالکل الگ ہے اور تالیفی ہے نہ کہ تصریفی۔ پراکرتی بولیوں میں لفظ کی جگہ لفظ رکھ کے ایک زبان کا جملہ دوسری زبان میں ڈھالا جاسکتا ہے کیونکہ اِن کی ترکیبِ نحوی ایک ہے۔ راج اور دھرم سماج کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ایک مشترک بولی کا ابھرنا لازمی تھا۔ پراکرتوں کا بنیادی ڈھانچہ تو ایک ہی تھا البتہ مشترک بولی پر پورب سے پچھم تک اور اُتر سے دکھن تک کبھی کسی علاقے کا اثر غالب رہا کبھی کسی علاقے کا۔ کبھی گجراتی کا کبھی دکھنی کا۔ یہ اِس پر منحصر تھا کہ سیاسی اور ثقافتی مرکزِ ثقل کہاں واقع ہے۔ آج کی اردو ہو یا ہندی، یہ اُس مشترک بولی کا جدید روپ ہے جس کی داغ بیل زمانۂ قدیم میں پڑچکی تھی۔ آخر آخر میں دہلی کے آس پاس کی کھڑی بولی کا رنگ جما، وجہ یہ کہ راجدھانی یہاں تھی۔ عربی فارسی اور ترکی کے میل اور اندلمانی ثقافت نے اِس میں مزید کشادگی پیدا کی۔ اِسے اردو کہیں یا ہندی، اِس کے لغات، محاورے اور کہاوتیں بتاتے ہیں کہ یہ ایک منجھی ہوئی قدیم زبان ہے۔

5.4: خواجہ محمد زکریا صاحب کے نزدیک اردو پنجابی کا تحریری روپ ہے۔

5.5: متذکرۂ بالا چاروں ثقات کی طرح میں بھی اردو کو مخلوط یا لشکری زبان نہیں سمجھتا۔

5.6: میرے نزدیک آریائی خاندان میں شامل کی جانے والی سب زبانیں (بشمول انگریزی اور بنگالی) ایک اصل سے نہیں نکلیں اور نہ ہی اردو (/ہندی) اور دیگر پراکرتی زبانیں سنسکرت سے نکلی ہیں۔ سنسکرت کی ذات ہی الگ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دراوڑی دور سے پہلے برِعظیم میں منڈا بولی رائج تھی کیونکہ یہاں کے باسی گونگے ہرگز نہ تھے۔

5.7: میری رائے میں جیسے اردو (/ ہندی) کے راج وٹ کرنے کی وجہ دہلی کا راجدھان ہونا اور گنگا-جمنا بالائی دو آبے کا مضافات ہونا ہے بالکل ویسے سرزمینِ پنج آب کے پانچوں دوآبوں (دو آبہ رچنا، دو آبہ چنبہ، دو آبہ سندھ ساگر، دو آبہ باری اور دو آبہ بِست) کا مضافاتی معاشی، سیاسی و ثقافتی مرکزِ ثقل لاہور تھا اِس لیے اِن سب علاقوں کی بولیاں بالآخر لاہور راجدھان کے مشترک لسانی قالب میں ڈھلتی گئیں۔ اور چونکہ لاہور کا سیاسی و ثقافتی قبلہ دہلی بن گیا تھا اِس لیے لاہور (و مضافات کے پانچ دو آبوں) کی زبان جب ایک برتر سیاسی جگہ پر پہنچی تو صرف شعر و ادب کی اور علاقائی گیتوں کی زبان نہ رہی بلکہ قرار واقعی ضرورتوں کے لیے لکھی بھی جانے لگی، اور یہ لکھنا پنجابی کا تحریری روپ ہوا یعنی اردو۔

5.8: میرے نزدیک لکھنؤ جیسے تہذیبی مرکز کی زبان جو دہلی کی بادشاہت کے دور کی زبان سے ذرا مختلف ہے اور اُسے باقاعدہ ایک روایت تسلیم کیا جاتا ہے تو لکھنؤ سے کہیں زیادہ سیاسی، ثقافتی اور سماجی تنوع رکھنے والے اور قدیم تر تہذیبی مرکز لاہور کی زبان نے بھی خود کو تسلیم کرا لیا۔ دو آبوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اِن علاقوں کی بولیوں کی تعداد بھی منطقی طور پر زیادہ ہوئی اور یہ مضبوط ہوتے ہوتے زبانیں بن گئیں۔ پنجابی بشمول سرائیکی (سلطنتِ عباسیہ بہاول پور کی ریاستی اور ملتان کی ملتانی)، سندھی، پوٹھواری، بھوجپوری، ہریانوی، وغیرہ، دہلی راجدھان سے دور ہونے کی وجہ سے اپنی اپنی جگہ پر خوب پھولیں پھلیں اور اب اپنی جداگانہ شناخت منوا چکی ہیں؛ یہ الگ بات کہ اِس سارے عمل میں گزشتہ پون صدی کے عرصے میں ہونے والی سیاسی جد و جہد نے بھی کافی حصہ ڈالا ہے۔

5.9: یہ بات ضرور ذہن میں رہنی چاہیے کہ ریل سڑکیں اور پل بننے کی وجہ سے اب دو آبوں کے قریب آبادیوں کا تصور ختم ہوچکا ہے اِس لیے اب اردو کی پیدائش کے موضوع پر تو دو آبوں کا ذکر مذکور ہوتا ہے تاہم اردو سمیت کسی بھی زبان یا بولی کے پھیلاؤ یا اثریت کے بارے میں بات کرتے وقت یہ پیمانہ یا سنگِ میل کام نہیں دیتا۔

6: پنجاب کی زبان اردو کیوں ہوگئی؟ میرے نزدیک اِس کے دو جواب ہیں۔ پہلا وہ جو خواجہ محمد زکریا صاحب کا ہے، کہ ’’اردو پنجابی کا تحریری روپ ہے۔‘‘ چھہ لفظوں پر مشتمل اِس مختصر سے جملے پر جب بھی سوچا تو ایک جہانِ معنی نظر آیا۔ حافظ محمود شیرانی درست کہتے ہیں کہ ’’اردو برج بھاشا کے مقابلے میں پنجابی بالخصوص ملتانی سے مماثلتِ قریبہ رکھتی ہے۔‘‘ قدیم اردو کو پڑھیے تو یہ پنجابی ہی لگتی ہے۔ قدیم اردو کے متون میں بیشتر الفاظ وہی ملتے ہیں جو آج بھی پنجابی بولنے سمجھنے والے خوب جانتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ پلیٹس (Platts) کے لغت کو اردو کے روایتی رسم الخط میں لکھنے والوں نے اُس میں سے پنجابی کے لفظ نکالے تب کہیں جاکر یہ اردو کے لائق ہوا۔ وا اَسفا! تطہیرِ زبان کے داعیوں نے محمد حسین آزاد تک کی لفظیات کو پنجابی سے ’’پاک‘‘ کیا۔ اصل میں یہ تہذیبی برتری کا مسئلہ تھا۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے بعض لوگوں کو نہ سندھی میں کلچر نظر آتا تھا نہ پنجابی میں۔ خیر یہ باتیں اب پرانی ہوئیں۔ ’’انجمنِ اشاعتِ مطالبِ مفیدہ پنجاب‘‘ کی کارگزاریوں خصوصًا قصور چیپٹر کو توجہ سے پڑھنے سے یہ اڑچن دور ہوجاتی ہے۔

6.1: ’’پنجاب کی زبان اردو کیوں ہوگئی؟‘‘ کے بارے میں میری دوسری رائے یہ ہے کہ جیسے فارسی کے دورِ اقتدار میں مرہٹہ سرکار تک نے فارسی اپنا لی تھی اُسی طرح اردو کے دورِ اقتدار میں لاہور سرکار نے، اور ازاں بعد عوام نے بھی، اردو اپنالی۔ یہ اُسی اقتدار کا دھاکا ہے کہ آج پنجاب کی عورتیں گھروں میں اردو بولنا پسند کرتی ہیں نہ کہ پنجابی۔ آپ بے شک اِس مزاج کو دورِ غلامی کی کسرِ نفسی کا غلامانہ ذہنیت میں بدل جانا کہہ لیجیے۔ پنجاب میں بہاول پور کی ریاستی اور ملتان کی ملتانی جیسی قدیم الایام تہذیبی اور اقتدار دار زبانیں بھی اِسی دھاکے کی وجہ سے اردوا گئیں اور پنجابی لہجوں تک میں اردوئیت یعنی تہذیب کا دور دورہ ہوگیا۔

6.2: سندھی تہذیب کی اوائلی تاریخ کے کچھ لسانیاتی مطالعے سے میری رائے یہ بنی ہے کہ سندھی اور پنجابی دراصل ایک ہی قوم اور ایک ہی زبان ہے جس کا صرف dialect یعنی بولی کا فرق ہے۔ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ اٹک کے مقام پر شمالی پہاڑوں کی جانب سے میدانی علاقے میں داخل ہونے والے دریائے سندھ کے جنوبی کنارے پر بولی جانے والی ہندکو زبان ہر دس کوس کے بعد لہجے کے معمولی تغیر کے ساتھ تبدیل ہوتی ہوئی سرائیکی بننے کے بعد پنجند کے مقام پر سندھی لہجے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پنجاب میں بہنے والے دریائے سندھ کے معاون سبھی دریاؤں کے کنارے انسانوں کی یہی زبان آج بھی ہے۔ اٹک کے مقام پر بہنے والا تند دریائے سندھ شمال اور جنوب کے درمیان ایک قدرتی رکاوٹ تھا جسے انگریز کی بچھائی ریلوے لائن نے اور ازاں بعد میاں محمد نواز شریف کی بنائی موٹر وے نے پاٹا۔ دریائے سندھ کے اِس پار صرف دو میل شمال کی جانب نہ صرف زبان بلکہ ثقافت بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔

7: میں سمجھتا ہوں کہ اردو کی نسبت پنجابی اور دیگر سبھی پاکستانی اور ہندوستانی زبانیں (پنجابی، پوٹھواری، سرائیکی، سندھی، بلوچی، پشتو، ہریانوی، بھوجپوری، وغیرہ) تہذیبًا زیادہ تنومند ہیں۔ گنگا-جمنا بالائی دو آبے کی قدیم زبانوں نے اردو کو جنم دیا اور پالا پوسا۔ اِس کی نسبت لاہور، قصور و مضافات جہاں جگہ جگہ دو آبے تھے وہاں کی زبانیں اور اُن کی تانتیاں اپنی اپنی جغرافیائی حد میں زیادہ رہیں اور وہیں بہار دکھاتی رہیں۔ گنا پیلنے سے جو مٹھاس نکلتی ہے وہ زمین ہی سے لی گئی ہوتی ہے چنانچہ ہر زبان میں اپنے جنم بھوم کا ذائقہ باقی رہتا ہے۔ ایک پودا چہور کر اگر کہیں دور دراز اجنبی ماحول میں جاکر لگا لیا جائے تو وہ اپنی زندگی کے لیے وہاں کا پانی اور ہوا روشنی لے گا اور سایہ اور پھل بھی دے گا لیکن پھول پھل کے روپ اور ذائقے کا فرق ضرور ہوگا۔ غالب جیسے قادر الکلام شاعر کو بھی اپنی فارسی کی حیثیت داری ثابت کرنے کے لیے ملا عبد الصمد ایجاد کرنا پڑا تھا۔

8: زبان کے مرنے کی وجہ اُس میں دخیل الفاظ کی آمد نہیں بلکہ زبان کا چلن سے باہر ہوجانا اور روزمرہ ضرورتیں پوری کرنے کے لائق نہ رہنا ہے۔ اچھی زبان اپنی عمر پوری کرکے مرتی ہے تو اُس سے کئی بہتر زبانیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ لاطینی زبان مرگئی تو کیا نقصان ہوا؟ کیا لاطینی کے مرنے سے اُس کے علوم ختم ہوگئے؟ کیا لاطینی کی موت نے عربی اور ازاں بعد انگریزی کو اپنے علوم سے بہرہ مند نہیں کیا؟ اگر اردو والوں نے کوئی علومِ مفیدہ پیدا کیے تو کل کلا جب اردو مرے گی تب بھی یہ علوم زندہ رہیں گے۔ زبان ایک زندہ، نامی وجود ہوتی ہے۔ یہ پیدا ہوتی ہے، پرورش پاتی ہے، جوانی کی بہاریں اور جوبن دکھاتی ہے، دوسری زبانوں سے لفظوں کا لین دین کرتی ہے، بہت سی بولیوں کو جنم دیتی اور پالتی پوستی ہے، مضمحل ہوتی ہے، کہولت کا عرصہ گزارتی ہے، مر جاتی ہے۔ اگر زبان اچھی ہو تو Legacy چھوڑ جاتی ہے۔ زبانیں مرتی ہیں نہ کہ علوم۔

9: طہارتِ زبان (Language Purism) کے بارے میں میری رائے ہے کہ یہ صرف ذوق کی بات ہے۔ اردو/ ہندی کی مثال لیں تو یہ مانے بنا چارہ نہیں کہ عربی و فارسی دخیل الفاظ و محاورات نے اردو کو ثروت مند کیا۔ اب یہی کام انگریزی کر رہی ہے۔ وقت کا پہیہ چل رہا ہے اِس لیے کل کو یہ کام چینی زبان بھی کرسکتی ہے۔ راقم کی 2011ء کی ایک تحقیق کے مطابق اردو میں اِس وقت برِعظیم پاک و ہند کی علاقائی بولیوں سمیت کم سے کم سینتالیس (47) زبانوں کے الفاظ باقاعدہ شامل ہیں۔ اردو میں انگریزی الفاظ کے لیے غیریت بلکہ تنافر و تنافی کا رویہ صرف وہ لوگ رکھتے ہیں جن کے نزدیک انگریزی کے آنے سے اردو میں موجود عربی و فارسی دخیل الفاظ پر زد آئے گی۔ دخیل الفاظ و تراکیب تو تازہ خون ہوتے ہیں جو زبان کو حیاتِ نو دیتے ہیں۔ نئے اور عالمگیر معنی میں استعمال ہونے والے الفاظ کو اردو میں چلن دار کرنا چاہیے نہ کہ اردو پر فرسودگی کا چولہ ڈاٹے رکھنا۔ اوکسفرڈ نے اپنی لغات میں Supplement of Indian English شامل کرکے ہندوستانی انگریزی کو ایک روایت تسلیم کر لیا ہے تو ہم ہنگلش Hinglish یا اُردِش Urdish کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ نئے دور کی ضروریات کو ہاں کہتے ہوئے اردو اپنا چولہ بدل رہی ہے۔ اب نہ صرف رومن حروف باقاعدہ استعمال ہوا کریں گے بلکہ عن قریب اُردچِن Urdchin بھی بولی لکھی جانے لگے گی، اور دیکھنے والے دیکھیں گے کہ اِس کے لیے اردو کا روایتی رسم الخط بھی کام دے رہا ہوگا۔ یاد رہے کہ اوکسفرڈ نے ہندوستانی بولیوں کے صرف الفاظ کو نہیں بلکہ ہمارے اندلمانی لسانی کلچر کو بطورِ روایت تسلیم کیا ہے۔

10: حروفِ تہجی سے مل کر الفاظ بنتے ہیں اور الفاظ کا تحریری سراپا سکرپٹ/ لکھاوٹ/ لکھت/ رسم الخط (Drawing of the Writing) کہلاتا ہے۔ اردو کا چلن دار روایتی رسم الخط Indo-Perso-Arabic ہے جو عربی، فارسی، عبرانی اور کچھ برِ عظیمی زبانوں کی طرح دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے۔ اردو کو اگر رومن یا چینی یا جاپانی یا ترکی یا تھائی ملائی وغیرہ حروف میں لکھا جائے تو یہ بائیں سے دائیں لکھی جائے گی؛ اِسے رسم الخط یعنی سکرپٹ کی تبدیلی کہیں گے۔ زبان کا کئی ایک رسوم الخط میں لکھا جانا اُس کے مقبول اور مستعمل ہونے ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ زندہ زبان کا رسم الخط بھی زندہ ہوتا ہے اور اُس میں اصلاحات ہوتی رہتی ہیں۔ اردو کےرسم الخط میں بھی یہ اصلاح ہوتی رہی ہے۔ میں ضرورت پڑنے پر رسم الخط میں اصلاح اور تبدیلی دونوں کا قائل ہوں۔

10.1: نقلِ حرفی (Transliteration) اور رسم الخط کی تبدیلی (Change of Script) میں فرق ہے۔ جیسے عبرانی حروفِ تہجی جن کو یہودی/ بلاک/ چوکور سکرپٹ کہتے ہیں اور جن میں Hebrew, Yiddish, Ladino, Mozarabic زبانیں لکھی جاتی ہیں، اور جیسے بھاشا انڈونیشیا 1948 تک عربی حروف میں لکھی جاتی تھی اور آج رومن حروف میں، اور جیسے ہندوی کو صدیوں فارسیائے ہوئے رسم الخط میں لکھا جاتا رہا ہے، اُسی طرح اردو کو بھی کئی زبانوں کے حروفِ تہجی میں لکھا جا سکتا ہے۔ اردو کو رومانی بنائیں (Romanize) یعنی رومن میں لکھیں تو یہ نقلِ حرفی ہے اور دیو ناگری میں لکھیں تو رسم الخط کی تبدیلی، کیونکہ ہندوی زبان نے دیو ناگری رسم الخط کو پہلے ہی اپنایا ہوا ہے۔ اِسے کراس بریڈ اور ہائبرڈ والا فرق سمجھ لیجیے۔ نقلِ حرفی جس زبان میں کی جائے اُس میں وہ لفظ بے معنی ہوتا ہے، رسم الخط بدلنے سے معنی موجود رہتا ہے۔ نیز یاد رہے کہ نقلِ حرفی عمومًا اظہارِ تلفظ کے لیے کی جاتی ہے۔ نقلِ حرفی کے بارے میں میں سر سید احمد خاں (1869) کے نقطۂ نظر اور لائحۂ عمل کا حامی ہوں: جو زبان پڑھنا نہیں آتی اُسے بے تکلف اپنی مانوس لکھت میں لکھ لینا چاہیے۔ کوئی دو دَہے پہلے میں نے ایک عملی ضرورت کے لیے اردو کو کم و بیش گیارہ زبانوں کے حروفِ تہجی میں لکھوایا تھا۔

10.2: میرے نزدیک اردو کے روایتی رسم الخط کی ایک بڑی خامی اِس میں واولز کا اِعراب سے ظاہر ہونا ہے نہ کہ حروف سے، چنانچہ اردو میں Transliteration (نقلِ حرفی) اور Transcription (نقل نویسی) میں فرق نہیں ہوپاتا۔ مثال لیجیے کہ لفظ مکمل کو رومن میں mukammal لکھنا ٹرانسکرپشن ہے جب کہ اِس کی ٹرانسلٹریشن mkml ہوگی۔

10.3: میرے نزدیک اردو فانٹ اور اُس کی مشین ریڈ ایبلٹی وہ وجہ ہے جس سے اردو کی رومن میں نقلِ حرفی، رسم الخط کی تبدیلی بننے سے بچ گئی۔ دوسری طرف ہندوی کو دیکھیے کہ کیسے اردو سے الفاظ اپنی زبان میں جمع کرتی گئی لیکن اپنا رسم الخط برقرار رکھا۔ آج ہندوی بولنے میں اردو جیسی ہوگئی ہے لیکن رسم الخط تبدیل نہیں ہوا۔ رومن والا قضیہ اُتنا ہی رہا جتنا ہماری اردو کے ساتھ۔

10.4: ہر زبان کی کوئی بنیادی لپی ضرور ہوتی ہے جیسے قدیم فلسطینیوں کی عبرانی ہے یا جیسے ہندوی کے لیے اب دیو نگر کی دیو ناگری اختیار کرلی گئی۔ اِسی طرح اردو کا روایتی رسم الخط چونکہ Indo-Perso-Arabic ہے سو میں اِسے ہندفاربی (ہندوی-فارسی-عربی) کہتا ہوں۔

10.5: اردو کا ہندفاربی رسم الخط شدید خطرے سے دوچار ہے۔ اگر اردو کو صرف اِسی رسم الخط سے مخصوص کیے رکھا گیا تو، خاکم بدہن، یہ بہت جلد چلن باہر ہوکر اجنبی ہو جائے گی۔

11: یونانی حروفِ تہجی الفا بیٹ (Alphabet) کہلاتے ہیں اور اردو کے حروفِ تہجی ابتث۔ میرے نزدیک ہر بڑی زبان کی طرح اردو حروفِ تہجی کی تختی بھی جامد (Static) ہے نہ کہ متحرک (Dynamic)، اور اِن کی تعداد ۳۸ ہے: ا/ ب پ ت ٹ ث/ ج چ ح خ/ د ڈ ذ/ ر ڑ ز ژ/ س ش ص ض/ ط ظ ع غ/ ف ق ک گ/ ل م ن و/ ہ ھ ء ی ے۔ اردو کے لیے مستعمل حروفِ تہجی کی تعداد پہلے ہی زیادہ ہے اِس لیے اِن میں اضافہ درست نہیں۔ ہکار آوازیں اردو کا حسن ہیں اور اِن کی تعداد مقرر نہیں کیونکہ آواز کا تعلق منہ کی ساخت سے ہے نہ کہ تحریر سے۔ عند الضرورت کسی بھی ہکار آواز کی صوتی شخصیت کی نمائندگی کے لیے مناسب حرفِ تہجی کے ساتھ ہائے مخلوط کو استعمال کرلینا چاہیے۔ حروفِ تہجی سب کی ضرورت ہیں، ہائیہ آوازوں کی ضرورت مقامی ہے۔ حروفِ تہجی کا تعلق زبان سے ہے جب کہ ہائیہ آوازوں کا تعلق بولیوں سے۔

12: بغیر پہناوے کے کوئی حرفِ تہجی شناخت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پہناوا فانٹ ہے، جو ایک وقت میں ایک ہی ہو سکتا ہے۔ اردو (لکھنے کے لیے مستعمل) حروف لکھنے کے کئی فانٹ موجود ہیں جن میں نستعلیق اور نسخ مشہور ہیں۔ میرے نزدیک نسخ بہتر ہے کیونکہ اِس میں ہجا کی غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ اِس کے مقابل نستعلیق میں لکھنا تقریبًا خطاطی ہے۔ Writing (لکھاوٹ) اور Calligraphy (خطاطی) میں فرق رکھنا ضروری ہے۔ نستعلیق کی گولائیوں پہ ایہام گو شاعر احسن اللہ کا شعر کیا برمحل یاد آیا:
ل نستعلیق کا ہے اُس بتِ خوشخط کی زلف
ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اِس لام کے

13: میرے نزدیک اصطلاحات کا ترجمہ ایک شوقِ فضول ہے۔ ہر شعبۂ علم کی اپنی لفظیات اور ڈسکورس ہوتا ہے اور یہ اُسی میں سمجھا سمجھایا جاتا ہے۔ کسی بھی شعبۂ علم کی Body of Knowledge کو ضرور اپنی زبان میں ڈھال لیا جائے لیکن اُس شعبۂ علم کا نام اور اُس کی اصطلاحات کو اُسی طرح رہنے دیا جائے (= اردوا لیا جائے) جیسے کہ وہ عالمی طور پر لکھی بولی جا رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

14: زبان وہ ہے جو عوام بولتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہ فرق بہت اہم ہے کہ سوشل میڈیا پر عوام اپنی مرضی کا لکھ اور بول رہی ہے۔ سوشلستانی سماج جو زبان بول رہا ہے اور زبان کو جس لکھت میں لکھ رہا ہے وہی زبان و ادب کا آوا بن رہا ہے۔ تلفظ اور ہجے ضرور درست رکھنے چاہییں لیکن رومن اردو کا چلن ہوجانے کی وجہ سے اب کئی لفظوں کے املا میں ذ/ز/ض/ظ اور س/ص/ث نیز ح/ہ وغیرہ کا فرق ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ یہ ہم صوت ہیں۔ ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے بعضے حروفِ تہجی کو ’’مردہ لاشیں‘‘ یونہی نہیں کہا تھا۔ سوشلستانی اردو بیشتر رومن حروف میں لکھی جا رہی ہے۔ یہی سائبر اردو ہے اور یہی سوشلستانی رسم الخط اردو کا نیا پہناوا ہے۔ سوشلستان میں ویسے رہیے جیسے سوشلستانی رہتے ہیں!

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply