چلو ایک بار سہی۔۔۔۔ اشفاق احمد

میں درد سے بالکل بھی انکاری نہیں ہوں۔ درد ہی تو ہمارے انسان ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ سچ پوچھیے تو درد ہی ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے اور یہ درد ہی تو ہے جو ہمیں یہ حقیقت باور کراتا رہتا ہے کہ اس جہاں کی ہر “تکمیل” نجانے کتنی تشنگیوں کو جنم دے رہی ہے اور ان تشنگیوں کی تسکین کا سامان کرتے کرتے ہم درد کا اصل اشارہ سمجھ ہی نہیں پاتے۔

جانتے ہیں ،درد ہمیں کیا بتانا چاہ رہا ہے؟؟

درد ہمیں خاموشی کی زبان میں یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ ہم کتنے بھی “بڑے” ہو جائیں اور کیسی ہی اونچی اڑان بھر لیں لیکن ہم اپنے اندر بہت معصوم سے ہیں۔ ہماری خواہشیں، ہماری تشنگیاں، ہماری آہ بھرتی ادائیں، سبھی معصوم سی ہیں۔ د

ہمیں بتانا چاہ رہا ہے کہ لوٹ آؤ اپنے ” اصل” کی طرف، تاکہ فطرت کی رعنائی کو جیسی کہ وہ ہے ویسی دیکھ سکو۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ ہم اشارہ سمجھ ہی نہیں پاتے اور وقت ، حالات اور تجربات کے پے درپے وار کے آگے بے بس ہو کر اپنی معصومیت کے لوٹ کے آنے کو کسی تشنگی کی تکمیل سے مشروط کر دیتے ہیں۔۔

سو یہی ہو رہا ہے صاحب۔۔ بس یہ کام ہو جائے تو پھر میں یوں کرونگا۔ ۔کہیں سے یہ مل جائے تو پھر میں اپنی اصل میں لوٹ آونگا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایسا نہیں ہے معصومیت کے لوٹ کر آنے میں کسی آرزو کی تکمیل ہر گز رکاوٹ نہیں، رکاوٹ گر ہے تو بس یہ کہ ہمیں بہت شوق ہے “بڑا” بننے کا۔ ہم جان ہی نہیں پاۓ کہ پورے عقل و شعور کے ساتھ پنپنے والی معصومیت میں جو مزہ ہے وہ زہر آلود زبان لیے ہوئے، احساس ، عقل، شعور سے عاری اور ذوق سے نا آشنا ” بڑے” کی زندگی میں کہاں؟؟ ایسے بڑے تو بس سوچتے اور کوستے رہ جاتے ہیں اور معصوم روحیں فطرت کی ہر مسکراہٹ لے اُڑتی ہیں۔۔
ایک بار  ہی سہی لیکن ۔۔۔۔
اندر بسنے والے اس معصوم کی کھوج میں ضرور نکلیے۔ جس دن اس سے ملاقات ہوئی تو پھر آپ اس سے جدا نہیں رہ پائیں گے یہ آپکی کھوئی ہوئی  مسکراہٹ لوٹا دے  گا،جو چہروں پر موجود کرختگی کی وجہ سے باہر نہیں آ پاتی۔ اور پیاری سی بات بتاؤں آپ کو؟

Advertisements
julia rana solicitors

خدا نے بھی اسی معصوم کی لاج رکھتے ہوئے معافی کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھا ہے کہ اس کے فقط دو آنسو ہی کام آجاتے ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ اسی کا گلا گھونٹتے ہوئے” بڑا” بننے کے عذاب میں ہلکان ہیں۔ ہم ایسے “بڑے” کیوں بنیں؟ کہ جن کے ہوتے ہر کسی کو ہر وقت یہ ڈر لگا رہے کہ  نجانے کب کوئی کاری وار کرکے دلوں کو چھلنی کردیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply