• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ڈاکٹرخالدسہیل کی کتاب انسانی شعورکا ارتقاء (تعارف اور تاثرات/دوسری،آخری قسط)۔۔۔۔عبدالستار

ڈاکٹرخالدسہیل کی کتاب انسانی شعورکا ارتقاء (تعارف اور تاثرات/دوسری،آخری قسط)۔۔۔۔عبدالستار

آٹھواں باب بعنوان ”روحانی تجربات۔۔۔سائنس اور نفسیات کے آئینوں میں“اس باب میں ڈاکٹر سہیل روحانی تجربات کے حوالوں سے بطور ماہر نفسیات اور سائنس کا طالب علم ہونے کے ناطے سے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہیں۔پہلے وقتوں میں یہ سمجھا جاتا تھاکہ روحانی تجربات صرف اور صرف دینی شخصیات کا خاصہ ہوتے ہیں مگر جدید سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ روحانی تجربات کسی انسان کو بھی ہوسکتے ہیں۔چونکہ روحانیت انسانیت کا حصہ ہے اس کا خدا اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ تجربات کسی شاعر،ادیب،موسیقار،سائنسدان اور عام انسان کو ہوسکتے ہیں ان کو معراجی تجربے کہا جاتا ہے۔جب ہم روحانی تجربات کاسائنس اور نفسیات کے آئینے میں مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسانی دماغ کے دو حصے ہیں۔”دایاں اور بایاں“ بائیں حصے کا تعلق زبان سے ہے جبکہ دائیں حصے کا تعلق فنون لطیفہ اور روحانیت سے ہے۔تخلیقی اور روحانی تجربات دائیں دماغ میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور پھر وہ بائیں دماغ تک پہنچتے ہیں اور پھر بایاں دماغ ان کو الفاظ میں ڈھالتاہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ جب دائیں دماغ کے تجربات بائیں دماغ تک پہنچتے ہیں تو اسے یوں لگتا ہے کہ وہ باہر سے آئے ہیں وہ انہیں اپنانے سے انکار کر دیتا ہے۔اگر وہ شخص ایک مذہبی معاشرے اور خاندان کا فرد ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ تجربات خدا اور فرشتوں سے آئے ہیں۔یہ باب انسانی دماغ کی پر اسراریت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے کیونکہ انسانی تحقیق اب اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ شاید اب پراسراریت کے قصوں کہانیوں کی کوئی گنجائش باقی نہ بچے گی۔آج کا انسان مذہبی پراسراریت سے نکل کر سائنس کی بدولت شعور کی اونچی مچان پر بسیرا کرچکا ہے۔

نواں باب بعنوان ”جدید انسان کا روحانی مسئلہ“ یہ تحریر کارل ینگ کی ہے اور اس کا ترجمہ ڈاکٹر خالد سہیل نے کیا ہے۔ کارل ینگ اس اہم موضوع کے حوالے سے اپنا ایک مشاہدہ شئیر کرتا ہے کہ آج کے جدید انسان کی حیثیت کچھ اس طرح سے ہے کہ جیسے وہ ایک ایسی پہاڑی پر کھڑا ہو جہاں اس کے آگے انسانیت کا مستقبل اور اس کے نیچے انسانیت کا ماضی دھند میں لپٹا ہواہو۔ینگ کی نظر میں جدید انسان کو جو چیز عام انسان سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کی اپنے حال سے مکمل واقفیت ہے۔ جدید انسان کے شعور میں اتنی گہرائی اور وسعت پیدا ہوچکی ہے کہ وہ انسانی ارتقاء کی آخری سیڑھی پر کھڑا نظر آتا ہے۔ینگ کا کہنا ہے کہ ہمارے دور میں کسی انسان کا جدید ہونا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اس کے لیے نجانے کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔اعلیٰ  درجے کا شعور انسان کو ایک خاص قسم کے احساس گناہ میں مبتلا کر دیتا ہے۔اس لیے صرف وہی شخص اس شعور کا بار اٹھا سکتا ہے جو ماضی کے بھاری بوجھ کو پیچھے چھوڑ آیا ہو۔انسانی شعور کی اگلی منزل کو صرف وہی شخص گلے لگاسکتا ہے جو پچھلی تمام منازل کوعبور کر آیا ہو۔یہ باب انسانی ترقی کے پہلو کے ساتھ ساتھ انسانی تنزلی کے پہلو کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں آج کا انسان ٹیکنالوجیکلی بہت آگے نکل چکا ہے مگر اس ٹیکنالوجی نے ورلڈوار فرسٹ اور سیکنڈ کی صورت میں بڑی بے رحمی سے انسانیت کو پامال بھی کیا ہے جس میں کروڑوں معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا۔اس باب میں ینگ یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ جدید انسانوں کو جن سوالوں کے جواب مذہب نے نہیں دیے اب وہ انہیں نفسیات میں تلاش کر رہا ہے اسے احساس ہو رہا ہے کہ مذہب کے جوابات انسان کی ذات کی گہرائیوں سے ابھرنے کی بجائے آسمان کی بلندیوں سے اترتے ہیں جن سے اب وہ مطمئن نہیں ہے۔یہ باب انسان کے مسائل کو انسان کے ساتھ جوڑتا ہے اور تمام مسائل کا حل انسانی شعور کی بنیاد پر حل کرنے کی دعوت ِفکر دیتا ہے۔ یہ باب واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ انسان کو اپنی ذات کی گہرائیوں سے واقفیت اور اپنی خوبیوں اور خامیوں کا شعور ہونا چاہئے۔یہ سفر بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے مگریہ سفر ہمیں اپنی ذات سے ملاتا ہے۔اس حوالہ سے یورپ کے بہت سے دانشور سمجھتے ہیں کہ مذہب سادہ لوح انسانوں اور عورتوں کو خوش رکھنے کے لیے تو اچھی چیز ہے لیکن حقیقی زندگی میں معاشی اور سیاسی مسائل   کو حل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

دسواں باب بعنوان ”ایمان شخصیت کا ایک رخ“ یہ تحریر ایرک فرام کی ہے اور اس کا ترجمہ ڈاکٹر سہیل نے کیا ہے۔اس باب میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ موجودہ دور عقل کی حکمرانی کا دور ہے اور ایمان کا تصور اب اپنی بنیادیں کھورہا ہے۔یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ حقائق کا رشتہ سائنس سے ہے جب کہ ایمان ما بعدالطبیعات اور روحانیات سے متعلق ہے۔سائنس کی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔کوپرنیکس،کیپلر،گیلیلیواور نیوٹن ان سب کا مدلل سوچ پر ایمان تھا۔یہ علیحدہ بات ہے کہ انہیں اس راہ میں بہت سی قربانیاں دینی پڑیں۔آخر میں یہ باب ایک سوالیہ نشان چھوڑجاتا ہے کہ آج کا انسان کس قسم کے ایمان کو ترجیح دیتا ہے۔۔۔کیا وہ آمروں،حاکموں اورمذہبی راہنماؤں کے آگے بغیر سوچے سمجھے سرِتسلیمِ خم کرنے کو پسند کرتا ہے اور ایک مشین کی طرح زندگی گزارنا چاہتا ہے یا اپنے مشاہدات اور تجربات پر اعتماد کرتے ہوئے زندگی کا ایک مثبت نظریہ قائم کرنا چاہتا ہے؟؟

گیارہواں باب بعنوان ”سیکولرہیومن ازم“یہ تخلیق ڈاکٹر خالدسہیل کی ہے اور اس کا ترجمہ رفیق سلطان نے کیا ہے۔اس شاہکار باب کا آغاز ڈاکٹر سہیل اپنے ایک شعر سے کرتے ہیں
” اپنی پرواز کا اندازہ لگانے کے لیے
اپنے ماحول سے آزاد فضائیں مانگیں “

ڈاکٹر سہیل ایک کہانی سناتے ہیں کہ ایک نوے سالہ بزرگ آم کا درخت لگا رہے تھے۔انہیں کسی شخص نے کہا آپ عمر کے جس حصے میں ہیں آپ کو اس درخت کا پھل بھی کھانا نصیب نہیں ہوگا کیونکہ آم کا درخت سات سال بعد پھل دیتا ہے۔بزرگ نے ایک شفیق سی مسکراہٹ کے بعد جواب دیا کہ یہ درخت ”میرے پوتے پوتیوں،نواسے نواسیوں کے لیے ہے“ کہانی کے اس دلچسپ موڑ پر ڈاکٹر سہیل اپنے حصے کی حاصل شدہ بصیرت اور دانائی کو اگلی نسل کے نمائندہ اپنے پیارے بھانجے ذیشان کے نام کر رہے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں آم کے در خت ہوں یا علم و آگہی کے،ان کے پھل وہ محبت بھرے تحفے ہیں جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔اس باب میں ڈاکٹر سہیل اپنے شاعر چچا عارف عبدالمتین سے ایک ملاقات کی صورت میں ڈائیلاگ کا تذکرہ کرتے ہیں۔جس ملاقات میں ڈاکٹر سہیل روایتی سکول آف تھاٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے اس سے باغی ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور جواب میں دانائی اور بصیرت والے چچا کچھ یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ سہیل ”تم اپنی میڈیکل کالج کی تعلیم مکمل کر لو۔ڈاکٹر بننے کے بعد تمہیں معاشی آزادی حاصل ہو جائیگی اور تم اپنی مرضی سے اپنا فلسفہ حیات اور طرز زندگی اپنا سکو گے اس طرح سے پھر تم روایت کی شاہراہ چھوڑ کر پوری آزادی سے اپنے من کی پگڈنڈی پر چل سکو گے“ ان لفظوں کے اعتماد نے ڈاکٹر سہیل کی بقیہ زندگی کو بہت ہی آسان کردیا اور پھر اپنی خواہشات کی معراج پر پہنچ کر ہی دم لیا اور انسانوں کے لیے اپنی کتابوں کی صورتوں میں درجنوں محبت نامے لکھ ڈالے۔ماضی کا بوجھ اپنے کندھے سے اتارکر اپنی مشاہداتی اور ریاضتی سمجھ اور آنکھ سے تمام مذہبی فلسفے کو کھنگال کر ہیومن ازم کے فلسفے کو گلے لگا لیا۔اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ
”عجب سکون ہے میں جس فضاء میں رہتا ہوں
میں اپنی ذات کے غارِ حرا میں رہتا ہوں“

بارہواں باب بعنوان ”نوع انسانی کے مصائب کے سات اسباب“ یہ تخلیق خالد سہیل کی ہے اور اس کا ترجمہ امیر حسین جعفری نے کیا ہے۔اس میں ڈاکٹر سہیل یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں نوع انسانی ایک دوراہے پرہے۔ایٹم بم کی ایجاد کی وجہ سے تاریخ انسانی پہلی بار اجتماعی خودکشی کے دہانے پر کھڑی ہے۔اس باب میں وہ انسانی مصائب کے سات اسباب کو بیان کرتے ہیں اور پھر ان اسباب کو زمینی حقائق کے ساتھ جوڑ کر واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا حل کیا ہے۔

تیرہواں باب بعنوان ”سیکولر اخلاقیات اور سات انسان دوست مفکرین“ یہ تخلیق بھی خالد سہیل کی ہے اور اس کا ترجمہ منصور حسین نے کیا ہے۔اس باب کا آغازڈاکٹر سہیل ایک بنیادی سوال سے کرتے ہیں جو کہ ان سے ایک مذہبی خاتون نے پوچھا تھا سوال یہ تھا کہ ”اگر آپ خدا پر، نبیوں پر، وحی پر، گناہ ثواب کے تصوراور قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتے تو آپ اور دیگر آزاد خیال منکرینِ خدا ومذہب راہنمائی کہاں سے حاصل کرتے ہیں“ اس سوال کے جواب میں سہیل کہتے ہیں کہ صدیوں کے سفر کے بعد انسانی ارتقاء اس منزل پر پہنچ گیا ہے جہاں نفس انسانی میں ایک ذاتی ضمیر اور سماجی شعور پیدا ہوچکا ہے۔یہ باب یہ واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اکیسویں صدی کا انسان آزاد اور خود مختار ہو چکا ہے۔اس سچائی اور حقیقت پسندی کو ڈاکٹر سہیل سات ہیومنسٹ مفکروں کے ساتھ جوڑتے ہیں جن کی تعلیمات میں کوئی خدا،جنت اور دوزخ کا تصور نہیں ہے بلکہ یہ مفکرین نروانہ یا دانائی کل کے لیے اپنے من کا طواف کرنے کو کہتے ہیں۔ان مفکرین میں سرِفہرست کنفیوشس،بدھا، ہیپو کریٹیس،سقراط،سگمنڈفرائیڈ،وکٹر فرینکل اور ابراہم ماسلو ہیں۔

چودہواں باب بعنوان ”امن کے معمار“خالد سہیل اپنی اس تخلیق میں کچھ ایسے امن کے معماروں کی بات کرتے ہیں جن کی بصیرتوں سے ایک دنیا سیراب ہوئی اور جن کے انقلابی اقدامات کی وجہ سے یہ دنیا رہنے کے قابل بن پائی۔ ان میں سرفہرست کریڈٹ ڈاکٹر سہیل اقتصادی امن کے سفیر اور امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والے بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد یونس کو دیتے ہیں جنہوں نے دیہاتی سطح پر گرامین بنک بنانے شروع کیے اور چھوٹے چھوٹے قرضوں کا اجراء کرکے غربت کے خلاف اعلان جہاد کیا۔ ڈاکٹر یونس نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ غربت امن کے لیے خطرہ ہے اور افلاس کے خلاف جہاد پر امن زندگی اور پر امن معاشروں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔سماجی امن کے سفیر مارٹن لوتھر کنگ جونئیر جنہیں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔انہوں نے واضح کیا تھا کہ پرامن فضاء پیدا کرنے کے لیے مختلف نسلی،مذہبی اور کلچرل پس منظر کے لوگوں کو مل جل کر رہنے اور پر امن طریقوں سے اپنے جھگڑے حل کرنے کا طریقہ کار اپنانا ہوگا اسی طرح سے انسانی حقوق و امن کی سفیر ایران کی شیریں عبادی ہیں۔

پندرھواں باب بعنوان ”انسانی ارتقاء میں صوفیوں،فنکاروں اور سائنسدانوں کا کردار“ یہ تخلیق ڈاکٹر سہیل کی ہے اور اس کا ترجمہ عظمٰی محمود نے کیا ہے۔ اس باب میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسانی ارتقاء کا عمل صدیوں پر محیط ہے اور اس عمل کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ان شخصیات کا ہوتا ہے جو غیر روایتی راستوں کے سفیر ہوتے ہیں۔ایسے لوگ تاریخ میں کبھی توصوفی کہلائے تو کبھی سادھو،کبھی سنت اور کبھی درویش۔یہ وہ غیرروایتی لوگ تھے جنہوں نے اپنے من کو اپنا مندر، گرجا، اور مسجد بنایا اور لگی بندھی روایات کو اپنانے سے انکار کردیا۔ان میں بھگت کبیر،بابابلھے شاہ،شیخ سعدی،مولانا رومی،ولیم بلیک اور والٹ وائٹمن تھے۔یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے مذہبی اور معاشرتی سزاؤں کو نہ صرف بھگتا بلکہ بھاری قیمت بھی ادا کی۔

سولہواں باب بعنوان ”انسانی ارتقاء کا اگلا قدم“یہ باب واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ انسانی لا شعوروسیع الجہات اور کثیر الاشکال ہے اور ڈاکٹر سہیل کی نظر میں اونچے درجے پر فائز بالغ نظر انسانوں میں تین عناصر مشترک ہوتے ہیں ” تنقیدی سوچ بچار، تخلیقی ذہن، اور ہمدردانہ رویہ“۔

سترہواں باب بعنوان ”روایتی اکثریت اور تخلیقی اقلیت“اس باب میں ڈاکٹر سہیل بطور ماہر نفسیات ایک انسان کی فطری ذات کے حوالہ سے بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ولادت کے وقت تمام بچے ایک منفرد فطری رجحان اور مزاج لیے پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے بیج کو ایک تناور درخت بننے کے لیے زرخیز زمین،مناسب روشنی اور تازہ ہوا کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ پھل پھول دے سکے بالکل اسی طرح بچوں کو بھی ایک محبت بھرے ہمدرد گھر،سکول اور سماج کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ ایک صحت مند،کامیاب اور صلح جو انسان بن سکیں۔ایسے بچے جو حقارت گالی گلوچ اور پر تشدد ماحول میں پرورش پاتے ہیں ان کے لئے امکان غالب ہے کہ بالغ ہونے پر تلخی،نفرت اور تشدد ان کی ذات کا حصہ بن جائے اور وہ نا صرف اپنے لئے بلکہ اپنے ماحول اور سماج کے لئے بھی ایک خطرہ بن جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری باب بعنوان ”تاریخی ملاقات“اس باب میں ڈاکٹر سہیل اپنی ایک ایسی یاد گار ملاقات کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ مختلف صدیوں میں زندگی گزارنے والے لوگوں کے خیالات میں جھانکتے ہیں۔وہ ایک تقریب کا احوال لکھتے ہیں جس میں ایک بڑے سے میدان میں شامیانے لگے ہوئے ہیں اور ہر شامیانے کے خیمے پر ایک بینر بھی آویزاں ہے۔وہ ایک شامیانے میں داخل ہوتے ہیں جس کے بینر پر لکھا تھا اکیسویں   صدی کے لوگ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خیمے میں مختلف لوگ چل پھر رہے تھے، کچھ کتابیں پڑھ رہے تھے اور کچھ دلجمعی کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے تھے۔اس سارے پس منظر میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کچھ لوگ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی گزشتہ صدیوں میں کھوئے رہتے ہیں اور موجودہ حالات سے نظریں چراکر ماضی میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح سے یکے بعد دیگرے انیسویں صدی،اٹھارویں صدی، حتٰی کہ ساتویں صدی تک کے خیمے بنے ہوئے تھے۔ یہ باب بہت ہی دلچسپ ہے اور سچائی کے متلاشیوں کے لیے ایک ایسا انسائیکلوپیڈیا ہے کہ جس میں شعور کا ہر رنگ موجود ہے مگر شرط یہ ہے ڈھونڈنے والے کو ”کلر بلائینڈ“نہیں ہونا چاہیے۔یہ کتاب بصیرت و آگہی کی ایک ایسی دستاویز ہے کہ جس میں ہر ممکنہ حل موجود ہے۔(یہ کتاب سٹی بک پوائنٹ کراچی والوں نے شائع کی تھی)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply