ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔۔ہُما جمال

کل نفس ذائقتہ الموت،

ہر متنفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے (القرآن)

دنیا میں کوئی نفس (انسان)اپنی زندگی کی میعاد نہیں جانتا کہ وہ کتنی عمر لکھوا کر لایا ہے، بعض لوگ لمبی عمر جیتے ہیں لیکن جب اعمال کا رجسٹر اٹھائیں تو جی چاہتا ہے کہ کچھ اور مہلت مل جائے تاکہ نیک اعمال کرکے برے اعمال منہا کیے جاسکیں جبکہ بعض لوگ قلیل عمر میں بھی انسانیت کی ایسی خدمت کرجاتے ہیں کہ ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔

نفسا نفسی  کے اس دور میں جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو یہاں انسانوں کے ہجوم میں ہمیں کسی نہ کسی سے شکایت رہتی ہے،کوئی حکمراں بن کر ہمارے حقوق غضب کررہا ہے تو کوئی عوام ہوتے ہوئے اپنے درست فرائض ادا نہیں کرپارہا۔

ہماری زبانیں ہر لحظہ شکوہ و شکایت اور کسی نہ کسی کی غیبت میں مبتلا رہتی ہیں، کبھی کبھی ہمیں دنیاوی پریشانیوں سے گھبرا کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ دنیا صرف شر کا مجموعہ ہے ،یہاں اچھائی پنپ ہی  نہیں سکتی۔لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ،کہ تمام دنیا پر صرف شر کا راج ہے، اگر ہم اسی تصویرِ دنیا کا  دوسرا رخ دیکھیں تو ہمیں یہاں وہ نام ملیں گے جن سے انسانیت پر اعتبار کرنا اب بھی ممکن ہے، جو روشنی کا استعارہ ہیں، جن کے دم سے اس دنیا میں اب بھی زندہ رہنے کی امید ہمکتی   ہے۔یہ ہماری ہی دنیا ہے جہاں چند انسان اس اندھیرے میں روشنی کیلئے دیپ کی مانند جلتے ہیں اور اپنے دل میں اس تاریکی کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے سوچتے ہیں کہ کاش وہ سورج بن جائیں ایسا سورج جس کی روشنی میں تمام انسان پرسکون رہیں ۔

ہم انسانیت کی خدمت کرنے والے بڑے بڑے ناموں سے تو بخوبی واقف ہیں اور انہیں گاہے بگاہے خراج تحسین پیش کرتے رہتے ہیں لیکن آج میں اس تحریر میں بہت بڑے بڑے ناموں پر روشنی ڈالنے نہیں بلکہ ایک ایسے نام سے آپ سب کو متعارف کرانا چاہتی ہوں جو منعم (انعام ) تھا جو منہاس (نرم خو) تھا۔۔

ملیے 29 سالہ عبدالمنعم منہاس سے، جو دل میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ لئے اپنے حصے کی شمع جلائے انسانیت کے تاریک رستوں کو روشن کرنے کا حق ادا کررہے تھے۔

عبدالمنعم منہاس اپنے نام کی طرح نرم خو، ملنسار، اور دنیا کیلئے انعام تھے، اپنی نجی مصروفیات کے باوجود انسانیت کی خدمت کرنا انکا شعار تھا،کم عمری سے ہی انسانیت کی فلاح و بہبود سے وابستہ رہے، اور بہت کچھ کرنے کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے۔عبدالمنعم منہاس 21 سال کی عمر میں Foundation fighting poverty سے وابستہ ہوئے اور اپنی تمام تر خدمات، وقت غریب عوام کیلئے رضاکارانہ بلامعاوضہ صَرف کیا،غریبوں کو راشن پہچانا ہو، یا سخت گرمی میں روزہ داروں کو افطار کروانا یا معصوم بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنا عبدالمنعم منہاس کی خدمات پیش پیش رہیں،

اگلے ماہ عبدالمنعم منہاس رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھے، ان کی منگیتر عائشہ رفیق جو  سماجی کاموں میں انکی رفیق رہیں۔   دونوں  اپنی نئی زندگی کے خواب آنکھوں میں ستاروں کی مانند روشن کیے ہوئے تھے۔لیکن 4 فروری 2020 اچانک ایستھما اٹیک کے سبب خالق حقیقی سے جاملے۔

عبدالمنعم منہاس کے بارے آگاہی اس وقت حاصل ہوئی جب وہ اس عارضی دنیا کو چھوڑ کر حقیقی دنیا کا سفر شروع کرچکے ہیں،لیکن عبدالمنعم کی زندگی کو ان کے جانے کے بعد دیکھا تو وہ مشعل راہ نظر آئی،جس کے پیچھے چل کر ہر کوئی اس دنیا کی تاریکیاں کم کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے،کاش کہ ہم عبدالمنعم کی زندگی اور کم عمری میں اس زندگی کو خیرباد کہنے سے یہ سیکھ سکیں کہ ہمارا آج صرف ہمارا ہے، اگر اس آج کو اس طریقے پر گزار لیں جو دکھی انسانیت کی خدمت میں صرف ہو تو ہمیں کل اس زندگی کے ختم ہوجانے کی فکر نہ ستائے ۔

عبدالمنعم جیسے تمام لڑکے ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہیں، عبدالمنعم منہاس ہمیشہ ان لوگوں کی دعاؤں کا حصہ رہیں گے جن کے لئے وہ بھوک مٹانے کا وسیلہ بنے اور مصیبت کے وقت کام آئے۔

عبدالمنعم منہاس اپنے پیاروں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور یقین محکم ہے کہ رب کریم،  انسانیت سے محبت کرنے کے سبب عبدالمنعم منہاس کا نام ان لوگوں میں شامل کرے  گا جن سے  وہ محبت کرتا ہے ۔

اللہ کریم عبدالمنعم منہاس کے درجات بلند فرمائے اور انکے لواحقین کو صبر جمیل نصیب فرمائے!

انا للہ وانا الیہ راجعون،

Advertisements
julia rana solicitors london

بے شک ہم اللہ ہی کیلئے ہیں اور بے شک اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply