ہاتھ پاؤں بندھی پولیس۔۔گل نوخیز اختر

کوئی بندہ آپ کو تین چار تھپڑ رسید کردے یعنی ایسے تھپڑ جن کا نشان دس منٹ بعد ختم ہو جائے اور کوئی دانت بھی نہ ٹوٹے تو ذرا کروا کے دکھائیں پرچہ۔ ایسے کیسز میں آپ لاکھ سر پیٹتے رہیں لیکن پہلے آپ کو میڈیکل کروانے کا مشورہ دیا جائے گا اور یہ میڈیکل بھی عموماً آپ نے خود ہی کروانا ہوتا ہے۔ اس کے لیے مختلف سرکاری اسپتال مقرر ہیں لیکن اگر آپ ان کے طریقہ کار سے واقف نہیں تو وہ رہا آپ کا پرچہ اور یہ رہا آپ کا منہ۔ اسی طرح اگر آپ کو کوئی ایسا ڈاکٹر مل جاتا ہے جو سرے سے ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ جعلی سرٹیفکیٹس کے ساتھ فراڈ کر رہا ہے اور آپ کو اچانک ایک دن اطلاع ملتی ہے کہ جس ڈاکٹر سے آپ علاج کے نام پر لاکھوں روپے خرچ کر چکے ہیں وہ موصوف محض ایف اے (ہائی تھرڈ ڈویثرن) پاس ہیں تو آپ کی رگیں بھنچ جاتی ہیں اور آپ تہیہ کر لیتے ہیں کہ اس کو قانون کے شکنجے میں لانا ہے۔ لیجئے ذرا یہ بھی کرکے دیکھ لیجئے۔ اول تو پولیس اسٹیشن پہنچنے پر آپ کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹروں کے معاملات صرف ہیلتھ کیئر کمیشن والے دیکھتے ہیں وہاں تشریف لے جائیے۔ آپ چیختے ہیں کہ یہ تو ڈاکٹر ہی نہیں تھا۔ جواب آتا ہے کہ اس کے باوجود ہیلتھ کیئر کمیشن ہی معاملہ دیکھے گا۔ پنجاب میں ہیلتھ کیئر کمیشن غنیمت ہے کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ لوگ بڑے خلوص سے کام کرتے ہیں۔ جعلی ڈاکٹروں کے کلینک سیل کردیتے ہیں، اُن پر ایف آئی آر درج کرواتے ہیں لیکن ظاہری بات ہے اُن کے پاس پولیس والی اتھارٹی نہیں۔ سو آپ کا فراڈیا ڈاکٹر اطمینان سے کسی دوسری جگہ یہی دھندہ شروع کردیتا ہے۔ اب اگر آپ ڈھیٹ نہیں تو چپ کرکے بیٹھ جائیں گے اور اگر اپنا وقت اور نوکری خطرے میں ڈال کر اس کام کے پیچھے پڑ ہی جائیں تو پتا چلے گا کہ آپ دفعہ چار سو بیس کا پرچہ کروا سکتے ہیں جس کا مطلب ہے اگلے دن ضمانت۔ یہ پرچہ بھی ایس ایچ او نہیں کرے گا بلکہ پہلے ڈی ایس پی کے پاس جانا ہوگا، پھر ایس پی کے پاس۔ یہاں بھی کچھ نہ ہو تو اس سے اوپر کی پوسٹ پر تعلقات آزمائیے۔ ان شاء اللہ پرچہ ہوجائے گا۔ آپ کے گھر رات کے وقت ڈاکو گھس آتے ہیں، اسلحے کے زور پر آپ کو یرغمال بنا کر مال لوٹتے ہیں اور فرار ہو جاتے ہیں۔ آپ فوراً تھانے پہنچتے ہیں۔ آپ کو پہلا مشورہ یہی دیا جائے گا کہ ڈاکے کے بجائے چوری کا پرچہ کروا لیں۔ کچھ دیر بعد آپ کو خود بھی یقین ہونے لگے گا کہ ڈاکا محض آپ کا خواب تھا اصل میں تو آپ کی چوری ہوئی ہے۔ یہ تو وہ حقیقتیں ہیں جو ہم میں سے اکثر لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ لیکن کچھ حقیقتیں اور بھی ہیں جنہیں ہم بہت کم جانتے ہیں۔ نشہ بیچنا جرم ہے۔ آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کے علاقے میں منشیات کا کاروبار ہورہا ہے۔ آپ پولیس میں اطلاع دیتے ہیں۔ پتا چلتا ہے کہ معاملہ محکمہ صحت کے انڈر آتا ہے۔ آپ منشیات پینے والوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پولیس کسی نشئی کو اٹھا کر لے آتی ہے، نشے کے انجکشن بھی برآمد ہو جاتے ہیں لیکن اب پولیس نے اسے مہمان بھی بنا کر رکھنا ہے اور یہ بھی سوچنا ہے کہ اس کا کیا کیا جائے کیونکہ عموماً خطرناک انجکشن لگانے والا نشئی چھ ماہ میں ہی یا تو کچھ بولنے کے قابل نہیں رہتا یا خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔ پولیس کے ہاتھ بری طرح بندھے ہوئے ہیں۔ کل ایک ایس ایچ او صاحب سے گفتگو ہورہی تھی۔ جناب معاشرے کی بہتری کے بخار میں مبتلا ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور کچھ اچھا کرنا چاہتے ہیں لیکن دونوں ہاتھ عجیب و غریب نظام نے جکڑ رکھے ہیں۔ یہ جواریوں کو پکڑتے ہیں تو وہ اگلے لمحےضمانت پر باہر ہوتے ہیں۔ کسی پر تشدد ہو تو یہ موقع پر پہنچتے ہیں لیکن وہاں کوئی شخص وقوعہ کی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ خود سے ہر جرم کا پرچہ تک کاٹنے کے مجاز نہیں تاوقتیکہ ڈی ایس پی سے ایس پی تک طے نہ کرلیں کہ واقعی پرچہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں فرمانے لگے کہ آج کل سیاسی لیڈر بھی وہی اچھا شمار ہوتا ہے جو بےشک لوگوں کی بھلائی کے کام نہ کرے لیکن طاقت میں ہونے کے باوجود ان پر ظلم نہ کرے۔ مجھے ان کی گفتگو سے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک صاحب نے عدالت میں 12سال کی طویل جنگ کے بعد کیس جیت لیا اور باعزت بری قرار پائے۔ باہر نکلتے ہوئے کسی نے سوال کیا کہ آپ کیس جیت کر کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ اُنہوں نے طویل سانس لی اور کہنے لگے ’کاش میں نے پولیس والوں کی بات مان لی ہوتی۔ اُنہوں نے پہلے دن ہی کہا تھا پانچ ہزار دے دیں، میں معاملہ یہیں ختم کردیتا ہوں۔ ایس ایچ او صاحب پولیس کلچر کو بدلنا چاہتے ہیں۔ کتابیں پڑھنے والے بندے ہیں اور بچپن کے ایک دلچسپ واقعے کی وجہ سے محکمہ پولیس میں آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میٹرک کے دنوں میں وہ اپنے ایک کزن کے ساتھ موٹر سائیکل کو پنکچر لگوانے پیدل جارہے تھے۔ اُن دِنوں ڈبل سواری پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ راستے میں پولیس والوں نے ناکے پر اُنہیں روک لیا اور ڈبل سواری کا الزام لگایا۔ یہ دونوں بھونچکے رہ گئے اور بتایا کہ ہم تو پیدل آرہے ہیں۔ پولیس والے نے جواب میں کمال کا جملہ کہا ’کہیں نہ کہیں تو تم نے ڈبل سواری لازمی کی ہوگی‘۔ اور تھانے لے گیا۔ اِن دونوں کی جیب میں ڈیڑھ سوروپے تھے جسے دے کر بمشکل جان چھڑائی لیکن یہ اطلاع گھر والوں کو مل گئی اور پوری بات جاننے کے باوجود گھر والے معترض رہے کہ ایک شریف گھرانے کے بچے آخر کیوں تھانے میں پائے گئے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ آج ایک شریف گھرانے کا بچہ روز تھانے آتا ہے لیکن اب وہ مجرموں کا تعاقب کرتا ہے، مظلوموں کی داد رسی کرتا ہے اور دن رات کڑھتا ہے کہ وہ بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن ہر راستہ کسی نہ کسی بند گلی میں جا نکلتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply