• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بے وطن لوگ،برما کے روہنگیا مسلمانوں کی داستانِ الم۔۔۔ زاہد احمد ڈار

بے وطن لوگ،برما کے روہنگیا مسلمانوں کی داستانِ الم۔۔۔ زاہد احمد ڈار

جیسا کہ آپ سبھی لوگوں کو معلوم ہے کہ آجکل میانمار کے بارے میں بہت ساری باتیں ہورہی ہیں کیونکہ میانمار میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے وہاں کی سرِ زمین تنگ کی جارہی ہے ۔ تو اسی سلسلے میں شاید میرے اِس مضمون سے آپ کو میانمار کی اصل اور صحیح صورتحال کا بخوبی اندازہ ہوسکے گا ۔

پندرہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل روہنگیا کے مسلمانوں کو اگر آج دُنیا کی سب سے مظلوم اقلیت کے طور پر دیکھا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ دُنیا کے بیشتر ممالک کو یہ معلوم ہی نہیں کہ برما کے مسلمان کون ہیں اور اُنھیں کیوں ظُلم و بر بریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ برما کی حکومت روہنگیا  کے مسلمانوں کو اپنے ملک کے شہری تسلیم کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کرتی ہے کہ اُن لوگوں کے آبا و اجداد برطانوی دورِ حکومت سے پہلے یہاں آباد نہیں تھے ۔ جبکہ روہنگیا کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اُن کے آبا و اجداد یہاں صدیوں سے آباد ہیں ۔ پچاس ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل روہنگیا نسل کے مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ اراکان  ، برما   اور بنگلہ دیش  کی سرحدوں پر واقع ہے۔

آٹھویں صدی عیسوئی میں خلیفئہ ہارون رشید کے دور میں کچھ مسلمان تاجر خلیج بنگال کے کنارے اِس علاقے میں پہنچے تو اُنھوں نے تجارت کے ساتھ ساتھ یہاں دینِ حق کا پیغام بھی پھیلانا شروع کیا اور اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثر ہوکر وہاں کی کثیر آبادی نے اسلام قبول کر لیا-1430عیسوئی میں اراکان کے بادشاہ نے بھی اسلام قبول کر لیا اور سلطان سلیمان شاہ نے یہاں ایک اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی – اس ملک پر ساڑھے تین صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی ۔ یہاں بےشمار مساجد ، مدارس ، اور جامعات قائم کی گئیں ۔ اراکان  کی کرنسی کو لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کے مقدس الفاظ  سے سجایا گیا تھا ۔

انیسویں صدی عیسوئی تک روہنگیا کے مسلمان سکون سے زندگی گزارتے رہے لیکن جب  1826 عیسوئی میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس خطے پر اپنا قبضہ جمایا  تو انھوں نےDivide and Rule Policy  کے تحت مقامی راخینے  نسل کے  بدھوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا –  1937 عیسوی میں برما نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرلی ۔  28 مارچ 1942عیسوئی   کو یہاں پہلا فساد رونما ہوا اور مسلمانوں کے قتلِ عام کا آغاز کر دیا گیا ۔ چالیس دن کے اندر تقریبًا ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور نہتے مسلمان بنگال میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے –  1947 عیسوئی میں جب برطانیہ بر صغیر سے رخصت ہوا تو برمی مسلمانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا اور اِس سال پھر مسلم کش فسادات دہرائے گئے -1949عیسوئی   سے اب تک مسلمانوں کے خلاف چودہ  فوجی آپریشن ہوچکے ہیں جن میں مارچ 1978 عیسوئی   کا آپریشن سب سے بد ترین تھا ۔ اِس آپریشن میں مسلمانوں کی درجنوں بستیاں جلا کر خاکستر کر دی گئیں ، تقریبًا  بیس ہزار مسلمانوں کو  بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا ، لاتعداد مسلمانوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ، مساجد اور مدارس کو تباہ کر دیا گیا ، اور مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآنِ مجید کی بے حرمتی کی گئی ۔ اس آپریشن کے نتیجے میں تین لاکھ  روہنگیا کے مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔

ہزاروں برمی مسلمانوں نے پاکستان ، ملائیشیا اور سعودی عرب میں پناہ لی ۔ جبکہ مسلمانوں کے خالی کردہ علاقوں پر راخینے بدھ  قابض ہوتے چلے گئے ، مسلمان علاقے کا نام بھی اراکان  سے بدل کر راخین کر دیا گیا ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ یہاں لوڈ اسپیکر  سے اذان ممنوع قرار دے دی گئی ہے ، مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے زبردستی روکا جارہا ہے ، قربانی پر پابندی لگا دی گئی ہے ، مسلمان سرکاری اجازت کے بغیر نہ شادی کر سکتے ہیں اور نہ بچے پیدا کرسکتے ہیں ، اور اُنھیں ایک شہر سے دوسرے شہر تک جانے کے لئے بھی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

1982 عیسوئی میں برمی حکومت نے ایک نیا قانون پاس کیا جسکے تحت روہنگیا کے مسلمانوں کو برمی شہریت (Citizenship)   سے بھی محروم کر دیا گیا ۔ برمی حکومت چاہتی ہے کہ اراکان ARAKANاپنے علاقے کو چھوڑ کر بنگلہ دیش کی سرِ زمین کو اپنالے جبکہ بنگلہ دیش اُنھیں اپنی زمین پر برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ۔ یوں یہ مظلوم مسلمان برمی اور بنگلہ دیشی حکومتوں کے درمیان مجبور و مقہور ہیں ۔ برما میں ہونے والے حالیہ مسلم کش فسادات جون 2012عیسوئی  میں شروع ہوئے جن کے نتیجے میں مزید تیس ہزار  مسلمان اپنے علاقے سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوکر سرحدی دریا عبور کرکے  بنگلہ دیش کی طرف آنے لگے ۔ پہلی چند کشتیوں میں سوار افراد کو تو بنگلہ دیشی کنارے پر اُترنے دیا گیا لیکن جب ان کی تعداد بڑھنے لگی تو بنگلہ دیشی حکام اُنھیں واپس بھیجنے لگے اور یہ واپس بھیجنا اُنھیں موت کے مُنہ میں دھکیل دینے کے مترادف تھا ۔ حالیہ فسادات میں اب تک ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے ، اسّی ہزار مسلمان بے گھر ہوکر سڑکوں پر اپنی جان بچاتے بچاتے بھٹک رہے ہیں یا رنگون RANGOON  کے نواح میں کیمپوں میں بے یار و مدد گار پڑے ہیں جبکہ بنگلہ دیش  میں بھی پہلے سے آئے ہوئے اور تازہ مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں مخدوش کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔

آج برمی مسلمانوں کی مجموعی پندرہ لاکھ آبادی میں سے تین لاکھ  بنگلہ دیش میں ، دو لاکھ پاکستان میں ، اور چوبیس ہزار ملائیشیا میں آباد ہیں ۔ برما کے صدر تھین سین THEIN SEIN نے اقوام متحدہ سے کہا کہ برما میں موجود دس لاکھ مسلمانوں کو دوسرے ملکوں میں بسایا جائے جبکہ دوسرا کوئی ملک اُنھیں اپنانے کے لئے تیار ہی نہیں ۔ پاکستان میں برمی مسلمانوں کی نسل کشی کی اطلاعات آئیں تو جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی جماعت کو اس پر احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی ۔ پاکستانی باخبر میڈیا بھی اسطرح خاموش رہا جیسے اُسے اِس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ، معمولی معمولی باتوں پر بریکنگ نیوز BREAKING NEWS دینے والوں کو نہ جانے کیوں برمی مسلمانوں کی حالت زار پر کوئی نیوز بریک کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی ۔ کوئی بھی عالمی ادارہ اس پر خبر تک دینے کو تیار نہ تھا ۔ مگر اسلامی دنیا میں مسلمانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس قتلِ عام کی تصاویر کو پھیلانا شروع کردیا ۔

اسلامی دنیا میں مسلم عوام کے احتجاج کے بعد کچھ مسلم حکومتوں نے بھی اپنی تشویش ظاہر کی ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ترکی نے اپنا قدم آگے بڑھایا اور ترکی کی خاتونِ اوّل محترمہ امینہ اُردگان نے سب سے پہلے برما کا دورہ کرکے مظلوم مسلمانوں کی خبر گیری اور امداد کی ۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کا کہنا ہے کہ برما کی حکومت امدادی کارکنوں اور صحافیوں کو متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے اور اس لئے انسانی حقوق کی اِن خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا بے حد مشکل ہے ۔ اِن حالات میں الخدمت فائونڈیشن پاکستان نے اپنی ایک امدادی ٹیم کو بنگلہ دیش بھیجنے کا فیصلہ کیا جو رضاکاروں اور ڈاکٹروں پر مشتمل تھی ۔ اس ٹیم کی تشکیل اور انتظامات میں جہاں الخدمت فائونڈیشن کو پاکستانی عوام کی طرف سے بھر پور تعاون حاصل تھا ، وہیں اِکنا ریلیفICNA RELIEF  امریکہ  اور کینیڈا کے ساتھ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسیشن PIMA  بھی پوری طرح شامل تھے ۔ اِس امدادی ٹیم کا مقصد جہاں بنگلہ دیش میں موجود لاکھوں روہنگیا کے مسلمانوں کی حالتِ زار کا جائزہ لینا تھا ، وہیں اُنکی داد رسی اور امداد کرنا بھی تھا ۔ الخدمت فائونڈیشن نے بنگلہ دیش کے ایسے علاقوں میں امدادی سرگرمیاں منعقد کیں جہاں برمی مسلمان پناہ گزینوں کی آبادیاں اور کیمپ موجود ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

برما کے مظلوم ، بے گھر اور مستحق مسلمانوں میں اشیاء خورد و نوش اور دیگر ضروریاتِ زندگی تقسیم کی گئیں ۔ امدادی تقسیم کے ساتھ ساتھ میڈیکل کیمپ بھی منعقد کئے گئے ۔ الخدمت فائونڈیشن کی ٹیم نے بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے کا بھی دورہ کیا جہاں برما کی وہ سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں جہاں سے مظلوم برمی مسلمان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے ۔ برمی مسلمانوں کے زیادہ تر کیمپ بھی اسی علاقے میں موجود ہیں ۔ الخدمت فائونڈیشن کا مقصد ہے کہ نہ صرف ان مظلوم مسلمانوں کی امداد کا سلسلہ جاری رہے بلکہ عالمی طاقتیں اس انسانی المیہ کا حل نکالنے کی بھر پور کوشش کریں ۔ جب انڈونیشیا میں ایسٹ تیمور EAST TIMOR  کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے،سوڈان میں دارفور DARFUR REGION کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے تو برما میں اراکان ARAKAN کا مسئلہ کیوں حل نہیں ہو سکتا ؟ کیا صرف اس لئے کہ یہ مظلوم مسلمان ہیں ؟ ۔

 

Facebook Comments

ڈاکٹر زاہد احمد ڈار
سرینگر، جموں و کشمیر، انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply