بارش برس رہی تھی اور کمرے کے وسط میں جلنے والی لالٹین کی مدھم روشنی میں بچوں کے چہرے نہایت خوفناک نظر آرہے تھے۔میرے سمیت وہ سب کمبلوں میں دبکے ہوئے تھے اور ہمہ تن گوش ہوکر میری کہانی سن رہے تھے۔میں چونکہ ناولوں،کہانیوں کا رسیا تھا اس لئے بچپن ہی میں کہانی کا فسوں بکھیرنے میں ید طولیٰ رکھتا تھا۔
ڈھولکی کی آواز بند ہوگئی تھی،شاید بڑی بوڑھیاں اور نوخیز،چنچل لڑکیاں بھی تھک ہار کر سونے کی تیاری کر رہی تھیں،یا شاید بستروں میں ایک دوسرے سے لپٹ کر راز و نیاز سنا رہی تھیں۔دور کسی کمرے سے کوئی مترنم قہقہہ سنائی دیتا۔۔مست اور شوخ قہقہہ،ایک ایسا قہقہہ جس میں پالینے کا عزم ہوتا،حاصل کی امید ہوتی اور لاحاصل کے اندیشے سے غفلت ہوتی۔
تاریک کمرے میں میری آواز گونج رہی تھی اور تیز ہوائیں وقفے وقفے سے لالٹین کو ا ور ہمیں اپنا لمس محسوس کروا کر چلی جاتیں۔
“شہزادی نے شہزادے کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔وہ ڈوب رہا تھا۔۔۔اور شہزادی کو پکار رہا تھا“
کہانی اُداس مرحلے میں داخل ہوگئی تھی۔سب بچوں کے چہروں پر غم کی پرچھائیں تھیں۔میں نے اس کی طرف دیکھا۔اس کا گلابی چہرہ بھی زرد پڑ گیا تھا۔وہ اپنی نازک انگلی کے گرد اپنے ریشمی بالوں کی ایک لٹ یوں لپیٹ رہی تھی جیسے کوئی ناگن شکار کے گرد شکنجہ کس رہی ہو۔اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے تھے۔
“شہزادہ بولا۔”یاد رکھنا تم مجھے کبھی نہیں بھول پاؤگی۔تمہیں ہمیشہ اپنا یہ جرم یاد رہے گا۔تمہیں یاد رہے گا کہ تم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔“ یہ کہہ کر شہزادہ ڈبکیاں کھانے لگا اور شہزادی اسے پانی کی تیز لہروں کی زد میں دور جاتا دیکھتی رہی۔“
سارے بچے تھوک نگلتے رہ گئے تھے۔لالٹین کی زرد روشنی میں، مَیں ان کی پھٹی آنکھیں واضح دیکھ سکتا تھا۔ناگاہ تیز ہوا کا ایک جھونکا آیا اور کوئی نمی سے میرے چہرے سے ٹکرائی۔شاید یہ اس کی گہری آنکھوں کی نمی تھی، یا شاید یہ آسمان کی نمی تھی۔ہاں تب میں نے سوچا تھا کہ اس میں اور آسمان میں کیا فرق ہے؟ دونوں ہی بہت بلند اور پہنچ سے دور ہیں۔
بارش برستی رہی۔چھت پر ٹپ ٹپ کی مدھر موسیقی فضا میں بکھرتی رہی اور گھور تاریکی نے لالٹین کی روشنی اس کی ذات تک محدود کردی۔
صبح میری آنکھ پرندوں کے چہچہانے سے کھلی یا شاید ڈھولکی کی آواز سے۔ڈھولکی کی آواز میں بلا کا درد تھا۔۔میں مسکرا دیا، کوئی دل جلی زخمی انگلیوں سے ڈھولکی بجا رہی تھی۔خود کو مزید زخمی کر رہی تھی۔
مجھے اپنے ہاتھوں پر کوئی نرم سا بوجھ محسوس ہوا۔سب بچے سو رہے تھے۔وہ بھی سوئی ہوئی تھی۔مدہوش،غافل اور دنیا و مافیہا سے بے خبر۔اس کا ایک ہاتھ بالوں کی اس لٹ پر تھا جس کے ساتھ وہ کل رات کھیلتی رہی تھی اور اس کا دوسرا ہاتھ میرے ہاتھ پر تھا۔
میں ایک طویل سانس لیکر رہ گیا۔طلسمی کہانی اس پر اثر کر گئی تھی۔وہ نیند میں بھی میرا ہاتھ چھوڑ نہ پائی تھی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں