شہریت ترمیمی قانون کے حوالے سے ہماری تحریکِ مزاحمت اب ایک صبر آزما مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ موجودہ تحریک جو بظاہر ایک ردّعمل اور اضطراب کے طور پر سامنے آئی ہے، دراصل برسہا برس کی گھٹن اور ظلم و ناانصافی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مظلوم و مقہور قوم کی وہ صدائے احتجاج ہے، جسے دنیا کی کوئی قوت تاریخ کے کسی مرحلے میں تہہ تیغ کیے دینے کایارا نہیں رکھتی۔ اس تحریک کے محرکین بظاہر ناتجربہ کار طلبہ و طالبات ہیں، لیکن یہی اس تحریک کی قوت بھی ہے۔ نوجوان چونکہ تجربات کی بیڑیوں سے آزاد ہوتے ہیں، اس لئے وہ پکی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں نئی راہیں نکالنے کا خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی پیمبرانہ دعوت بھی بنیادی طور پر ایک یوتھ موومنٹ تھی، جس میں ابتدائی ۳۹ لوگوں کی فہرست میں اغلب تعداد بیس سے کم ،یا بیس سے کچھ زیادہ عمر کے نوجوانوں کی تھی۔ جب تک اسلام کی تحریک پر نئے دل و دماغ کا غلبہ رہا اور بزرگوں نے اپنے بالغ نظر نوجوانوں کی پشت پناہی کو ہی اپنا اعزاز سمجھا، پیمبرانہ مشن کے قافلے کی ترو تازگی باقی رہی۔ البتہ جب قیادت کے تنظیمی ڈھانچے پر اسّی نوے سالہ بزرگوں کی موجودگی کو لازم سمجھ لیا گیا اور ذہنی و جسمانی معذوری تقدس کا حوالہ بن گئی، ہمارے ادارے اور تنظیمیں دیو ہیکل زنگ آلود مشینوں میں تبدیل ہوگئے۔
1۔ ہمیں اس حقیقت کے اظہار میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے کہ ہمارے نوجوان بچے بچیاں جنھوں نے موجودہ تحریک کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کو ایک نئی زندگی بخشی ہے، اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ باخبر، حوصلہ مند اورپُر اعتماد ہیں۔ ان کا عمل اور ان کی گفتگو اپنے تمام تر طالب علمانہ نقائص کے باوجود ایک مجتہدانہ شان لئے ہوئے ہے۔
ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بابری مسجد پرغیرمنصفانہ فیصلے کے بعد جب امت کے اکثر بڑے بوڑھے نظامِ وقت کو کورنش بجا لانے میں ہی عافیت جانتے تھے اور جب ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس امت پر نئی صبح کے سارے امکانات بند ہوچکے ہیں، مایوسی کی اس گھڑی میں انہی نوجوانوں نے ایک ایسی مضطربانہ صدائے احتجاج بلند کی جس کی صدائے بازگشت تمام اطراف و اکناف میں سنی گئی۔ دیکھتے دیکھتے ہندو سمراٹ کا عالمی پروپیگنڈہ اور مودی حکومت کی ہمالیائی تصویر کچھ اس طرح زمیں بوس ہوئی کہ عالمی پریس میں حکومت کے لئے اپنی مسلم مخالف پالیسیوں کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا۔ جامعہ ہو یا علی گڑھ، ندوہ ہو یا دیوبند یا دوسرے تعلیمی ادارے جہاں ہمارے نوجوان بچے بچیوں نے بزرگوں کی مصالحانہ روش کو خیرباد کہتے ہوئے ایک نئے طرز عمل کی بنیاد رکھی ، ان کے اِس اقدامی عمل سے معمول کے تعلیمی ماحول میں جو بھی انتشار پیدا ہوا ہو، اُس کے لئے اُن کو موردِ الزام ٹھہرانے یا ان پر تادیبی کارروائی کرنے کی بجائےدراصل انہیں انعام و اکرام سے سرفراز کرنا چاہیے۔ یہ وہ مضطرب اور سعید روحیں ہیں جن کی اگر ہم نے خاطرخواہ حوصلہ افزائی نہ کی اور اُن کی پشت پر کھڑے نہ ہوئے تو ہم سنگین جرم کے مرتکب ہوں گے۔
2۔ صدر اول کی اسلامی روایت کے برعکس، مدت سے دین اور شریعت کے نام پر، ہم نے اپنی خواتین کو گھروں میں محبوس کررکھا تھا۔ حالانکہ اس عمل کے لئے نہ تو شرع سے کوئی دلیل لائی جاسکتی تھی اور نہ ہی عقل سے۔موجودہ تحریک میں طالبات کے قائدانہ رول نے فرسودہ مولویانہ بحثوں کا کچھ اس طرح قلع قمع کردیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے مختلف گوشوں میں نہ صرف یہ کہ شاہین باغ وجود میں آنے لگے، بلکہ سکہ بند علماء کو بھی انقلابی بچیوں کے ساتھ شوق سے تصویریں کھنچواتے دیکھا گیا۔ اسلام کی ابتدائی تحریک بھی (والمؤمنین والمؤمنات بعضھم اولیأ بعض) کی عملی تصویر تھی جہاں خیر کے کام میں مرد و زن دونوں ہی حسب توفیق اپنا حصہ ڈالتے۔ الحمدللہ کہ ہماری بہنوں نے نقطۂ انجماد کی ٹھنڈک میں بھی جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اور جس شان سے ملک کے مختلف شہروں میں کھلے آسمان کے نیچے خطرات کا مقابلہ کرتی رہی ہیں اُس سے اس بات کا اندازہ توہو ہی گیا ہے کہ اس گئی گزری حالت میں بھی ہماری شیرازہ بندی کیا گل کھلا سکتی ہے۔
3۔ تحریک مزاحمت میں شامل نوجوانوں کے مابین اب یہ بات مناقشہ کا موضوع بن گئی ہے، آیا اس عوامی تحریک کا قالب بین مذہبی ہو یا خالص ملی۔نوجوانوں کا ایک حلقہ خالص ملی شناخت کے ساتھ اس لڑائی کو لڑنا چاہتا ہے، جبکہ ایک دوسرا حلقہ عوامی اور مشترکہ ، بلکہ بین مذہبی قالب اختیار کرنے کا پُرزور وکیل ہے۔ ہمارے خیال میں یہ دونوں نقاط نظر عقیدے کے بجائے اسٹریٹجی سے متعلق ہیں، اس لئے اس بارے میں کسی بھی گروہ کو مطعون نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ بحثیں ہیں جو آنے والے دنوں میں خود ہی اپنا راستہ بنالیں گی۔ جو طلبہ و طالبات اس لڑائی میں اپنی شناخت کو مقدم رکھنا چاہتے ہیں وہ ماضی کے تجربات سے کبیدہ خاطر ہیں، ان کے دلائل کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے تمام نوجوان ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، انھیں ہمیں سنبھالنا ہے، ان کی پشت پناہی کرنی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تحریک سے نوجوانوں کی ایک ایسی قیادت وجود میں آئے جو بلا خوف لومۃ لائم حق کو حق کہنے کا حوصلہ رکھتی ہو اور جو اس کلمہ حق کو پیمبرانہ لب و لہجہ میں عوامی نعرہ بنادینے کے فن سے بھی خوب واقف ہو۔ پیمبر کسی قوم کی سطوت کی لڑائی نہیں لڑتا بلکہ اس کی آواز میں وہ وسعت ہوتی ہے کہ اقوامِ عالم کے صالح قلوب اس کی طرف از خود کھنچے چلے آتے ہیں۔ شرجیل جیسے نوجوان منحرفین میں سے نہیں بلکہ مضطربین میں سے ہیں، جو اس ملک میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے استحصال سے سخت نالاں ہیں اور ہر قیمت پر ایک مخلص مسلم قیادت کا احیاء چاہتے ہیں۔ بقول جسٹس کاٹجو، شرجیل مجرم نہیں بلکہ انھوں نے محض اظہارِ رائے کی آزادی کا حق استعمال کیا ہے۔ البتہ روایتی مسلم قیادت کو نئے راستے کے متلاشی پسند نہیں آسکتے۔
4۔ ملک بھر میں پھیلے مختلف شاہین باغوں کی شکل میں قدرت نے ہمیں ایسی تجربہ گاہیں عطا کی ہیں جہاں ہم اپنی اصل پیمبرانہ تصویر ملک اور بیرون ملک میں مسلسل نشر کرسکتے ہیں۔ نفرت کے اس ماحول میں جہاں ہندوتو کے علمبرداروں نے ہماری شبیہ خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، ہمارے لئے شاہین باغ کے پبلک پلیٹ فارم نے ایک نادر موقع فراہم کردیا ہے۔ اگر ہم اہل وطن کو یہ یقین دلاسکے کہ عدل و قسط کے قیام کو ہم اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور یہ وہ کلمہ سواء ہے جس کی بنیاد پر دوسری اقوام کے ساتھ ایک مشترکہ محاذ کا قیام عین ہماری دینی ذمہ داری ہے تو اس ملک میں بڑی آسانی سے ایک مقبول عام تحریک کے خد و خال تیار ہوسکتے ہیں۔
5۔ آزادی کے بعد پہلی بار ہماری تحریک مزاحمت میں غیرمسلم اقوام کے قافلے تائید و تحسین کے جذبہ کے ساتھ از خود چل کر آرہے ہیں۔ یہ ایک نادر موقع ہے، کاش کہ ہم انھیں بتاسکیں کہ اہل مذاہب کے دوسرے گروہوں سے ہمارا ایک دینی رشتہ ہے۔ عیسائیوں کا اہل کتاب ہونا تو ہر خاص و عام پر واضح ہے، سکھوں کے واہِ گرو کا خالصہ یا گایری منترا میں اوم کی عظمت و جلالت کا بیان ایسی باتیں ہیں جو ہمیں ان اقوام کے ساتھ ایک رشتۂ ایمان میں پروتی ہیں۔ ہندوستان کے سناتن دھرم ہندو ہمارے ساتھ شبہ اہل کتاب کی حیثیت سے ایک رشتۂ اخوت میں منسلک ہیں۔ اس بحث کو آگے بڑھانے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
6۔ اہل وطن کو اس بات پر سخت حیرت ہے کہ ہندوستانی مسلمان اچانک دستور ہند کے تحفظ کے لئے اس شدت کے ساتھ سڑکوں پر کیونکر آگئے۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا دستور کی حفاظت کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر ہی ہے۔ ہمارے خیال میں دستور کی بنیادی روح جس کا اظہار اس کے ابتدائیہ میں ہوا ہے، یعنی انصاف، حریت، مساوات اور اخوت، ان ارکانِ اربعہ کا ہمارے قرآنی پیغام سے گہرا تعلق ہے۔ یہ باتیں دراصل امریکی اعلان آزادی سے اثر پذیری کا نتیجہ ہیں جس کی بنا میں مغربی فلسفی جان لاک اور خود جیفرسن کا مطالعہ قرآن اور شاطبی کے اصول خمسہ کارفرما ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر شخص کو مساوات، حریت فکری اور انصاف کی ضمانت مل سکے اورجہاں رنگ و نسل سے بے نیاز اخوت کی تشکیل ممکن ہو ایک ایسے خواب کو ہم اپنے پیمبرانہ مشن کا جزو لازم سمجھتے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں