تانیہ خاصخیلی سے نائلہ رند تک۔۔۔نعیم الدین جمالی

بغیر کسی تمہید کے میں سب سے پہلے آپ سے تانیہ خاصخیلی کے بہیمانہ قتل کا تفصیلی واقعہ ذکر کروں گا.واقعہ کچھ یوں ہے تانیہ ایک غریب گھرانے کی لڑکی اور میٹرک کی طالبہ تھی. تانیہ سیہون کے علاقے جھانگارا سے تعلق رکھتی تھی، جوکہ مراد علی شاد کا علاقہ ہے۔گاؤں کے وڈیرے اور ان کے بیٹے غریب خاندانوں کی معصوم اور عفیفائوں کی عزتوں سے جو کھلواڑ کرتے ہیں اور اس کو اپنا حق سمجھتے ہیں، یہ الف لیلہ کی طرح ایک لمبی داستان ہے ۔
اسی طریقے سے وڈیرے کے بیٹے خان نوحانی نے تانیہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہا، لیکن تانیہ نے مکمل انکار کردیا، تانیہ نے خوف کی وجہ سے اب اسکول جانا بھی ترک کردیا تھا، تانیہ اور اس کے والدین اب ہمیشہ خوفزدہ رہتے تھے کہ کب، کس وقت وڈیرے کے کارندے آئیں اور تانیہ کو اپنے ساتھ لے جائیں۔وڈیرے کے خلاف بھلا علاقے کا کون جرأت مند آدمی ہوسکتا ہے جو آواز حق بلند کرے۔
وڈیرا اس کو جعلی کیسوں میں پھنسوائے گا، اپنی نجی جیلوں میں ظلم وتشدد کا نشانہ بنائے گا، یا کسی ڈاکو، لٹیرے یا کرائے کے قاتل سے قتل کروادے گا۔پولیس کے ساتھ کسی ادارے کو جرأت نہ ہوگی کہ وہ وڈیرے کا بال بیکا کرسکے، کیوں کہ دنیا ، لوگ اور ادارے مفاد پرست ہیں، وڈیرا جو اپنے سارے لوگوں کے ووٹ دلاتا ہے!!!

تانیہ کے والدین بھی اسی خوف سے سہمے سہمے روز اپنی تانیہ کی عزت کی لیے رب سے بھیک مانگتے، ایک دن خان نوحانی تانیہ کے گھر میں مسلح داخل ہوا، تانیہ کو اپنے ساتھ چلنے کا کہا، تانیہ نے انکار کردیا، وڈیرے کے بیٹے نے غصے میں  لال پیلا ہوکر کہا،
“تانیہ تم کون ہوتی ہماری جاگیر میں مجھ سے انکار کرنے والی، تم، تمہارے والدین سب ہمارے غلام ہیں غلام، چلتی ہو یا نہیں؟ ”
تانیہ نے مکمل انکار کردیا، وڈیرے کے بیٹے نے اپنی رائفل لوڈ کرکے، تانیہ کے بوڑھے ماں باپ کے سامنے اس پر پورا برسٹ خالی کردیا، تانیہ خون میں لہو لہان ہوگئی۔
یہ صرف تانیہ قتل نہیں ہوئی، والدین کی خواہشیں درگور ہوگئیں ، یہ گولی تانیہ کے سینے میں نہیں، سندھ کے شعور میں لگی ہے۔
مزید تانیہ کے والدین کو دھمکی دے کر کہا، اگر تم نے کوئی جرأت کی تو تمہیں بھی مٹی کے حوالے کردوں گا۔
والدین آنسو بہاتے رہے، پولیس نے بھی کیس داخل نہیں کیا، یوں یہ تانیہ بھی کسی نائلہ رند کی طرح وڈیرا شاہی نظام کا کھاج بن گئی.سندھ یونیورسٹی میں قتل ہونے والی نائلہ رند کی قبر کی مٹی خشک ہوگئی، والدین کے آنسو سوکھ گئے، آنکھوں سے آنسو کے بجائے خون بہنے لگا یے، لیکن انہیں انصاف نہ مل سکا، تو تانیہ کو کہاں سے انصاف ملے گا؟
سنا ہے یہ علاقہ سید مراد علی شاہ کا ہے، شاید وہ ایکشن لیں، لیکن اب تک قاتل گرفتار نہیں ہوے اور والدین کو انصاف نہیں ملا.
پیارے قارئین!!

Advertisements
julia rana solicitors


یہ پہلی نائلہ یا پہلی تانیہ نہیں ہے، میرے دیس میں ہر روز کتنی نائلائیں اور کتنی تانیائیں قتل ہوتی ہیں، وڈیروں کی حرص وہوس کا نشانہ بنتی ہیں ، چاچا کے جرم میں معصوم کم سن بھتیجی کوبیاہ دیا جاتا ہے، کم عمری میں وٹہ سٹہ کرکے کتنی نائلاوں کی زندگی برباد کی جاتی ہے۔
غربت میں غریبوں پر قرض کے بدلے کتنے زمینداروں نے اپنے کسانوں کی بیٹیوں کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔
کاروکاری کرکے کتنی نہتی چنچل سی لڑکوں کو زندہ درگور کیا جاتا ہے۔
میں کس نائلہ کے نوحے پڑھوں!
میں کس تانیہ کے تذکرے کروں !
یہاں شعور غلام ہے، یہاں ادارے سیاست زدہ ہیں، یہاں عوام مجبور ہیں، غربت کے مارے ہوئے ہیں۔۔۔
عدالتوں میں یہاں روز انصاف بکتا ہے. وڈیروں کے من پسند فیصلے ہوتے ہیں۔۔۔
میں کہاں سے کتنی نائلاؤں کو انصاف دلاؤں، میں کس سے تانیائوں کے خون کا بدلہ مانگوں۔۔۔
میرا اندر ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرح کرچیان کرچیاں ہے ، اس فرسودہ نظام کے خلاف میرے اندر بغض کے لاوے ابل رہے ہیں، آتش فشاں پھٹ رہے ہیں، میری آنکھیں روز خون کے آنسو بہاتی ہیں، کیوں کہ میں حساس ہوں، حساس طبیعت ہونا میرے لیے عذاب ہوچکا ہے،میں روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں۔۔۔
اگر لوگوں کو انصاف نہ ملا تو دلوں  میں پنپنے والا بغض کا یہ آتش فشاں جس دن پھٹا اس دن پھر کوئی وڈیرا نہ بچ سکے گا۔۔۔
اداروں سے دردمندانہ گزاش ہے، خدارا!! ہوش کے ناخن لیں، لوگوں کو ظلم سے بچائیں، سندھ کی نائلاوں کی عزتوں کو محفوظ بنائیں۔۔

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply