فدک کا مقدمہ۔۔۔ (حصہ اول)محمد فاروق علوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم ، الحمد للہ رب العلمین ، والعاقبة للمتقین، والصلاة والسلام علی سیدالمرسلین سیدناومولانا محمد وعلی آلہ الطیبین الطّاھرین المُطھَّرین ، ومن تبعھم بایمان واحسان الی یوم الدّین۔ اما بعد

واقعہ فدک کاخلاصہ یہ ہے کہ فدک حجاز کا ایک قریہ ہے اور مدینہ کے قریب ہے ۔مدتوں وہاں یہودی آباد تھے اور وہاں کی زمین بڑی زرخیزتھی ۔وہاں یہود کھیتی باڑی کیا کرتے تھے ۔
۷ ھ میں اہل فدک نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رعب ودبدبہ سے مرعوب ہوکر فدک کی زمین ان کے حوالہ کردی تھی اور فدک خالص رسول خدا کی جاگیر تھی ۔کیوں کہ سورہ حشر میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ومآ آفاء اللہ علی رسولہ منھم فما او جفتم علیہ من خیل ولارکاب ولکنّ اللہ یسلّط رسلہ علی من یشاء ۔

ان میں سے اللہ جو رسول کو عطا کردے جس پر تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ۔لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہے مسلط کردے اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
پیغمبر اکرم نے سر زمین فدک میں اپنے ہاتھ سے گیارہ کھجوریں بھی کاشت فرمائی تھیں ۔چونکہ یہ زمین لڑائی کے بغیر حاصل ہوگئی تھی تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو یہ جاگیر عطافرمادی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھروں کا ، ازواج کا اور خاندان کا خرچہ اسی سے چلاتے تھے، اگر یہ امت کے بیت المال کی ملکیت ہوتا تو پیغمبر کااس پر حق نہ ہوتا ، أموال زکوة و صدقات کی طرح پیغمبراکرم اسے کبھی استعمال نہ کرتے، اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم مہمانوں اور دیگر ضرورت مندوں پر بھی اس زمین کی آمدن سے خرچ کرتے تھے، سخاوت آپ کی عادت شریفہ تھی، مکہ میں آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجة الکبری نہایت ہی مالدار خاتون تھیں ، ان کاسارا مال آخر کہاں گیا؟ کبھی اس پر کسی نے غور کیا ہے؟

یہ سارا مال انہوں نے رسول اکرم کے حوالے کیا اور آپ نے ضرورت مندوں پر اور کمزور مسلمانوں پر خرچ کرڈالا، خیبر کی یہ زمین تو آپ کی ملکیت تھی اس کی آمدن میں سے اگر آپ غریب مسلمانوں، مسافروں اور مہمانوں پر خرچ کرتے تھے تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ وہ زمین نبی اکرم کی ملکیت نہیں تھی، سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو پیغمبر اپنی امت کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھو کہ کہیں تم سارا مال ہی اللہ کے راستہ میں لُٹا دو اور تمہارے بعد تمہارے بچے دوسروں کے محتاج ہوجائیں، امت کو یہ وصیت کرنے والاپیغمبر اپنی بیٹی اور اپنے وارثوں کے لیے کیاچھوڑ کرگیا؟

اگر یہ روایت درست ہے کہ ہم جوکچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، تو پھر نبی اکرم نے سارا کچھ صدقہ کرکے اپنے وارثوں کے لیے کیاچھوڑا، اور انہیں کیونکر دوسروں کا محتاج اور دست نگر بناگئے، کہ ان کو کوئی دے گا تو کھاتے رہیں ورنہ بھوکے مرتے رہیں، ہم نہیں سمجھتے کہ جو پیغمبر وراثت کے معاملہ میں صحابہ کو یہ حکم دے رہاہو کہ اللہ کے راستہ میں بھی دو اور اپنے وارثوں کا بھی خیال رکھو کہ کہیں تمہارے بعد وہ دوسروں کے محتاج نہ ہوجائیں وہ نبی آخر خود ہی اپنی بات کے خلاف کرکے کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہمارا سب کچھ صدقہ ہے ، وارث جانیں اور ان کاکام جانے، ہم یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے جو تعلیم امت کودی اس پر خود بھی عمل کیا ، ایساکبھی نہیں ہوا کہ آپ دوسروں کوکچھ کہیں اور خود اس کے برعکس کریں، آپ کو جامال فئے اللہ نے خیبرمیں دیاتھا اس میں سے آپ اللہ کی راہ میں غریبوں، محتاجوں ، مسافروں اور مہمانوں کو بھی دیتے تھے اور اپنی ضروریات بھی اور خاندان کی ضروریات بھی اسی سے پوری کرتے تھے ۔ آپ کی وفات کے بعد یہ آپ کی وراثت تھی جو آپ کے ورثاء کا حق تھا لیکن جب حضور اکرم کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک کو سرکاری تحویل میں لے لیا ۔ فدک خاندان نبی کے تصرف میں تھا ۔ اس قبضہ اور تصرف کا ثبوت حضرت علی کے اس خط سے بھی ملتا ہے جو انہوں نے والی بصرہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو تحریر کیا تھا ۔اس خط کے ضمن میں آپ نے یہ الفاظ تحریر کیئے:
بلی قد کانت فی ایدینا فدک من کل ما اظلتہ السمآء فشحت بھا نفوس قوم وسخت عنھا نفوس آخرین ۔
اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کے ایک فدک ہمارے ہاتھوں تلے تھا ۔اس پر بھی لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پروانہ کی ۔اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے ۔

حضرت سیدہ فاطمہ زہرا ہی شرعی لحاظ سے اس جاگیر کی وارث تھیں ۔
خلیفہ کافرض تھا کہ وراثتِ رسول کو اصلی حالت پر رہنے دیتے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہ کرتے اور اگر بالفرض حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس پر کوئی قانونی اعتراض تھا تو بھی قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مقدمہ کے تصفیہ تک فدک کو حضرت سیدہ کے تصرف میں رہنے دیا جاتا ۔
پھر اس مقدمہ کا عجیب ترین پہلو یہ ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ موقف تھاکہ فدک کی جاگیر حضرت سیدہ کی نہیں ہے بلکہ عامۃ المسلمین کی ہے اور یہ قومی ملکیت ہے اسی لئے اس جاگیر پر انہوں نے بزور حکومت قبضہ کیا۔ حضرت سیدہ نے اپنا قبضہ واپس لینے کا مطالبہ حضرت ابو بکر سے کیا ۔تو اب صورت حال یہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمی مدعیہ تھیں اور اس مقدمہ میں حضرت ابوبکر مدعی علیہ تھے ۔

اس مقدمہ میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جو فریق مدعی علیہ تھا وہی منصف بھی تھا ۔ حالانکہ سیدھی سی بات تھی کہ مقدمہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف تھا یا کم ازکم عوام الناس کے خلاف تھا جن کے سربراہ حضرت ابو بکر تھے تو ان دونوں صورتوں میں مقدمہ حضرت ابو بکر کے ہی خلاف تھا اب انہیں قانونی سطح پر اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔اور نہ ہی انہیں اس مقدمہ میں منصفی کرنی چاہیے تھی ۔ انہیں یہ کیس کسی دوسرے قاضی کے پاس بھیجنا چاہیے تھا، دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جو فریق مدعی علیہ ہو وہی قاضی یا جج بھی ہو، نہ اس کیس سے پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ اس کیس کے بعد کبھی ایسا ہوا، سرزمین فدک کا کیس دنیا کا واحد مقدمہ ہے جس میں مدعی علیہ خود ہی جج ہے، اور یہ اصول انصف کے خلاف ہے۔

فدک مختلف ہاتھوں میں:
مقدمہ فدک کی تفصیل سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرات شیخین کے دور اقتدار میں فدک قومی ملکیت میں رہا۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان کے دور میں فدک کی پوری جاگیر مروان بن حکم کو عطا کی گئی – اگر بقول شیخین فدک کی جاگیر صدقہ اور سب مسلمانوں کی ملکیت تھی تو حضرت عثمان نے یہ ساری جاگیر مروان بن حکم کو کیوں دی ؟ خدا را یہ بتایا جائے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ وحضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل صحیح تھا یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا طرز عمل صحیح تھا ؟

ہمارے علمائے اہل سنت اس مقام پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے کردار کو مثالی بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان سے درخواست ہے کہ حضرت عثمان نے تو اس مسئلہ میں ان کے طرز عمل سے انحراف کیاتھا ۔اب ان دونوں خلفاء میں سے کون صحیح تھا اور کون غلط تھا ؟ اگر حضرت ابوبکر کا فیصلہ حق تھا تو حضرت عثمان کا فیصلہ باطل اور غصب تھا، یا آپ یہاں بھی یہی تاویل کریں گے کہ جس طرح امیر شام معاویہ بن ابی سفیان نے خلیفہ راشد کی بغاوت بھی کی اور امت کو قیامت تک کے لیے تقسیم بھی کرکے رکھ دیا لیکن بعد والوں نے ان کی اس بغاوت کو اجتہاد بناڈالا، کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت عثمان نے بھی اسی طرح کااجتہاد کیا ہواور جو وراثت وارثین رسول کو نہیں دی گئی وہ مروان کو دے دی؟ حالانکہ نص کے مقابلہ میں اجتہاد باطل ہے ، حضرت ابو بکر نے جو ؛لانورث ؛ والی روایت پیش کی اگر آپ کے نزدیک یہ نص ہے اور اس کی بنا پر ہی سیدہ فاطمہ کو محروم کیا گیا تو پھر اس نص کے مقابلہ میں حضرت عثمان اجتہاد کیسے کر سکتے تھے ؟ اور اگر حضرت عثمان کا فیصلہ درست ہے تو شیخین کا فیصلہ غلط ٹھیرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ نص بھی رد ہوجاتی ہے جس کی بنیاد پر رسول اللہ کی لختِ جگر کو ان کے باپ کی وراثت سے محروم کیاگیا، بہر کیف فیصلہ آپ پر ہے کہ دونوں میں سے کون غلط تھا اور کون صحیح ؟

فدک بنت رسول کو دینا تو درست نہ تھا لیکن مروان کے ہاتھوں میں چلا گیا تو اس وقت امت اسلامیہ کیوں خاموش ہوگئی ؟جب کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہہ چکے تھے کہ فدک کسی فرد واحد کی نہیں پوری امت اسلامیہ کی ملکیت ہے ؟

پھر جب معاویہ بن ابو سفیان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے فدک کی جاگیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا ۔ایک تہائی مروان بن حکم طرید رسول کے پاس رہنے دی ۔ایک تہائی حضرت عثمان کے فرزند عمروبن عثمان بن عفان کو عطا کی گئی ۔ایک تہائی اپنے بیٹے یزید بن معاویہ بن ابو سفیان کے حوالے کی گئی ۔
امیر شام جناب معاویہ کا یہ فیصلہ کس نص پر مبنی ہے اس کی وضاحت فرمادیں ؟
اور جب یزید کے بعد مروان کو حکومت ملی تو اس نے خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عمل کو حجت قراردیتے ہوئے اپنے دونوں شریکوں کو بے دخل کردیا اور خود سارے فدک پر قابض ہوگیا ۔ یہ کس حدیث یا آیت کی بنا پر تھا؟

بعد ازاں یہی فدک مروان کے بیٹے عبد العزیز کی ملکیت بنا اور جب عبدا لعزیز کا بیٹا حضرت عمر بن عبد العزیز بر سر اقتدار آیا تو انہوں نے فدک سےاپنے خاندان کو بے دخل کرکے اولاد فاطمہ کے حوالہ کردیا ، حضرت عمربن عبالعزیز کو ہمارے ہاں خلیفہ راشد تسلیم کیا جاتا ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جوکیا وہ رُشد تھا یا حضرت عمر بن عبد العزیز نے جوکیا وہ رُشد تھا یا جو حضرت عثمان نے کیا وہ رُشد تھا ؟ تینوں میں سے ایک کا فیصلہ ہی رُشد ہوسکتا ہے باقی دو کا خلافِ رُشد ہوگا اور وہ خلافت راشدہ کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہوگا ۔
پھر جب حضرت عمربن عبدالعزیز کی وفات ہوئی تو بنو امیہ میں سے یزید بر سر اقتدار آیا ۔اس نے اولاد فاطمہ سے
فد ک چھین کر اولاد مروان کے حوالے کردیا ۔بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ تک فدک اولاد مروان کے پاس رہا ۔
اور جب بنی امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور بنی عباس کا اقتدار شروع ہوا تو ابو العباس سفاح نے فدک اولاد فاطمہ کے حوالہ کیا ۔
منصور دوانیقی نے بنی فاطمہ سے چھین لیا ۔بعد از اں اس کے بیٹے مہدی نے فدک بنی فاطمہ کے حوالہ کیا ۔جسے ہادی اور رشید نے پھر واپس لے لیا ۔مامون الرشید عباسی نے فدک واپس کیا تھا جسے بعد میں معتصم نے واپس چھین لیا ۔ اس کے بعد کیا ہوا اس کے متعلق مورخین خاموش ہیں ۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ حکام کے ہاتھ میں فدک ایک ایسا کھلونا تھا ۔ جسے جب چاہتے وارثوں کو دے دیتے تھے اور جب چاہتے اپنے قبضہ میں لے لیا کرتے تھے ۔مامون الرشید عباسی نے فدک کی واپسی کے لئے جو تحریری احکام روانہ کیے تھے وہ انتہائی علمی قدروقیمت کے حامل ہیں ۔جس میں اس نے پوری تفصیل ووضاحت کے ساتھ وارثان فدک کی نشاندہی کی تھی ۔

مامون کی واپسی فدک:
مامون الرشید عباسی کے خط کو مورخ بلاذری نے نقل کیا ہے ۔
سن 210 ہجری میں مامون الرشید نے فدک کی واپسی کے احکام جاری کیے اور اس نے مدینہ کے عامل قثم بن جعفر کو خط تحریر کیا:
اما بعد ، فانّ امیرالمومنین بمکانۃ من دین اللہ وخلافۃ رسولہ والقرابۃ بہ اولی من ستنّ سنتہ ونفذ امرہ و سلّم لمن منحہ منحۃ وتصدّق علیہ بصدقۃ منحتہ و صدقتہ ۔وقد کان رسول اللہ اعطی فاطمۃ بنت رسول اللہ فدک وتصدّق بھا علیھا وکان امرا ظاھرا معروفا لا اختلاف فیہ فرای امیرالمومنین ان یردھا الی ورثتھا و یسلمھا الیھم تقرّبا الی اللہ باقامۃ حقہ وعدلہ والی رسول اللہ بتنقیذ امرہ وصدقتہ ۔۔۔۔الخ ۔
امیر المومنین کو اللہ کے دین میں جو مقام حاصل ہے اور انہیں رسالت مآب کی جانشینی اور جو قرابت حاصل ہے ، ان تمام چیزوں کا تقاضا یہ ہے کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوں اور نبی اکرم کے فرامین کو نفاذ میں لائیں اور رسول خدا نے جسے جو کچھ عطا کیا تھا اس عطا کو اس تک پہنچائیں ۔ جناب رسول خدا نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کو فدک عطا کیا تھا ۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ اسی لئے امیر االمومنین کی یہ رائے ہے کہ فدک اس کے وارثوں کو واپس کردیا جائے اور اس عمل کے ذریعہ سے امیر المومنین اللہ کی قربت کے خواہش مند ہیں اور عدل وانصاف کی وجہ سے رسول خدا کی سنت پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں ۔”

بعداز اں مامون الرشید نے اپنے ملازمین کو حکم دیا کہ سرکاری ریکارڈ میں اس بات کو لکھا جائے ۔رسول خدا کی وفات کے بعد سے ہمیشہ ایام حج میں یہ اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ رسول خدا نے جس کسی کو کوئی صدقہ یاجاگیر عطا کی ہو تو وہ آکر وصول کرے اس کی بات کو قبول کیا جائیگا ۔اس کے باوجود آخر رسول خدا کی بیٹی کو ان کے حق سے محروم رکھنے کا کیا جواز ہے ؟
مامون الرشید نے اپنے غلام خاص مبارک طبری کو خط لکھا کہ فدک کی مکمل جاگیر کو جملہ حدود کے ساتھ اولاد فاطمہ کو واپس کیاجائے اور اس کام کی تکمیل کے لئے محمد بن یحیی بن زیدبن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب اور محمد بن یحیی اور محمد بن عبد اللہ سے مدد حاصل کی جائے اور فدک کے لئے ایسے انتظامات کیے جائیں جس کی وجہ سے وہاں زیادہ پیدا وار ہوسکے ۔
درج بالا خط ذی الحجہ 210 ھ میں لکھا گیا ۔

اس قضیہ فدک میں یہ حیران کُن اور افسوسناک بات ہے کہ مروان بن حکم جوایک نہایت مالدار شخص تھا وہ اسے لے سکتا ہے، اور خود خلیفہ نے اس کو دیا۔ حضرت عثمان کا بیٹا جو کہ ایک غنی باپ کا بیٹاتھا وہ فدک لے سکتا ہے اور اس کے لیے جائز ہے ، خود حکمران وقت نے اسے دیا۔ اسی طرح ایک امیر کبیر باپ کا بیٹا یزید بن معاویہ اسے لے سکتا ہے جو خود امیر بھی تھا اور خاندان رسول سے اس کا کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔ یزید کے بعد دوبارہ مروان اسے حاصل کرتا ہے اور پھر اپنی أولاد کو منتقل کردیتا ہے، یہ سارا کچھ ہوتا رہا ، خلفاء خود یہ کام کرتے رہے ، ان سب کے لیے یہ جائز تھا لیکن ایک رسول کی بیٹی کے لیے ہی یہ ناجائز ہوگیاتھا ، کہاں گیا؛ حَسبنا کتاب اللہ ؛ ؟ کیونکہ کتاب اللہ میں تو کوئی آیت نہیں کہ رسول کی وراثت نہیں ہوتی، رسول کے ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ؛ حسبنا کتاب اللہ ؛ کے بجائے ایک ایسی روایت کاسہارا لیاگیا جو قرآن کے بھی خلاف ہے اور اصولِ درایت کے بھی خلاف ہے ، اور خبرواحد بھی ہے۔
فدک کے سلسلہ میں کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ رسول اکرم نے اپنی زندگی میں ہی یہ زمین اپنی بیٹی سیدہ
فاطمہ کو ہبہ کردی تھی ، ذیل میں ہم اسے اس انداز سے بھی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محاکمہ فدک: صبّت علیّ مصائب لوانھا ۔ صبّت علی الایام صرن لیالیا
مجھ پر اتنے مصائب آئے اگر وہ دنوں پر پڑتے تو وہ راتوں میں تبدیل ہوجاتے (ماخوذ از مرثیہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا )-

فدک اور ہبہ :
ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ فدک کی زمین رسول اکرم کی چھوڑی ہوئی وراثت تھی، قرآن نے وراثت کا قانون بیان کردیا ہے سورہ نساء میں ، یہ قانون پیغمبر اور امت سب کے لیے ہے، قانون وراثت میں نبی کا کوئی استثناء ثابت نہیں، اور خبر واحد کے ذریعہ قرآن میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی بلکہ کسی بھی قسم کی حدیث کا یہ پایا نہیں کہ وہ قرآن کے بیان کردہ کسی قانون کو بدل سکے ۔
تاہم ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ فدک کی زمین پیغمبر اکرم نے بیٹی کو ہبہ کردی تھی رسول خدا کی حیات مبارکہ میں جناب فاطمہ اس جاگیر پر تصرف مالکانہ رکھتی تھیں اورجب جناب رسول خدا کی وفات ہوئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ کے ملازمین کو فدک سے بے دخل کیااور اسے بحق سرکار قبضہ میں لیا سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اس واقعہ کی خبر ملی تو وہ اپنے حق کی بازیابی کے لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئیں اور اپنے حق کا مطالبہ کیا ۔
جس کے جواب میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث پیش کی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :- نحن معاشر الانبیاء لا نرث ولا نورث ما ترکناہ صدقۃ ۔ ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے ۔ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ۔

حدیث اور قرآن:
اس حدیث کے متعلق عرض ہے کہ اس حدیث کے واحد راوی حضرت ابو بکر ہیں اسی حدیث کی طرح حضرت ابو بکر سے ایک اور حدیث بھی مروی ہے ۔ کہ جس وقت رسول خدا کی وفات ہوئی اور مسلمانوں میں اختلاف ہوا کہ حضور اکرم کو کہاں دفن کیا جائے تو حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ جناب رسول خدا کا فرمان ہے :-
“ما قبض نبی الا ودفن حیث قبض ” جہاں کسی نبی کی وفات ہوئی وہ اسی جگہ ہی دفن ہوا ۔جب کہ طبری اور دیگر مؤرخین ہمیں بتاتے ہیں کہ بہت سے انبیاء کرام اپنی جائے وفات کے علاوہ دوسرے مقامات پر دفن ہوئے ہیں ۔ جلالین والے نے سورہ مؤمن میں لکھا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے وصیت کی تھی کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلیں تو میری میت کو بھی یہاں سے نکال کرلے جائیں، انہوں نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ موسی علیہ السلام ان کی میت یہاں سے نکال لے گئے تھے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قانون یہی ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے تو اس کی وہیں تدفین ہوتی ہے تو پھر ان دو جلیل القدر نبیوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کیسے کی ؟ ایک نبی اس قانون کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ میری میت یہاں سے نکال لے جانا۔ دوسرانبی جو رسول بھی ہے وہ عملا یہ کام کرتے ہیں کہ دفن شدہ نبی کی قبر کھولتے ہیں اور جو کچھ ملا اسے ساتھ لے جاتے ہیں، جوکچھ کا لفظ ہم نے اس لیے لکھا کہ صاحب جلالین فرماتے ہیں کہ وہاں سے صرف ہڈیاں نکلی تھیں، یہاں سے ایک اور روایت کی تردید ہوتی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ ؛ انّ اللہ حرّم علی الارضِ اّن تأکل أجساد الانبیاء ؛ کہ اللہ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے ۔ اب اگر یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں تو ایک دوسرے کے متضاد ہیں، یا دونوں ہی جھوٹی ہیں ، یاپھر ایک جھوٹی اور ایک صحیح ہے، اگر حضرت یوسف کے متعلق روایت صحیح ہے تو ؛ انّ اللہ حرم علی الأرض ؛ کے راوی نے جھوٹ بولا اور ایک من گھڑت روایت پیش کردی جس پر بہت سے لوگوں نے اپنے عقیدہ کی عمارتیں بھی تعمیر کررکھی ہیں، اور اگر یہ روایت صحیح ہے کہ انبیاء کے جسموں کوزمین نہیں کھاتی تو پھر مفسر جلال الدین نے جھوٹ بولا ہے کہ قرآن کی ایک آیت کی تفسیر میں ایک جھوٹی روایت پیش کردی ۔ بہر حال رویات کا گورکھ دھندا توایسا ہی ہے الایہ کہ کوئی روایت اصولوں کے مطابق درست ثابت ہوجائے جن میں سے پہلااصول کسی بھی روایت کو قرآن پرپیش کرنا ہے، محدثین کااتفاق ہے کہ اگر روایت قرآن کے خلاف ہوگی تواسے رد کردیاجائے گا، اس أصول پر ؛ لانورث ؛ ولی روایت جو حضرت ابوبکر نے پیش کی قرآن کے خلاف ہے ۔

یہ حدیث ما قبض نبی الا ودفن حیث قبض بھی واقعات اور حقائق کے خلاف ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سےانبیاء اپنی جائے وفات سے مختلف جگہوں پر دفن ہوئے تو اس صورت میں یہ حدیث کیسے صحیح ہو سکتی ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس حدیث: نحن معاشر الانبیاء لا نرث ولا نورث ما ترکناہ صدقۃ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔کیونکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اگر انبیاء کی میراث ان کی اولاد کو نہیں ملتی تھی تو حق تویہ بنتا تھا کہ رسول خدا خود اپنی بیٹی سے کہہ دیتے کہ میری میراث تمہیں نہیں ملے گی ۔حیرت ناک بات یہ ہے کہ جس شخصیت کو میراث ملنی تھی اسے نہیں کہا اور چپکے سے یہ بات ایک ایسے شخص کے کان میں کہہ دی گئی جو قانونا وارث نہیں تھا –
پھر یہ ؛ حدیث ؛ حضرت علی نے بھی نہیں سنی تھی کیوں کہ اگر انہوں نے سنی ہوتی تو اپنی زوجہ کو حق میراث کے مطالبہ کی کبھی اجازت نہ دیتے ۔
علاوہ ازایں اتنی اہم بات حضور اکرم نے صرف حضرت ابو بکر کو ہی کیوں بتائی دوسرے مسلمانوں کو اس سے بے خبر کیوں رکھا ؟
اس حدیث کو رسول اللہ کے چچا عباس بن عبد المطلب کو بھی کوئی خبر نہ تھی ورنہ وہ بھی وراثت کے مسئلہ میں سیدہ فاطمہ کے ساتھ مدعی بن کر کھڑے نہ ہوتے ۔
یہ “حدیث “قرآن کے منافی ہے:
مذکورہ حدیث کے متعلق حضرت فاطمہ کا موقف بڑا واضح اور ٹھوس تھا ۔ انہوں نے اس حدیث کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے ۔
1:- قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے : یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین ” اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے ۔بیٹے کو بیٹی کی بہ نسبت دوحصے ملیں گے ۔
اس آیت میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے ۔
2:-اللہ تعالی نے ہر شخص کی میراث کےمتعلق واضح ترین الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے : “ولکلّ جعلنا موالی ممّا ترک الوالدان و الاقربون” اور ہر کسی کے ہم نے وارث ٹھہرا دئیے اس مال میں جو ماں باپ اور قرابتدارچھوڑ جائیں ۔

ہماری گذارش ہے کہ لفظ “ولکلّ” پر اچھی طرح سے غور فرمائیں اس آیت کریمہ میں بڑی وضاحت سے ؛ہر کسی . کی میراث کا اعلان کیا گیا ۔ میراث سے تعلق رکھنے والی جملہ آیات کی تلاوت کریں آپ کو کسی بھی جگہ یہ نظر نہیں آئے گا کہ اللہ نے فرمایا ہو: کہ ہر کسی کے وارث ہوتے ہیں لیکن انبیاء کے نہیں ہوتے ۔میراث انبیاء کی اگر قرآن مجید میں کسی جگہ نفی وارد ہوئی ہے تو اس آیت کوبحوالہ سورت بیان کیا جائے اور قیامت تک تمام دنیا کو ہمارا یہ چیلنج ہے کہ اگر قرآن میں ایسی آیت ہے تو پیش کریں ۔
اس حدیث کے تین اجزاء ہیں :
1:-انبیاء خودکسی کے وارث نہیں ہوتے ۔
2:- انبیاء کی اولاد وغیرہ کوئی بھی وارث نہیں ہوتا ۔
3:- انبیاء کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ۔
قرآن مجید مذکورہ بالا تینوں اجزا کی نفی کرتا ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشادفرمایا: وورث سلیمان داؤد ۔ سلیمان علیہ السلام ، داؤد علیہ السلام کے وارث بنے ۔
اگر نبی کسی کا وارث نہیں ہوتا تو سلیمان علیہ السلام اپنے والد حضرت داؤد کے وارث کیوں بنے ؟ معلوم ہوا کہ اس حدیث کا پہلا جز صحیح نہیں ہے ۔
علاوہ ازیں مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ سلیمان داؤد کے وارث بنے ۔
اب جس کے سلیمان وارث بنے وہ بھی تو نبی تھے ۔ اگر اس حدیث کا دوسرا جز صحیح ہوتا یعنی نبی کا کوئی وارث نہیں ہوتا تو داؤد کی میراث کا اجراء کیوں ہوا ۔ اور ان کی میراث کو صدقہ کیوں نہ قراردیا گیا ۔

اس سے بعض لوگوں کا وراثتِ نبوت مراد لینا درست نہیں کیونکہ نبوت نہ تو وراثت میں ملتی ہے اور نہ ہی کسی کی ڈیمانڈ پر ملتی ہے، کیانبی کو یہی معلوم نہیں کہ نبوت وراثتی چیز نہیں ہے ؟ بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے نبی و رسول منتخب کرتا ہے ۔ بعض لوگ یہاں دورکی کوڑی لاتے ہیں کہ موسی علیہ السلام کے کہنے پر ان کے بھائی ہارون کو نبی بنادیاگیا، یہ بات دراصل علمی یا لفظی دھوکہ ہے کیونکہ موسی علیہ السلام نے نہ تو وارث مانگا اور نہ ہی اپنے بھائی کو نبی بنانے کی درخواست کی ، اس لیے کہ وہ خود رسول تھے اور وہ جانتے تھے کہ کسی کی درخواست پر نبوت نہیں ملتی، اللہ تعالی اپنی مرضی سے کسی فرد کو اس کام کے لیے منتخب کرتا ہے، اس لیے انہوں نے ایک مددگار کی درخواست کی اور یوں کہا:
اِجْعَلْ لِی وَزِیْرا مِنْ اَھْلِی (۲۹)۔اور میرے لیے میرے کُنبے میں سے ایک معاون(وزیر) بنادے ۔
ھِارُوْنَ اَخِیْ (۳۰ ) ۔ ہارون کو جو میرابھائی ہے۔
اشْدُدْ بِہٖ اَزْرِیْ (۳۱)۔ اس سے میری کمر مضبوط کردے ۔
وَاَشْرِکْہُ فِیْ امْرِیْ (۳۲)۔ اور اسےمیرے کام میں شریک کردے ۔
کَیْ نُسبِّحُکَ کَثِیْرا (۳۳) ۔ تاکہ ہم تیری ذات کی تسبیح ( پاکیزگی) بیان کریں ۔
وَ نَذْکُرَکَ کَثِیْرا ( ۳۴) ۔ اور تیرا بہت زیادہ ذکر کریں ۔
اِنَّکَ کُنْتَ بِنَا بَصِیْرا (۳۵) ۔ بے شک تو ہمیں اچھی طرح دیکھتا ہے ۔

ان آیات سے واضح ہے کہ موسی علیہ السلام نے اپنے کام میں معاون و مدگار مانگاتھا وارث نہیں، تو گویا یہ ایک آیت اس حدیث کے تینوں اجزا کو غلط ثابت کرتی ہے ۔
وراثت کسبی چیزوں میں ہوتی ہے وہبی چیزوں میں نہیں، نبوت وہبی ہوتی ہے کسبی نہیں ، دنیاکا مال و متاع کسبی ہوتا ہے وراثت بھی دنیا کی ان ہی چیزوں میں ہوتی ہے، علم و فضل بھی نبی کے لیے کسبی نہیں وہبی ہے، عام آدمی علم و فیض کو کسب کرتا ہے، محنت سے علم کو حاصل کرتا ہے جبکہ نبی دنیا میں کسی کاشاگرد نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی استاد اور پیرومرشد سے کسب فیض کے لیے جاتا ہے بلکہ اسے اللہ تعالی براہ راست خود ہی علم بھی اور فیض و فضل بھی عطاکرتا ہے ، تلک الرُّسُلُ فَضَّلنا بعضھم علی بعض ۔ لہذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ داؤد علیہ السلام کی وراثت نبوت و علم و فضل تھی جو سلیمان علیہ السلام کو اپنے والد سے ملی ، تووہ لوگ مجازی معنی اختیار کرکے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، داؤد علیہ السلام کی وراثت ان کا مال و متاع تھا جو ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو ملا، اس کے ساتھ داؤد علیہ السلام کی بادشاہت تھی جو بیٹے کو ملی ۔

موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خاندان میں سے کسی کو بھی اپنا معاون بنانے کی درخواست کی، پھراسی دوران اپنے بھائی کا خیال آیا تو ان کانام لیکر درخواست کردی کہ خاندان کے لوگوں میں سے بیٹا یا بھائی ہی زیادہ موزوں ہوتا ہے، بیٹاان کا تھا نہیں، سو بھائی کی درخواست کردی ، نبی علیہ السلام نے بھی اپنے بھائی کو ہی اپنا معاون بنایا ، سگا بھائی نہیں تھا تو چچازاد بھائی کو اپنانائب و معاون بنایا: اَنْتَ مِنِّیْ بمنزلة ھارون من موسیٰ اِلّااَنَّہ لَا نَبِیَّ بَعدِی ۔ اس حدیث سے دو باتیں بالکل واضح ہیں کہ جس طرح ھارون علیہ السلام کارِ نبوت میں موسی علیہ السلام کے معاون اور وزیرتھے اسی طرح علی بن ابی طالب بھی کار نبوت میں نبی اکرم کے معاون و وزیر ہیں، اگر موسی کے بعد ہارون زندہ ہوتے تو کوئی دوسرا صحابی جانشین نہیں بن سکتاتھا اسی طرح نبی اکرم نے اپنے چچازاد اور داماد کو جو بمنزلہ بیٹے کے ہوتا ہے اپنا معاون، جانشین اور وزیر قرار دیا ، تو نبی کے علم و فضل کے
علی بن ابی طالب سلام اللہ علیہ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا کیسے جانشین بن سکتا ہے، لہذا اگر یہاں وراثت کا معنی علم و فضل کیا جائے گا تو خلافت ابی بکر ناجائز ٹھیرتی ہے کیونکہ باب مدینة العلم تو علی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 7 تبصرے برائے تحریر ”فدک کا مقدمہ۔۔۔ (حصہ اول)محمد فاروق علوی

  1. ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ اپنے ہاتھ دکھائے اور فرمایا ابا جان چکی پیس پیس کر ہاتھوں میں گڑھے پڑ گئے ہیں ۔ مجھے پتا چلا ہے آپکے پاس کچھ غلام آئے ہیں ۔ ایک مجھے بھی دے دیں تاکہ میرا بوجھ کچھ کم ہو جائے ۔
    سوال یہ ہے کہ کیا رسول اللہ نے دیا ؟ جو چیز دوسروں کے لئے جائز تھی اپنے اور اپنے اولاد کے لیے جائز سمجھتی ؟
    دوسری بات مان بھی لیا جائے کہ انبیاء کا ترکہ ہوتا ہے تو ترکہ میں بیوی کا حق بیٹی سے زیادہ ہوتا ہے ۔ بیویوں میں سیدہ عائشہ بھی تھیں ۔ ان میں کسی نے یہ حق کیوں نہیں مانگا اور سیدنا ابوبکر صدیق نے بیٹی کا حق بھی ماردیا (معاذ اللہ)
    شیعہ فقہ میں ویسے بھی غیر منقولہ جائداد میں بیٹی کا حق نہیں ہوتی تو ایسے میں فدک کا مطالبہ کیے درست ہوا ؟
    اب آخر میں علوی صاحب سے گزارش ہے آپ نے سورۃ حشر کی آیت 8 لکھ دی ۔ مہربانی فرما کر آیت 9 اور 10 اس کا۔ترجمہ اور معروف تفسیر بھی لکھ دیں ۔ یا اس کا لنک میں دے دیتا ہوں
    https://m.facebook.com/story/graphql_permalink/?graphql_id=UzpfSTE4MzY4MTk0Mjk5MTYyMjg6Vks6MTg1MjQ3MDE5NTAxNzgxOA%3D%3D

  2. ایک بات اور جناب نے فدک کا معاملہ مختلف ادوار میں بتایا مگر یہ نہیں بتایا جب خلافت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آئی تو آپ نے فدک کا کیا کیا ؟
    آخر میں ایک گزارش ہے کہ فدک پر کئی کتابیں۔ موجود ہیں ۔ اگر آپ کے پاس قلم کی طاقت ہے تو اس کو امت کے ان مسائل کے لئے استعمال کریں جس سے امت کو کوئی فائدہ پہنچے ۔
    اس طرح کے موضوعات سے اختلاف اور انتشار کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

    1. حقیقت کو بیان کرنا آپ کے خیال میں باعث انتشار ھے ؟ اپنی بات کی معقولیت پہ غور کیجئے۔ تاریخ کو آپ کی یا کسی اور کی مرضی سے چھپانے سے چھاپنے سے سچ کو کچھ دیر تو پس پردہ رکھا جا سکتا ھے، ہمیشہ نہیں۔

  3. محترم علوی صاحب…مستند حوالہ جات کے بغیر آپ کی یہ ساری مشقت کار لا حاصل ہے،یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی محض الفاظ کے ھیر پھیر سے سفید روشن دن کو کالی سیاہ رات ثابت کرنے کی کوشش کرے

  4. مال غنیمت اور مال فے سے متعلق احکامات قرآن کرین میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ ان احکام کو جہاں تک خاکسار سمجھا ہے مال غنیمت اور مال فے میں فرق یہ بیان ہوا کہ مال غنیمت کے برعکس مال فے مجاہدین کے جنگ لڑنے کے نتیجے میں حاصل نہیں ہوا۔ لہذا اس میں مجاہدین کا حصہ نہیں ہے۔ جبکہ مال غنیمت پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں۔ پانچواں حصہ اللہ کے رسول کے تصرف کے لیے تھا جس کے مصارف بھی قران کریم میں درج ہیں۔ رسول اکرم ﷺ انہی کے مطابق اسے خرچ کیا کرتے تھی۔ جبکہ کل مال فے کے وہی مصارف بیان ہوئے ہیں جو مال غنیمت کے پانچویں حصے کے ہیں (جو کچھ بھی اللہ اِن بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے)
    تحریر سے یہ امرمترشح ہے کہ راقم نے یہ تحریر بغیر تفہیم و تحقیق کے ہی لکھ ماری ہے

Leave a Reply to Hammad Saeed Shamsi Cancel reply