کیا گدھے کا گوشت حرام ہے؟۔۔سلیم جاوید

پاکستان میں آندھی طوفان کا طرح ایک ایشو اٹھتا ہے، جذباتی قوم مرنے مارنے پر تل جاتی ہے اور پھر اسی تیزی سے وہ ایشو نسیاً  منسیا ہوجایا کرتا ہے-

اگرچہ لاہوریوں کی گدھا خوری، ایک قومی جگت بن چکی ہے مگر اس ہلڑبازی میں یہ بھی تسلیم کرلیا گیا کہ پاکستان سے ہرماہ گدھے کی ہزاروں کھالیں اونے پونے برآمد کردی جاتی ہیں-(چونکہ گدھا ذبح کرنا جرم ہے توچوری کا کپڑا ، ڈانگوں کے گز)-میڈیا سے ہی معلوم ہوا کہ خیبرپختونخوا  حکومت نے چائینہ حکومت کے ساتھ گدھے برآمد کرنے کا معاہدہ کیا ہے- یعنی یہ ایک سیریس معاشی مسئلہ ہے-

اگرچہ امریکہ جیسے ملک میں ایک قومی سیاسی پارٹی کا الیکشن سمبل ہے مگرہندوو پاک میں گدھا انتہائی  قابل نفرت جانورشمارہوتا ہے- ہمارے ہاں گدھا خوری تو دور کی بات، گدھا سواری  کو بھی ذلت آمیزجانا جاتا ہے(حالانکہ اسے سنت عمل بھی کہاجاتا ہے)- سوال یہ ہے کہ گدھے سے ہماری قومی نفرت، دینی بنیاد پر ہے یا ہندوستانی کلچر کی وجہ سے ہے؟-

دیکھیے، دیگر مسائل کی طرح خوراک کے معاملے میں بھی فقہاء کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے-مثلاً اہلسنت کے ہاں خرگوش حلال جانور ہے مگر اہل تشیع اسے بلّی ہی تصورکرتے ہیں- ساری عرب دنیا، شوق سے جھینگے کھاتی ہے مگر حنفی حضرات اسکا کھانا ناروا سمجھتے ہیں-لیکن “گوہ” کوکھانا تو سب کے نزدیک حلال ہے-

آپ نے گوہ دیکھا ہے؟ جسے عربی میں الضب اور انگریزی میں uromatyx کہتے ہیں؟ چھپکلی کی طرح کا ریپٹائل ہے، صحرا میں پایا جاتا ہے اور صحابہ سے اسکا کھانا ثابت ہے- کیا آج پاکستان کا کوئی  دیندار آدمی، تلی ہوئی  گوہ کو بطور سنت خوراک کھانا پسند کرے گا؟-نہیں ، کیونکہ ہماری ثقافت میں یہ اجنبی چیز ہے- چنانچہ گدھے کے بارے بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شرعی حلال و حرام کا مسئلہ ہے یا فقط ثقافتی مسئلہ ہے؟-

درایں حال، مناسب معلوم ہواکہ گدھے کے گوشت کی شرعی حیثیت سے پہلے، احباب کے سامنے اسلام کا فلسفہ خوارک پیش کردیا جائے تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو-

ایک بات یہ نوٹ کیجیے کہ حلال وحرام کا قطعی فیصلہ، قرآن سے کیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ خوارک کی چیزوں میں سے”مادی طور”پر قرآن صرف تین اشیاء کے حرام ہونے کا صراحت سے ذکر کرتا ہے-مردہ جانور، بہتا خون اور خنزیرکا”گوشت”-

اسلام میں غذا کا مقدمہ یہ ہے کہ اس میں اولیں ترجیح، انسان کی زندگی اور صحت کو حاصل ہے-پس ہر وہ چیزجو انسان کیلئے ہلاکت کا سبب بنے گی، وہ اسلام میں حرام ہوگی-انسان کا مادی وجود، دو چیزوں کا مجموعہ ہے-اعضاء اور اعصاب- چنانچہ ہر وہ چیز جو اسکے اعضاء یا اعصاب کیلئے تباہ کن ہو، وہ اپنی مضرت کے بقدر، حرام ہوگی-

برسبیل تذکرہ، انسان کا ایک روحانی وجود بھی ہوتا ہے اورخوراک کے لحاظ سے اسکی بھی صحت ومضرت کے اسباب ہوتے ہیں- ہم مگر حسی یا باطنی طور پر حرام ہونے والی اشیاء(حرام کمائی والی یا غیر خدا کے نام پہ مذبوح وغیرہ) کا اس مضمون میں اس لئے ذکر نہیں کریں گے کہ یہ ہرفرد کے اندر کا معاملہ ہے- بحیثیت ایک مسلم سیکولر کے،ہم صرف اسی پروسیجر پر بات کریں گے جو حکومتی نظام کے دائرے میں آسکتا ہے-

زہر، چونکہ ہر انسانی زندگی کیلئے مہلک ہے تواسلام میں یہ عمومی طورپر حرام ہے- کسی ایک شخص کو( کولیسٹرول، بلڈ پریش، شوگر یا کسی اور خاص مرض کی وجہ سے) ایک مستند ڈاکٹر ،بھنڈی کھانے سے منع کردیتا ہے(مثلاً) اور اسکے لئے اس کو مہلک بتاتا ہے تو اب یہ سبزی، باوجود حلال ہونے کے،خاص اس آدمی کیلئے حرام ہوجائے گی-ڈاکٹر کی نصیحت کے باوجود اگر اس آدمی نے جان بوجھ کر بھنڈی کھائی  اوراسکی وجہ سے مرگیا تویہ حرام موت مرا(اسکو خود کشی کہا جائے گا)-

یعنی اصل مسئلہ زہر یا سبزی کا نہیں، بلکہ انسانی زندگی وصحت کا ہے- (ابھی ہم ایمانی صحت کی بات نہیں کررہے)-پس اگر زہر کوکسی دوا میں ایک خاص مقدار میں استعمال کرنے سے کسی کی صحت کا فائدہ ہورہا ہو تو پھر یہاں زہراسکے لئے”حرام” نہیں رہے گا-

( مستندڈاکٹرکی ممانعت کے باوجود، اگرمریض قصدا” کھائے گا توخودکشی میں شمار ہو-چونکہ خودکشی والی موت ایک اسلامی ٹرم ہے توطبیب کی ممانعت کوحرام کہا گیا ورنہ حرام ، حلال بارے اصل اتھارٹی قرآن ہے)-

اس بنیادی اصول کے بعد، ہم خوراک میں حلال وحرام کی گریڈیشن کی طرف آتے ہیں-

کرہ ارض کے تین حصہ پر پانی ہے مگرزیادہ خوراک، بری حصہ سے حاصل کی جاتی ہے تو پہلے ہم خشکی پر پائی  جانے والی خوراک کا ذکر کرتے ہیں-اس خوراک کو تین انواع میں تقسیم کرتے ہیں جن میں دو حلال ہیں اور ایک حرام ہے-

خوارک کی پہلی قسم نباتات ہے-

اسلامی فلسفہ یہ ہے کہ آدمی،مٹی سے بنی ہوئی  مخلوق ہے( سیکولرز کے مطابق،یہ کرہ ارض کی ساری منرلز کا مجموعہ ہے)-چنانچہ مٹی سے نکلنے والی (اگنے والی) سب اشیاء اسکے لئے حلال ہیں تاوقتیکہ مستند اطباء کسی خوراک کو مضرصحت قراردے دیں- یعنی ہر قسم کی سبزی، پھل، گھاس، پھلیاں وغیرہ جو بھی مٹی سے نکلے وہ اسلام میں خوارک کیلئے اصلاً  حلال ہے-

انسانی خوراک کی دوسری قسم چرندے ہیں-

یعنی وہ جاندارمخلوق جوصرف نباتات کو ہی اپنی خوارک میں استعمال کرتی ہے توایسی مخلوق بھی حلال ہے-جیسا کہ بکری ، بھیڑ، دنبہ وغیرہ (بشرطیکہ مستند اطباء ان میں سے کسی کا گوشت مضرصحت قرار نہ دیں)-

واضح رہے کہ” مضرِ صحت” کے بھی درجات ہوتے ہیں- جان لیوا ہے تو حرام ہے اور اس سے کم ترہے تو اسے مکروہ وغیرہ کہا جاتا ہے-

زمینی خوراک کی تیسری قسم درندوں کا گوشت ہے-

یعنی وہ مخلوق جواوپر بیان کی گئی دوسری قسم والی مخلوقات کو کھا کرزندہ رہتی ہیں-(جیسے شیر، بھیڑیا وغیرہ ،جن کی خوارک چرندے ہوتے ہیں)-پس یہ جنس حرام ہے-

آسان زبان میں یوں کہیں کہ مٹی سے بنی ہوئی  پہلی چیز حلال، پھر اس پہلی چیز سے بنی ہوئی  دوسری چیز بھی حلال مگر پھر اس دوسری چیز سے بنی ہوئی  تیسری چیزحرام ہوگی-

ایک بات اور بھی نوٹ کیجیے-قرآن ،سارے جہان کے جانداروں کی لسٹ مہیا نہیں کرے گا-(قران میں بھینس کا ذکر نہیں ہے کیونکہ عرب لوگ، دریائی  علاقے کے اس جانور سے واقف نہیں تھے)-قرآن صرف اصول بیان کرتا ہے، آگے تشریح کرنا فقہاء کا کام ہے-بس یہ یاد رہے کہ جس چیز کو قطعی حرام قرار دینا ہو، اسکا واضح تذکرہ قرآن ضرور کرے گا- (جیسا کہ خنزیر کا نام لیا ہے)-جس چیز کے حرام ہونے کا واضح حکم قرآن میں نہ ہو تو زیادہ احتمال یہی ہے کہ وہ حلال ہوگی-

خنزیرایک ایسا چوپایہ ہے جو سبزی وغیرہ بھی کھاتا ہے اور گاہے درندہ بھی بن جاتا ہے- اسکے بارے میں ابہام تھا کہ آیا یہ کس کیٹگری میں آتا ہے؟-یعنی کیا اسکو سبزی خور جانوروں میں شمار کیا جائے یا گوشت خور میں؟-تو اسکا قرآن نے نام لےکر واضح کردیا کہ خنزیرحرام ہے-(ایسا کوئی  اور جانوراگر کسی خطے میں پایا جائے تو اسکو بھی درندوں کی کیٹگری میں شمار کیا جائے)-

برسبیل تذکرہ،قرآن نے بطورخاص” خنزیر” کا نام لیا ہے تواسکی مضرت کی کوئی  خاص طبی وجہ ضرور ہوگی جسے معلوم کرنا سپیشلسٹ حضرات کا کام ہے- قرآن البتہ ایک اشارہ دے دیتا ہے جسکو بنیاد بنا کرمیڈیکل ریسرچ کی جاسکتی ہے اور وہ اشارہ یہ ہے کہ قرآن نے خنزیر کا ذکر “بہتے خون” اور “مردہ جانور” کے ساتھ بریکٹ کرکے کیا ہے تو ان تینوں کی مشترکہ اصل ڈھونڈی جائے- قرآن مگر میڈیکل کی کتاب نہیں بلکہ ایمانیات کی کتاب ہے اور اس میں حلال وحرام کے احکام دیئے ہی ان لوگوں کو گئے ہیں جو غیب پہ ایمان لاکر، بلا دلیل سرتسلیم خم کرتے ہیں-

اس سے پہلے کہ ہم سمندری خوراک بارے گفتگو کریں، پہلے گدھے کی بات کو نمٹا لیتے ہیں-

دیکھئے، گھوڑا یا گدھا ایک درندہ نہیں ہوتا بلکہ چرندہ جانور ہے یعنی ویسا ہی گھاس خور جانور ہے جیسے گائے اوربکری(سوائے اسکے کہ اسکی کھال موٹی اور جسم مضبوط ہوتا ہے)-

قرآن کی ایک آیت میں گھوڑے ، خچر اور گدھے کا ذکریوں فرمایا کہ انکو تمہاری سواری کیلئے پیدا کیا گیا- اس آیت سے بعض علماء نے استنباط کیا کہ ان جانوروں کا مقصدِ تخلیق، سواری کرنا ہے نہ کہ خوراک کرنا کیونکہ اگر خوراک کا نفع اٹھانا ہوتا تو قرآن اسکا بھی ذکر کرتا- ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ ، فقط تفقہ ہے نہ کہ نص صریح-

قرآن کے علاوہ، محض روایات واحادیث کی بنا پر حلت وحرمت کا فیصلہ کرنا آسان کام نہیں ہے- اگر غزوہ خیبر میں گدھے ذبح کرنے سے منع کیا گیا تو ایک اورغزوہ میں اونٹ بھی ذبح کرنے سے روکا گیا-پس اسکی کئی  تشریحات ہوسکتی ہیں-

جانوروں کے حلال وحرام ہونے بارے بعض علامات زبان زدعام ہیں ایک گریڈیشن یہ منقول ہے کہ نوکیلے پنجے والے  حرام یا یہ کہ جن کے کان باہر ہیں وہ حرام وغیرہ وغیرہ- اسی طرح کی ایک گریڈیشن گدھے کیلئے ہے کہ یہ “جگالی نہیں کرتا، اس لئے حرام ہے”- معذرت سے عرض ہے کہ ایسی ساری تقسیم فقط انسانی سوچ ہے، جو کہ درست کاغلط ہوسکتی مگرحلت وحرمت کا مدارقرآن پرہے-

دراصل زمانہ رسالت میں، گدھا عرب معاشرے کی “ڈیلی ضروریات” اور “ڈور ٹوڈور” سپلائی  کا ذریعہ تھا –گدھا،گویا مریض کی ایمبولنس اور گلی محلے کیلئے ایک ٹیکسی تھا- لہذا وہ اسے کاٹ کھانا، زمانہ جاہلیت میں بھی افورڈ نہیں کرسکتے تھے-

اس لئے متقدمین میں کثیر تعداد علماء کی ایسی ہے جو جنگلی گدھے کو حلال اور پالتوگدھے کو حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ پالتو گدھے، باربرداری کے کام آتے ہیں اور انکو حلال قرار دینے سے انکی تعداد میں کمی ہوگی اوروہ اپنے اصلی وظیفہ، یعنی سواری کے استعمال کیلئے نہ رہیں گے-

علماء کی یہ دلیل اپنی جگہ مگرحیرت ہے کہ گدھے کے سوا کوئی  دوسرا جانور” ڈومیسائل” کی بنیاد پرحرام نہیں قرارپایا- مان لیا کہ شہری گدھا حرام ہے توکوئی  ہمیں بتائے کہ جنگلی گدھا کہاں پایا جاتا ہے؟- ایک عالم نے فرمایا کہ جنگلی گدھے سے زیبرا مراد ہے- حیرت ہوئی  کہ عرب میں زیبرے کہا سے آگئے؟- پاکستان جاکرعلماء سے تحقیق کی تومعلوم ہواکہ زیبرا مراد نہیں ، وہ الگ صنف ہے-

یہ درست ہے کہ گدھے کو حرام قرار دینا کسی نص صریح کی بنا پر نہیں مگر یہ بھی درست ہے کہ جمہور علماء اسکی تحریم کے قائل ہیں- تاہم،عجم میں گدھےکو جس نفرت کا سامنا ہے، وہ دینی وجہ سے زیادہ، رواج کی بدولت ہے-(اہل پاکستان کوشاید وہ حدیث سن کرخوشی نہ ہوجس میں بیان کیا گیا کہ عمرہ کے سفرمیں حضور نے گدھے کا گوشت تناول فرمایا تھا)-

خاکسار کا خیال ہے کہ آج کے بدلے ہوئے زمانے میں ، جب کہ گھوڑے، خچر اور گدھے کی بحیثیت سواری افادیت نہ رہی اور خوراک کی ضروریات بڑھ گئی ہیں، ایسے تمام مسائل پر، نئے سرے سے اجتہاد کی ضرورت ہے- ظاہر ہے ایسے اجتماعی معاشرتی فیصلے، نہ تو کسی کی فردی رائے پرکیے جاسکتے اور نہ ہی” فری لانسر مفیتان” کے حوالے کیے جاسکتے ہیں(ہم تو”لیز” چپس حلال و حرام ہونے پر بھی گروپ بندی دیکھ چکے ہیں)- ایسے مسائل کے حل کا بہترین فورم، اسلامی نظریاتی کونسل ہے-

اب لگے ہاتھوں، خشکی کے جانوروں میں سے خرگوش، گوہ، سانپ وغیرہ کی بات بھی کرلیتے ہیں-

اہل تشیع کے ہاں خرگوش حرام ہےکہ یہ بلی کی ایک قسم ہے- (جدیدتحقیق میں بلی کو الگ فیملی میں رکھا گیا ہے)- خیر، بلی کے برعکس، خرگوش صرف سبزی خور جانور ہے تو ہمارے بنیادی اصول کے مطابق اسے حلال شمار ہونا چاہیے- رپٹائلز میں سے “گوہ” اورایسے سانپ جو صرف مٹی کھاتے ہیں یا سبزہ، تو وہ بھی حلال ہونگے-( زندہ مرغی نگلنے والا سانپ حرام ہیں وعلی ھذالقیاس)-

حشرات الارض، پتنگے، کیڑے مکوڑے وغیرہ کو کھانا نہ تو انسانی طبع کو گوارا ہے اور نہ ہی ان میں گوشت پایا جاتا ہے- یہ گویا ” خس وخاشاک” یا” کاٹھ کباڑ” کے معنوں میں ہیں اور انکی حلت وحرمت، اطباء کی رائے پہ موقوف ہے- (ٹڈی میں تھوڑا گوشت ہوتا ہے اور یہ سبزی خورپتنگا ہے تو حلال ہے)-ان کیڑے مکوڑوں کوبطور خوراک استعمال کرنے والے جانور(جیسے مرغی) حلال ہیں (گویا انہوں نے کاٹھ کباڑ کھایا)- فقہاء البتہ تجویز کرتے ہیں کہ مرغی کو ذبح سے پہلے ایک دودن، الگ باندھ کررکھا جائے اور صرف گندم وغیرہ کھانے کو دی جائے-( اس سے بھی معلوم ہوا کہ اسلامی فلسفہ خوراک میں صحتِ انسانی ہی مقدم ہے)-

اب ہم سمندری خوراک کی طرف آتے ہیں-

آبی مخلوق ، بری مخلوق سے تعداد میں کہیں زیادہ ہے( آئے روزکی نئ دریافت بھی ہورہی ہے)-امام شافعی کے ہاں ہرقسم کی آبی مخلوق حلال ہے- امام ابوحنیفہ، چونکہ احکام کے الفاظ کو نہیں بلکہ انکی روح کو دیکھاکرتے ہیں پس انکے ہاں اولیت حیاتِ انسانی کو حاصل ہے-

آبی خوراک کی بھی سادہ گریڈیشن یوں ہے کہ جیسے مٹی سے نکلی پہلی خوراک( یعنی نباتات) اور اسکو کھانے سےبننے والی خوراک( یعنی چرند ،پرند) حلال ہے، اسی طرح ، پانی سے بنی پہلی مخلوق( یعنی مچھلی) اوراسکو کھانے سے بننے والی خوراک( یعنی مچھلی کھانے والی مچھلی) بھی حلال ہے- ( گھاس کی طرح، مچھلی کو بھی ذبح نہیں کیا جاتا بلکہ کاٹاجاتا ہے اور کچا کھایا جاسکتا ہے)-تاہم، ایسی آبی مخلوق جودوسرے جاندار پھاڑ کھاتی ہے، (مگرمچھ، آدم خورشارک وغیرہ) وہ حرام ہیں-اس سادہ فارمولا کے علاوہ ، ہر سمندری مخلوق اصلاً  حلال ہے تاوقتیکہ مستند اطباء اسے مضر قرار نہ دیں-

جھینگا( پران)، بھی مچھلی سے الگ ایک آبی مخلوق ہے مگریہ کس چیز پہ مشتمل ہے؟-گوشت تو اس میں نہیں ہوتا بلکہ جیلی قسم کا مبہم سٹف ہوتا ہے-پس اس ابہام کی بنا پر احناف نے مکروہ کہا ہے- خاکسار کو یقین ہے کہ امام ابوحنیفہ آج کے دور میں ہوتے تواس کے بارے غذائی  ماہرین کی رپورٹ کو بھی مدنظر رکھتے-

پرندوں میں بھی گوشت خور یا شکاری پرندے حرام ہیں-

ایک اور ضروری بات بھی نوٹ کرلیجئے-

جو جانور، اسلام میں حرام قرار دیئے گئے ہیں، انکا ہرعضو بھی حرام ہے مگرحلال جانور کا ہر عضو حلال نہیں ہوتا-مگراسے حرام بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ حلال وحرام کا اختیار قرآن کے پاس ہے-اس مخمصے کو حل کرنے کیلئے، فقہائے کرام نے ، روحِ شریعت کی بنا پر، حلال وحرام کے درمیان کچھ دیگر ٹرمز ایجاد کی ہیں- مثلاً “مکروہ تحریمی” ایسی کراہت آمیز چیز کو کہتے ہیں جو حرام ہونے کے قریب ہوجیسا کہ حلال مرغی کا زہریلا پِتّہ-“مکروہ تنزیہی” ایسی چیزکو کہا جاتا ہے جو مہلک تو نہیں ہوتی مگر انسانی طبیعت کو ناگوارگذرتی ہے جیسا کہ حلال بکری میں اوجھری ( کہ گوبر کا برتن ہے)-گردے کپورے، چونکہ پیشاب پراسس کرنے کے آلات ہیں پس مکروہ ہیں-(چنانچہ اسی اصول پرخنزیرکے سب اعضاء حرام ہونگے)-

حلال جانور کے خشک اعضاء( سینگ وکھال وبال وغیرہ)، نہ تو کھانے کی چیز ہیں اور نہ ان میں حلال وحرام کا مسئلہ ہے- اس پر بھی اطباء کی رائے درکار ہوگی-

واپس اپنے خاص موضوع یعنی گدھے صاحب کی طرف آتے ہیں- اوپر کی بحث سے آپ کو معلوم ہوگیاہوگا کہ گدھےکو حلال و حرام قرار دینا، ایک علمی متنازعہ فیہ مسئلہ ہے-جناب عمارخان ناصر نے تفیسر ماتریدی(تاویلات اہل السنہ) کے حوالے سے لکھا ہے:

“بو منصور ماتریدی ’’قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما’’ کے تحت لکھتے ہیں کہ حرمت کا اطلاق صرف ان چار چیزوں پر کرنا چاہیے جو قرآن میں مذکور ہیں۔ باقی محرمات کو (جو احادیث میں بیان ہوئی ہیں) مکروہ اور ممنوع کہنا چاہیے، لیکن حرام صرف اس چیز کو کہنا چاہیے جو ممانعت کے آخری درجے میں ہو”۔

مشہوردیوبندی عالم رشید احمد گنگوہی،جوکہ عام کوے کو حلال قراردیتے ہیں، اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں کہ جس جگہ کےمسلمان عام طور پرکوے کوحرام سمجھتے ہوں، وہاں کوے کو کھانا ثواب کا کام ہے- ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے گدھا حلال ہے چہ جائیکہ اسکا کھانا ثواب قرار دیں، البتہ یہ عرض کرتے ہیں کہ اگر اسلام میں گدھا حلال ہے توپھر گدھی کا دودھ بھی حلال ہے-موجودہ دور میں یہ ملکی معیشت کا مسئلہ بھی ہے- باردگر عرض ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کیلئے، ایسے معاشی مسائل بارے رولنگ دینا، بیوی پر تشدد کی حد مقرر کرنے سے زیادہ قابل ترجیح کام ہے اور اس بارے قوم کی راہنمائ کرنا انکا فرض ہے-

جو خدا کے خاص بندے ہیں، انکو قرآنی نصیحت یہ ہے کہ پاک غذا کھاؤ- پاک غذا وہ ہے جو روحانی، جسمانی اور اعصابی، تینوں قسم کے وجود انسانی کی نمو کا باعث ہو-

آخر میں اہل ذوق کیلئے ایک نکتہ عرض کرکے اجازت چاہوں گا-

Advertisements
julia rana solicitors london

خنزیر، عرب کا لوکل جانور نہیں تھا- قریش ، تجارتی اسفار کی بنا پراس جانور سے واقف ضرور تھے مگر یہ انکی بودوباش کا محور نہیں تھا-آج جس طرح، خنزیر کے گوشت اور چربی سے بنے پراڈکٹس (خوردنی تیل، میڈیسن اور کاسمیٹکس) کی جو عالمی انڈسٹری کھڑی ہوگئی ہے، زمانہ رسالت میں اسکا کوئی  تصور بھی نہیں تھا- پس قرآن نے جس شدو مد سے اس زمانے میں خنزیر کو حرام قرار دیا تھا، یہ قرآن کی عالمگیریت اور ابدیت کی دلیل ہے (کہ اس نے کل عالم کو اور آنے والے زمانے کو سامنے رکھ کراسے موضوع بنایا ہے) ورنہ عربوں کو اسکے خاص تذکرے کی حاجت نہیں تھی – قرآن میں خنزیر کا خصوصی تذکرہ ان لوگوں کے منہ بھی طمانچہ  ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن فقط عرب کلچر کا آئینہ ہے اور عربی نبی نے اسے “لوکلی” بنایا تھا-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”کیا گدھے کا گوشت حرام ہے؟۔۔سلیم جاوید

  1. صرف وہ چوپائے حلال ہیں جن کے کُھر کٹائو والے ہیں۔ جیسے بکری گائے بھینس وغیرہ کے
    ہوتے ہیں۔

Leave a Reply