شیریں فرہاد کی حاضری۔۔عابد میر

بیلہ سے کوئی تین چار کلو میٹر کے فاصلے پر مرکزی شاہراہ پر ہی جھاؤ کراس کے نام سے ایک ایف سی چوکی آتی ہے۔ یہاں سے مغرب کی جانب جھاؤ/آواران کی طرف جانے کی راہ نکلتی ہے۔ آپ یہاں سے چلنا شروع ہوں تو کوئی آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پہ آپ کے دائیں ہاتھ پہ ایک مقبرہ ملتا ہے، جس پہ دربار شریف شریں فرہاد‘‘ لکھا ہے۔ ظاہر ہے کوئی بہت ہی بدذوق ہو گا یا پھر حددرجہ لاعلم جو اس شاہراہ پہ پہلی بار سفر کر رہا ہو اور اس بورڈ کو دیکھ کر نہ رکے۔ ہم نے لازماً رکنا تھا، ہم رکے۔

یہ ایک چھوٹا سا مقبرہ ہے۔ عین سڑک کنارے۔ کوئی متولی نہیں، کوئی خلیفہ نہیں، کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں۔ پھر بھی سجا سنورا سا ہے۔ سادہ مگر مضبوط ستونوں سے بنا۔ چار چھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئیں تو چھوٹا سا ایک صحن ہے۔ کمرے کا دروازہ ہے۔ اس پہ چڑھی کنڈی سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہرحال یہاں کسی کا آنا جانا ہے۔

اندر داخل ہوں تو وہی ایک روایتی سی پیر نما قبر ہے۔ جس پہ کچھ چادریں پڑی ہیں۔ دائیں بائیں ایک خستہ حال پرانے پتھر کی سلیٹ کا کتبہ ہے جس پر شیریں فرہاد کے نام لکھے ہیں۔ ان کے وسط میں نبستاً نئے طرز کی سنگ مرمر سے بنی لوح ہے۔ جس پہ شاہ لطیف کا شیریں فرہاد سے متعلق بیت لکھا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ایک ہی قبر ہے۔ جس پہ شیریں فرہاد کا نام لکھا ہے۔ روایت ہے کہ شیریں اور فرہاد کو الگ الگ دفن کیا گیا مگر ان کی قبریں آپس میں جڑ گئیں۔ جس کے بعد اسی مرقد کو ان کا مشترکہ مزار بنا دیا گیا۔ پیار کرنے والوں کو جدا کرنے والے آج بھی اپنی روایت پہ قائم ہیں۔ پیار کرنے والے باہم یک جان ہونے کی اپنی روایت پہ قائم ہے۔ یہ مزار محض ایک مقبرہ نہیں، پیار کی ایک شاندار روایت کی علامت ہے۔ اور اس میں بلاشبہ دل والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں۔

مقبرے سے باہر اب ڈپٹی کمشنر آواران نے ریسٹ ایریا کے نام سے ایک چھپر بنا دیا ہے۔ یہ ریسٹ ایریا ہمیں لگ بھگ ہر پچاس کلو میٹر پر نظر آئے۔ اس بے آب و گیا علاقے میں مسافروں کے لیے یہ ایک چھپر نما سائبان کسی نعمت سے کم نہیں۔ ہم اس نیک کام کو سراہتے رہے، دعائیں دیتے رہے۔

یہاں اس سائبان کے نیچے آپ کچھ دیر سکون سے بیٹھ سکتے ہیں، تصویریں بنا سکتے ہیں، ساتھ رکھے مٹکے سے پانی پی سکتے ہیں۔ سو، ہم یہاں کچھ دیر بیٹھے، کچھ تصویریں لیں اور پیاس نہ ہونے کے باوجود بھی مٹکے سے دو گھونٹ پانی کے پیے۔ ہم آواران جاتے ہوئے بھی یہاں رکے اور واپس آتے ہوئے بھی، جب کہ رات ڈھل چکی تھی۔ اور چاند عشاق کے اس مرقد پہ روشنی بکھیر رہا تھا کہ جانے یہاں سے نور سمیٹ رہا تھا۔

شیریں فرہاد کی داستان سے آپ سب آگاہ ہوں گے۔ عموماً کتابوں میں اسے ایران کی رومانوی کہانی بتایا جاتا ہے۔ بلوچستان کے لوک ادب میں اس کا تذکرہ کم ہی ہے۔ سوائے گل خان نصیر کے شاید ہی کسی نے لکھا ہو۔ ہاں کچھ تذکرہ اپنے پناہ بلوچ نے بھی کیا ہے۔ مگر ایران کی لوک کہانی کے یہ کردار بلوچستان کے اس ویران اور بے آب و گیاہ کونے میں کیسے پہنچے، یہ بات عقل میں نہیں آتی۔

مگر ہم اپنے بزرگ کی اس بات پہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مائتھالوجی میں عقل اور دلیل مت ڈھونڈو، اس کا لطف لو۔ مائتھالوجی میں جو بھی اچھا ہے، وہ ہمارا ہے۔ شیریں فرہاد کے قصے میں وفا ہے، عہدِ وفا ہے، جنونِ وفا ہے۔ اور وفا انسانوں کی مشترکہ میراث ہے۔ وفا بلوچ کا ورثہ ہے۔ ہم وفا کے وارث ہیں، ہم ہر محکوم کی، ہر عاشق کی فریاد کے وارث ہیں، ہم شیریں فرہاد کے وارث ہیں۔

یہاں ہم نے دعا پڑھی۔۔۔ عاشقوں کو بھلا دعاؤں کی کیا ضرورت۔ درحقیقت ہم نے دعا مانگی۔۔۔ ہم نے ازل کے جیتے ہوئے ان عشاق کے دربار سے وطن کی خیر مانگی، لیلائے وطن کی خیر مانگی۔ ہم نے اپنے محبوب کا نام لے کر اس کی خیر مانگی اور بنا نام لیے سبھی محبوباؤں کی خیر مانگی۔ ہم نے دل کی خیر مانگی، ہم نے دل والوں کی خیر مانگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس لیے جب یہاں سے روانہ ہوئے تو ایک دوست اچانک کہا، ”ارے ہم وہاں کچھ مانگنا تو بھول ہی گئے۔“ تو ہم مسکرائے اور دل ہی دل میں کہا، ”مانگنا کوئی اعلانیہ تھوڑی ہوتا ہے گنوخ، عاشقوں کے دربار میں اونچی آواز میں نہیں مانگا جاتا، یہ تو دلوں کی مانگ ہوتی ہے، دل والے دل سے مانگتے ہیں، دل والے دل سے سنتے ہیں۔“

Facebook Comments

عابد میر
عابد میر بلوچستان سے محبت اور وفا کا نام ہے۔ آپ ایک ترقی پسند سائیٹ حال احوال کے ایڈیٹر ہیں جو بلوچ مسائل کی نشاندھی اور کلچر کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply