• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • روبینہ فیصل کاافسانوی مجموعہ ”گمشدہ سائے“۔۔انعام الحسن کشمیری

روبینہ فیصل کاافسانوی مجموعہ ”گمشدہ سائے“۔۔انعام الحسن کشمیری

افسانہ، ادب کی ایسی صنف ہے جس کی بے شمار جہتیں ہیں – افسانہ کہانی بھی ہے اور افسانہ برائے ادب بھی ہے- افسانے سے معاشرے کی اصلاح کا کام بھی لیاجاتاہے- افسانہ کا موضوع مذہب بھی ہے اور لادینیت بھی- افسانہ تجسس بھی ہے اور اس کی ایک جہت رومانویت بھی ہے- ہر تخلیق کار اپنے نظریہ، اپنی سوچ، اپنے مشاہدہ، اپنے تجربات،اپنے علم، احساس، اپنی معاشرتی قدروں، اپنے مسائل، اپنی داستان اور اپنی ان کہی ہوئی چیزوں کو اپنے ایک الگ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتاہے-

”گمشدہ سائے“ بھی روبینہ فیصل کی ایک ایسی ہی زبردست اور شاندار کاوش ہے- یہ کتاب جس قدر خوبصورت گیٹ اپ میں شائع کی گئی ہے اس کی چنداں ضرورت نہ تھی- افسانوں کا معیار اور ان کے موضوعات بذات خود اس قدر اہمیت اورتوجہ کے حامل ہیں کہ قاری جوں جوں ان کے مطالعہ کی گہرائی اور گیرائی میں اترتاہے، توں توں اس پر انکشاف ہونے لگتاہے کہ ایک خاتون —مشرقی معاشرے کی ایک خاتون اس قدر گہرا مشاہدہ بھی کرسکتی ہے۔۔وہ کسی چیز کے متعلق اپنا واضح نکتہ نظر بھی رکھ سکتی ہے – وہ اس چیز کے متعلق واضح اور نمایاں شعور و ادراک سے دوسروں کو آگاہی بھی فراہم کر سکتی ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنی اس سوچ، احساس، مشاہدہ پر مبنی اپنی تحریر کو بڑی خوبصورتی، بڑے رکھ رکھاؤ اور بڑی جرأت مندی کے ساتھ بیان کرنے کی صلاحیت بھی رکھ سکتی ہے- روبینہ فیصل میں جرأت مندی کا یہ پہلو اس لحاظ سے اور بھی زیادہ نمایاں ہے کہ وہ نہ صرف مردانہ وار معاشرے کی ان خرابیوں کا اپنے افسانوں میں بخوبی ذکر کرتی ہیں جن کے اظہار سے ہم مرد گھبراتے ہیں بلکہ وہ اپنے خاتون ہونے کے باوصف خواتین کی فطری کمزوریوں، خامیوں، ان کی ذہنیت، خواہ وہ بہت پست درجے کی منفی ہی کیوں نہ ہو، کھلم کھلا بیان کردینے سے بھی نہیں کتراتیں –

تخلیق کار خواہ کسی اعلیٰ درجے کا ہی کیوں نہ ہو، اس نے اپنے لیے کچھ حدود و قیود ضرورمتعین کررکھے ہوتے ہیں لیکن روبینہ فیصل کے لیے یہ پابندیاں شاید بھاری بوجھ ہیں جس سے وہ آزاد ہونا چاہتی ہیں بلکہ انہوں نے خود کو ان پابندیوں سے آزاد کرلیا ہے اور انہوں نے ہم مرد تخلیق کاروں پراپنی تحریروں کے ذریعے سے اپنی قبیل کی وہ ازلی و ابدی فطرت و نفسیات کے وہ راز منکشف کردیئے ہیں جو ہم زندگی کے آخری برسوں میں جان پاتے ہیں –

”گمشدہ سائے“ کی پہلی تحریر ”صلح نامہ“ درحقیقت ایک زبردست ادبی شہ پارہ ہے- ایک بہت مشکل بات کو ادبی نگینوں میں پروکر جو تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس سے معلوم ہوجاتاہے کہ اگلی تحریروں کا معیار اور مقام کیااور کیسا ہوگا-

میں نے روبینہ فیصل کی جس جرأت مندی کا ذکر کیا ہے وہ افسانہ ”پاک سرزمین“ اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے- یہاں بنیادی طور پر کئی چیزیں جمع ہو گئی ہیں – ایک جانب معاشرے کا ایک ایسا تاریک پہلو ہے جو اگرچہ ہر جگہ موجود ہے لیکن ہم اس کے متعلق اپنی رائے یا اپنے تبصرے کے اظہار کی طاقت نہیں رکھتے- ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے بگاڑ پیدا ہوگا اور صورت حال بہتر ہونے کے بجائے اور زیادہ وحشت ناک ہوجائے گی- یہ بگاڑ اور یہ وحشت ناکی صاحب تحریر یا صاحب رائے تک ہی محدود ہوتی ہے- آپ حضرات بخوبی سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں – ظاہر ہے جب آپ معاشرے کے حساس ترین معاملے کو زیربحث لاکر چھیڑنے کی کوشش کریں گے تو یہ شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوگا- پھر ”پاک سرزمین“ میں بڑی بے باکی کے ساتھ کرداروں کی اصلیت اور ان کی حقیقت دکھائی گئی ہے – اس افسانے میں ایک حساس اور مشکل موضوع کو چھیڑ کر پھر اس کو جس انداز اور جس انصاف پسندی کے ساتھ لپیٹنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ لائق صد تحسین ہے-

”سگریٹ چور“ میں روبینہ کا فن عروج پر دکھائی دیتاہے – یہاں یہ فن ایک معمولی سگریٹ کو نشتر بناکر سینے میں دھیرے دھیرے گھونپ دینے کی صلاحیت کا بھرپور احاطہ کرتاہے-

”ایک تھا شاعر ایک تھی اس کی بیوی“ میں اگر ”ایک تھا مرد“ تو بات پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ ہم مردوں کی مجموعی نفسیات کچھ اسی نوعیت کی ہے- یہ روبینہ کی بے باکی اور اس کی اخلاقی جرأت، اس کے سر پھرے ہونے اور سچائی کو پوری تفصیلات بمع جزویات کے بیان کرنے کی صلاحیت اور طاقت کازبردست نمونہ ہے- وہ خود خاتون ہوتے ہوئے دوسری خاتون کی نفسیات کو پوری گہرائی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ہم مردوں پر گہرا احسان کرچکی ہیں کہ انہوں نے بتا دیا ہے کہ اگرچہ سب شوہر ایک جیسا سوچتے، سمجھتے اور نظریہ رکھتے ہیں اور اسی طرح سب بیویاں بھی ایک جیسا لیکن ان نفسیات کو نفسیاتی وار سے ہی شکست دی جاسکتی ہے- ہماری بیگمات کو یہ افسانہ ضرور پڑھنا چاہیے اور اس میں روبینہ کے تجربے یا ان کے مشاہدے سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے – محض شوہرپر چیخنے، چلانے، لڑائی جھگڑا کرنے، میکے جانے یا آخری حد کے طور پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی دھمکی دینے کی کوئی ضرورت نہیں – بہترین نسخہ وہی ہے جو اِس افسانے میں شاعر کی بیوی نے استعمال کیا لیکن اس کے باوجود احتیاط پھر بھی لازم ہے- نسخہ استعمال کرنے کے بعد اگر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تو پھر کم ازکم روبینہ کو دوش مت دیجیے گا-

”مغرور“ افسانے میں روبینہ کا ادبی و فنی سفر معراج کو چھونے کی کوشش میں دکھائی دیتاہے- یہی وہ چیز ہے جو ہمیں افسانے کے موجدوں مغربی افسانہ نگاروں میں جابجا دکھائی دیتی ہے – ہمارے یہاں اردو ادب میں اس کی مثالیں اگرچہ موجود ہیں لیکن بہت کم – اگر کچھ چیزوں کو نظر انداز کردیاجائے تو پھر معلوم ہی نہیں پڑتا کہ یہ طبع آزمائی کسی مشرقی افسانہ نگار کی ہے کم ازکم ایک خاتون افسانہ نگار کی تو بالکل بھی نہیں – گو کہ ہر صاحب تحریر کا اپنا جداگانہ انداز ہوتاہے لیکن اگر روبینہ خود کو کچھ دیر کے لیے شیکسپیئر یا خلیل جبران کے قالب میں ڈھال کر اس افسانے کی نوک پلک سنوارنے اور اس میں موجود سنجیدگی کو اور زیادہ گہراکرنے کی کوشش کرے تو یقین جانیے میں اور آپ اِسے شیکسپیئر یا خلیل جبران کی تخلیق کے پائے کا افسانہ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں گے-
آخری بات اور وہ یہ کہ اتنے خوبصوت افسانے لکھنے اور ایسا زبردست افسانوی مجموعہ مرتب کرنے کے باوجود مصنفہ کے دل میں ایک انجانا سا خوف موجود ہے کہ شاید ان کی تخلیقات معیاری نہیں – یہی وجہ ہے کہ کتاب اس قدر خوبصورت گیٹ اپ میں شائع کی اور اس پر متعدد ادیبوں اور دانشوروں کی آراء حاصل کرکے شامل کی گئیں – کتاب میں کسی ادیب کا کوئی تبصرہ شامل نہ بھی ہوتا اور

Advertisements
julia rana solicitors

یہ معمولی شکل وصورت میں شائع کی جاتی تو بھی یہ وہی روبینہ فیصل ہوتیں اور ان کے یہی افسانے اسی معیار و مقام کے حامل ہوتے-
(بزم وارث شاہ پاکستان چیئرمین نذربھنڈر کے زیراہتمام اورجناب سرفراز سید کی زیرصدارت ”گمشدہ سائے“ کی تقریب رونمائی میں پڑھاگیا)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”روبینہ فیصل کاافسانوی مجموعہ ”گمشدہ سائے“۔۔انعام الحسن کشمیری

Leave a Reply