مصری کیسے لوگ ہیں۔۔جاوید چوہدری

قاہرہ طلسماتی شہر ہے‘ مصر کی آبادی دس کروڑ ہے‘ آبادی کا بیس فیصد یعنی دو کروڑ لوگ قاہرہ شہر میں رہتے ہیں‘ مصری خوش گمان لوگ ہیں‘ یہ مصر کو پورا جہاں اور قاہرہ کو دنیا کا سب سے بڑا شہر سمجھتے ہیں‘ شہر ماضی اور حال کا خوبصورت ملاپ ہے‘ اس کے ایک بازو پر ماضی کی شوکت رکھی ہے اور دوسرے پر دمکتا چمکتا حال اور آپ ان دونوں کے درمیان کھڑے ہو کر حیرت سے سوچتے ہیں ماضی کی حیرتوں کا تجزیہ کیاجائے یا حال کی چکا چوند پر توجہ دی جائے اور آپ کنفیوژ ہو جاتے ہیں۔

یہ شہر صرف شہر نہیں طلسم ہے‘ دریائے نیل پر کشتیاں چلتی ہیں اور قدیم قاہرہ میں تاریخ کی موجیں بے رحم وقت کے قلعے

سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ قاہرہ کا پہلا طلسم جامعہ الازہر ہے‘ یہ تاریخ اسلام کی دوسری قدیم ترین یونیورسٹی ہے‘ یہ فاطمی خلافت کے دور میں 972ء میں بنی‘ یونیورسٹی مسجد میں قائم کی گئی تھی‘ جامعہ الازہر اب شہر کے دوسرے حصوں میں منتقل ہو چکی ہے اور قدیم درس گاہ اب بطور مسجد استعمال ہوتی ہے‘ آپ مسجد کے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ کو ہال کے چاروں اطراف درمیانے سائز کے کمرے ملتے ہیں‘ یہ قدیم دور میں کلاس رومز اور ہاسٹل ہوتے تھے‘ تمام کمرے اسلامی ریاست کے مختلف ممالک کے نام منسوب تھے‘ کسی پر شام لکھا ہے‘ کسی پر المغرب (مراکش) اور کسی پر ہندوستان۔ یہ نشان ظاہر کرتے ہیں کمروں میں ان ان ممالک کے طالب علم قیام کیا کرتے تھے‘ مسجد کے اندر درجنوں ستون ہیں‘ صبح کی نما زکے بعد ہر ستون کے ساتھ ایک استاد بیٹھ جاتا تھا‘ طالب علم اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور استاد انہیں چشمہ علم سے سیراب کرتا جاتا تھا۔ اس دور میں ڈگری نہیں ہوتی تھی‘ استاد جب طالب علم کے علم سے مطمئن ہو جاتا تھا تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے سر ٹیفکیٹ لکھ کر دے دیتا تھا اور یہ اس طالب علم کی ڈگری ہوتی تھی۔فاطمیوں کے دور میں اساتذہ کی تنخواہیں بادشاہ دیتا تھا‘ یونیورسٹی کے باقی اخراجات بھی حکومت اٹھاتی تھی لہٰذا طالب علموں سے فیس نہیں لی جاتی تھی‘ طالب علموں کا قیام اور طعام بھی مفت تھا۔

یہ روایت آج تک قائم ہے‘ جامعہ الازہر (جدید) میں دنیا بھر کے 70ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں‘ حکومت ان سے فیس نہیں لیتی‘ مصری طالب علموں کا قیام‘ طعام‘ کتابیں اور ریسرچ بھی فری ہوتی ہے جب کہ باقی ممالک کے سٹوڈنٹس کو وظائف کی شکل میں یہ تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور یہ اس لحاظ سے منفرد یونیورسٹی ہے۔ مسجد الازہر میں تعلیم کی روایت بھی آج تک قائم ہے‘ جامعہ کے اساتذہ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر مسجد آ جاتے ہیں۔

ہال کے چاروں اطراف قدیم کمروں (حجروں) میں بیٹھ جاتے ہیں اور وہ تمام لوگ جو کسی مجبوری‘ مصروفیت یا بڑھاپے کی وجہ سے یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتے وہ ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور استاد انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کرتے رہتے ہیں‘ ہم شام کے وقت مسجد الازہرپہنچے‘ اس وقت بھی کمروں میں لیکچر جاری تھے اور مختلف عمروں کے مرد اور خواتین پروفیسروں کے دائیں بائیں بیٹھ کر لیکچر سن رہے تھے‘ نوجوان لڑکے لڑکیاں لیکچر ریکارڈ بھی کر رہی تھیں۔

یہ لیکچر بھی فری ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ بھی قریباً ہزار سال سے جاری ہے‘ یہ ایک انتہائی شان دار روایت ہے۔ اگر ہماری حکومت یا پروفیسر حضرات اس روایت کو پاکستان میں کاپی کر لیں تو اس سے ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔ ہمارے پروفیسر حضرات شام کو مساجد میں بیٹھ جایا کریں اور لیکچرز کے ذریعے ان لوگوں کو تعلیم دیا کریں جو حالات کے جبر کی وجہ سے کالج اور یونیورسٹی تک نہیں پہنچ پاتے تو اس سے علم کا انقلاب بھی آ جائے گا اور ہماری سوچ میں بھی وسعت آئے گی۔

مذہب مصریوں کے جینز کا حصہ ہے‘ یہ پیدائشی مذہبی ہوتے ہیں شاید یہی وجہ ہے فرعون ہوں‘ رومنز ہوں‘ یونانی ہوں یا پھر مسلمان ہوں‘ مصر میں ہر دور میں سیکڑوں ہزاروں عبادت گاہیں‘ ٹمپل اور مساجد بنیں‘ یونانیوں‘ رومیوں اور فرعونوں نے صحرا میں دور دور ٹمپل بنائے تھے اور لاکھوں لوگ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے عبادت کے لیے وہاں جاتے تھے۔ ظہور اسلام اور قبول اسلام کے بعد یہ روایت آگے چلتی رہی‘ آج پورے مصر میں لاکھوں مساجد ہیں‘ مصری قرآن مجید سے خصوصی محبت کرتے ہیں۔

یہ قرات کے بادشاہ ہیں‘ آپ کو پورے ملک میں ہر جگہ قرآن مجید کی تلاوت سنائی دیتی ہے۔ مصری کہتے ہیں قرآن مجید اترا حجاز میں تھا لیکن یہ پڑھا مصر میں گیا‘ یہ لوگ لباس‘ حلئے اور حرکات میں لبرل ہیں‘ نوجوان لڑکیاں پتلونیں اور شرٹس پہنتی ہیں اور یورپی عورتوں کی طرح ”کھلی ڈھلی“ ہو کر چلتی ہیں‘ یہ موٹی ہڈی کی انتہائی خوبصورت عورتیں ہوتی ہیں‘ ان کی آنکھوں میں فرعونی سحر‘ گردنوں میں رومی دور کا نخرہ اور ہاتھوں اور پاؤں میں یونانی عہد کا حسن ہے لیکن اس کے باوجود قریباً ہر لڑکی کے بیگ میں قرآن مجید کا پاکٹ سائز نسخہ ہوتا ہے۔

ان کے موبائل میں بھی تلاوت کی ریکارڈنگ ہوتی ہے اور انہیں جہاں وقت ملتا ہے‘ یہ قرآن کی تلاوت شروع کر دیتے (دیتی) ہیں یا پھر ہینڈز فری کے ذریعے تلاوت سننے لگتے (لگتی) ہیں‘ یہ ایک دوسرے کو دیر تک دعائیں بھی دیتے ہیں‘ آپ انہیں سلام کریں یہ کھڑے ہو کر آپ اور آپ کے خاندان کو دعائیں دیتے رہیں گے‘ ان کی دعائیں بھی انتہائی حسین اور فرحت بخش ہوتی ہیں‘ آپ کی ذات کی اندرونی دیواریں تک ان دعاؤں سے جگ مگا اٹھتی ہیں۔ قاہرہ شہر کے قدیم علاقے میں مقدس ہستیوں کے مزارات ہیں۔

یہ ایک گلی ہے جسے یہ لوگ شاہراہ اشرافیہ کہتے ہیں‘ اس سڑک پر درجنوں مزارات ہیں‘ مجھے قاہرہ میں پانچویں مرتبہ مسجد حسینی جانے کی سعادت حاصل ہوئی‘ اس مسجد میں حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک دفن ہے‘ میں نے امام شافعی ؒ‘سیدہ سکینہؓ ‘ سیدہ سفینہ ؓ ‘ حضرت امام جعفر صادق ؓ کے صاحبزادے علی بن جعفرؓ اور رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی سیدہ عاتکہ ؓ کے مزارات پر بھی حاضری دی۔ یہ ایک شان دار روحانی تجربہ تھا اور میں ابھی تک اس کے سرور میں ہوں۔

مصریوں کی چند روایات بہت ہی دلچسپ ہیں۔ مثلاً یہ مُردوں کو قبرستانوں میں دفن نہیں کرتے تھے‘ یہ اپنے گھروں میں مُردوں کیلئے ایک کمرہ مختص کر دیتے تھے‘ کمرہ زیر زمین ہوتا تھا‘ یہ نماز جنازہ کے بعد مردے کو اس کمرے میں رکھ آتے تھے اور کمرے کو سل سے بند کر دیتے تھے‘ قدیم قاہرہ میں ایسے سیکڑوں کمرے آج بھی موجود ہیں‘ مصر کے بعض گھرانے آج بھی مُردوں کو اسی طرح دفن کرتے ہیں۔ ان کی تعزیت کا طریقہ بھی مختلف ہے۔

یہ میت دفن کرنے کے بعد رات دروازے کے باہر ٹینٹ لگادیتے ہیں‘ ٹینٹ کو قمقموں سے روشن کرتے ہیں‘ اپنے تمام دوست احباب کو اطلاع کرتے ہیں‘ گھر کے مرد اور خواتین سوٹ پہن کر‘ ٹائی لگا کر دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ لوگ بھی صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے ہیں‘ لواحقین سے ملتے ہیں اور ٹینٹ کے اندر کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں‘ مصر میں تعزیت کے لیے دریاں یا قالین نہیں بچھائے جاتے‘ لوگ کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور انہیں قہوہ پیش کیا جاتا ہے۔

قاری صاحب آتے ہیں اور لاؤڈ سپیکر پر قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دیتے ہیں‘ تلاوت ختم ہوتے ہی تعزیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں‘ یہ لوگ تعزیت کے دوران کھانا دیتے ہیں اور نہ ہی اس ”فنکشن“ کے بعد تعزیت کی اجازت ہوتی ہے۔ مصر میں شہروں اور دیہات میں تعزیتی محفلوں کے لیے ہال بھی بن چکے ہیں‘ یہ ہال مناسبات کہلاتے ہیں اور یہ میرج ہال کی طرح کام کرتے ہیں لیکن جو لوگ ہال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے وہ گلی میں ٹینٹ لگا کر تعزیت کا مرحلہ مکمل کر لیتے ہیں۔

یہ لوگ ”فن لونگ“ بھی ہیں‘ یہ شام کو اپنی بیوی یا ہونے والی بیوی کو ساتھ لے کر گھر سے باہر نکل آتے ہیں‘ نیل کے کنارے بیٹھتے ہیں‘ کھانا کھاتے ہیں‘ موسیقی سنتے ہیں اور دیر تک گھومتے ہیں‘ قہوہ خانوں‘ حقوں اور شیشے کی روایت بھی بہت مضبوط ہے‘ یہ لوگ دفتروں اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھر آتے ہیں‘ نہاتے ہیں‘ صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں‘ قہوہ خانے میں بیٹھ جاتے ہیں‘ حقہ یا شیشہ پیتے ہیں اور ساتھیوں کے ساتھ گپ لگاتے ہیں۔ یہ موسیقی کے بھی رسیا ہیں۔

میں نے ہر وزٹ پر رات کے وقت قاہرہ کی گلیوں میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو دف بجاتے اور بلاخوف و خطر ناچتے دیکھا‘ شہر میں کلب اور بارز بھی ہیں‘ لوگ وہاں بھی بھرپور انجوائے کر رہے تھے لہٰذا اس شہر میں مسجد اور خرافات ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور کسی کو اس پر کوئی پریشانی نہیں۔ شہر میں قدیم ترین اسلامی نیورسٹی‘ قدیم ترین مساجد اور قدیم ترین ٹمپلز بھی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ قدیم ترین ناچ گھر‘ قدیم ترین شراب خانے اور قدیم ترین بازار بھی ہیں اور شراب خانے‘ یہ بازار اور ناچ گھر مسجد کی روایت سے ٹکراتے ہیں اور نہ ہی مسجد انہیں ہنسنے‘ کھیلنے اور خوش ہونے سے روکتی ہے۔

میں قاہرہ شہر میں نیل کے پل پر کھڑا تھا اور قاہرہ کے جدید اور قدیم دونوں حصے میرے سامنے تھے‘ دنیا میں اسلام کے تین مراکز ہیں۔ عرب‘ ترکی اور مصر۔ ان تینوں کا معاشرہ لبرل ہے‘ سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ کے سوا معاشرہ لبرل ہوتا جا رہا ہے‘ یو اے ای یورپ بن چکا ہے‘ وہاں مساجد بھی ہیں اور لوگ سانس بھی لے رہے ہیں۔ ترکی میں 20 سال سے اسلام پسندوں کی حکومت ہے لیکن وہاں بھی لوگ سانس لے رہے ہیں اور مصر میرے سامنے تھا۔

اذان کے وقت فرعونوں کے سنگی سینوں تک میں اللہ کا پیغام اتر جاتا ہے لیکن اس کے بعد ساز بھی بجتے ہیں اور لوگ ناچتے کودتے بھی ہیں اور ان تینوں ممالک میں ہم سے بڑے مسلمان بھی موجود ہیں۔ اب سوال یہ ہے اگر یہ اسلام ہے تو پھر ہمارے ملک میں کون سا اسلام ہے؟ کیا ہم اس اسلام کو اسلام کہہ سکتے ہیں جس میں شیعہ سنی سے بچ رہا ہو اور سنی شیعہ سے اور ہم جیسے لوگ دونوں سے محفوظ نہیں ہیں!۔

مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں ”تم نے یہ ہم خیال گروپ کیوں بنایا؟ تم پیسہ‘ توانائی اور وقت کیوں برباد کرتے ہو!“ میں ہنس کر جواب دیتا ہوں ”میں اپنے دوستوں کو یہ بتانا اور یہ دکھاناچاہتا ہوں اس کنویں کے باہر بھی دنیا میں بے انتہا لوگ اور معاشرے ہیں اور یہ ہم سے کہیں بہتر زندگی گزار رہے ہیں‘ میں اپنے دوستوں کو کندھوں پر اٹھا کر دکھانا چاہتا ہوں اصل زندگی دیوار کی دوسری طرف ہے‘ آپ یہ بھی دیکھو‘ ہو سکتا ہے دوسری طرف موجود لوگ ہم سے زیادہ اچھے مسلمان بھی ہوں اور یہ زندگی بھی اچھی گزار رہے ہوں‘ میں کچھ بھی نہیں کر رہا‘ میں بس لوگوں کا دیکھنے کا زاویہ اور ڈھنگ بدل رہا ہوں‘ وہ وقت اب دور نہیں جب کم از کم ہم پانچ ہزار لوگ زندگی کو اس کے اصل رنگوں اور اصل ذائقوں کے ساتھ دیکھ رہے ہوں گے“۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاوید چوہدری

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply