• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کو سمجھنے کے لیے اس کی انتہا پسندی سے رغبت کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔۔اسد مفتی

پاکستان کو سمجھنے کے لیے اس کی انتہا پسندی سے رغبت کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔۔اسد مفتی

فیض احمد فیض نے پطرس بخاری کے انتقال پر ایک تقریر میں کہا تھا
دوستی،باہمی محنت و ریاضت اور مشقت کا ثمر ہوتی ہے،دوستی کے لیے ایثار یا بار بار اظہار اور تکرار و تجدید کی ضرورت پڑتی ہے،یہ کام محنت کا ہے،اور اس میں وقت صَرف ہوتا ہے،عمل کے بغیر یہ ممکن نہیں،عمل کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ۔

ہم زندگی میں لاکھوں کروڑوں چہرے دیکھتے ہیں،قریب سے،دور سے،کسی کو محسوس کرتے ہیں،کوئی یونہی ایک جھلک دکھا کر گزر جاتا ہے،کوئی ہم کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔کسی کو ہم اس حد تک متاثر کرتے ہیں کہ اس کی راتیں،اس کے دن اپنے نہیں رہتے،چہرے ایک دوسرے پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں،چہرے جو سپاٹ ہوتے ہیں،جن میں تپاک ہوتا ہے،ایک حال ایک کیفیت،ایک جذبہ،ایک گریز رقم ہوتا ہے،جسے پہچاننے والی نظریں پہچان لیتی ہیں،اور جسے محسوس کرنے والے محسوس کرلیتے ہیں۔اور یہیں سے یہ بات طے ہوتی ہے کہ دوستی اور ربط کس شدت،کس درجے پر قائم ہے۔
آخر ہمارے ساتھ کیا خرابی ہے کہ بحیثیت قوم کوئی دوسری قوم ہم پر کیوں اعتماد نہیں کرتی؟
ہمارے الفاظ ہمارا چہرہ کیوں نہیں بن پاتے؟
چہرہ جو ہونے کا ثبوت ہے،جس میں ایک فرد،ایک قوم،چُھپی ہوتی ہے،اس کے احساسات،اس کے جذبات،یہ احساسات اور جذبات آخر دوستی کی طرف ہاتھ کیوں نہیں بڑھاتے؟
ہمسائے جو کہ اس دوستی کے بہترین حقدار ہیں،وہاں بھی دشمنی اپنا رنگ کیوں جمائے ہوئے ہے؟
اور کیا امن کا خواب،شانتی کا رنگ ہم کبھی نہ دیکھ سکیں گے؟
کیا یہ خوشبو ایک خواب بن کر رہ جائے گا؟
کیا لفظ تپاک،جو کہ دوستی کی بنیاد ہے،اب سراب کے معنوں میں استعمال ہواکرے گا؟
آخر خرابی ہے کہاں؟
یہ پسماندگی اور زبوں حالی کیوں ہے؟
کیا ہمارے ہاں ذہین لوگوں کا قحط ہے؟یہاں کی زمینیں بانجھ ہیں؟کیا اس علاقے سے گزرنے والی ہوائیں نامہربان ہیں،گردشیں ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی ہیں؟کیا یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رات ٹھہر گئی ہے؟
آدھی صدی سے زائد بیت گئی،ہم نے بہت کچھ سُنا اوردیکھا،لیکن جو حاصل ہے وہ کیا ہے،وہ ہے دشمنی،جنگیں،اسلحہ،میزائل،ایٹم بم،استحصال،ناداری،افلاس،جرائم،جہالت،انتشار،تعصبات،توہمات،جنونیت،رشوت،چوری،ڈاکے،اور قتل و غارت۔۔۔

چند آدمیوں کی ترقی چند شہروں کی رونق،عمارتوں کی بلندی،سڑکوں کا پھیلاؤ،مگر عام آدمی جہاں پہلے تھاوہاں سے بھی نیچے گرا دیا گیا ہے۔اور یوں پورا ملک وہاں سے بھی پیچھے ہٹ رہا ہے،جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا،دور تک کوئی اُمید بھی نہیں،حکومتیں بدلتی رہیں گی،انتشار مزید بڑھے گا،سڑخیں اور کشادہ،شہر اور پُر رونق،اور نئی طرزِ تعمیر کی عمارتیں اور بڑھ جائیں گی۔ساتھ ہی جھونپڑیاں،تاریکیاں،لوٹ کھسوٹ،جرائم،بھوک،اور دکھوں میں اضافہ ہوگا،اور پھر اس پر سماجی او معاشی تجزیہ نگاران مصائب کے سلسلے میں بہت سی سائنسی اور فنی وجوہ پیش کردیں گے۔۔وہ کہیں گے کہ یہ اس ملک کا عبوری دور ہے۔انتقال اقتدار کا مرحلہ ہے،پرانی زندگی اور نئی زندگی کی سماجیاتی کشمکش کا معاملہ ہے،یہ دور ہمارے ہاں کے سماجی اداروں کے تضاد کا دور ہے۔یہ ثقافتی خلا کی بات ہے،وہ کہیں گے کہ صنعتی انقلاب کے بعد انگلستان میں بھی یہی ہوا۔۔۔ترقی پذیر ممالک ان مراحل سے گزرتے رہتے ہیں،مگر ایک نئی زندگی ان پیچیدگیوں اور ناہمواریوں کے بعد طلوع ہوگی وغیرہ وغیرہ۔۔۔

مجھے تو ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا،کیا یہ ممکن ہے کہ جس معاشرے میں توہمات،تعصبات،اور مذہبی جنون پرستوں کا راج ہو،وہاں خرد افروزی کے چراغ جل پائیں۔؟
کیا ہمارے معاشرے میں عقل پروری،اناسنی فکر،عقل دوستی،اور سائنسی نقطہ نظر رکھنے والے افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر نہیں؟
کیا عہدِ تاریک کے محافظین کے مقابل ڈٹ جانے والے افراد آپ کو کہیں نظر آتے ہیں؟
کیا ہماری سوسائٹی میں افہام و تفہیم،سیکولرازم،خیر سگالی،عدم تشدد،بھائی چارہ،اور خوشحالی نام کی کوئی شئے باقی ہے؟
اور کیا وہاں شرافت،عظمت،عروج،ترقی،حقیقت پسندی،دیانتداری،وقار،شائستگی،زیبائی،خوش نیتی، اور امن پسندی کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا؟

ان تناظر میں جب ہم اپنے ملک میں عقل تحوی،سیکولرازم،اور سائنسی نقطہ نظر کو اختیار کرنے کے رویوں کی تلاش کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہماری تہذیب آج تک فرد افروزی کے اس مرحلے پر نہیں پہنچی،جہاں سے عقل پروری نے اپنے شعر کا آغاز کیا تھا،کہ آج بھی عقلی رویوں کا روزمرہ زندگی میں عمل دخل آٹے میں نمک کے برابر ہے،ان حالات میں ترقی پسندی،روشن خیالی،اور عقل دوستی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے،

Advertisements
julia rana solicitors london

آج  ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمسائیوں کے خلاف حالتِ جنگ میں رہنے کے بجائے ناداری،افلاس،جہالت،جرائم،استحصال،اور مذہبی جنونیت کے خلاف جنگ شروع کریں،کہ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ترقی پسندی اور روشن خیالی اور عقل دوستی کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے،ہمیں چاہیے کہ ہم جہاں بھی ہوں،جن حالات میں بھی گھرے ہوں،خرد افروزی کے فروغ کے لیے سخنے درمے قدمے،جو کچھ بھہ ہم سے بن پڑے اسے کرنا چاہیے،کہ تعقل اور تفکر میں ہی ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی نجات ہے۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply