المیہ۔۔سائرہ خلیل

خلیل الرحمٰن قمر جن کو آؤٹ سپوکن اور سچویشنل رائٹر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو۔ حال ہی میں ان کا ایک پلے “میرے پاس تم ہو”  ٹیلی وژن سکرین کی زینت بنا۔ اس سیریل نے ہمارے معاشرے کے تمام پڑھے لکھے   ،سمجھدار انسانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر ہمارہ معاشرہ کس سمت جا رہا ہے؟   درحقیقت اس ڈرامے کے اندر دو مکتبہ فکر ہیں۔ مرد اورعورت اور دونوں اصناف کی مزید دو دو اقسام ہیں۔

مرد کو ہر کوئی اپنے نقطہ نظر سے دیکھ رہا ہے یعنی دانش (اچھا اور شریف آدمی) اور شہوار (ایک بُرا آدمی)۔ اس کے برعکس ایک عورت مہوش کی شکل میں اور دوسری ہانیہ یا ماہم۔
یہ کہانی کسی حد تک ہمارے معاشرے کی عکاسی ضرور کرتی ہے۔

قریباً ہر خاندان اور محلے  میں آپ کو مہوش جیسی  بیشمار خواتین نظر آئیں گی جو اپنے شوہر کی کمائی سے مطمئن نہیں ہوتیں اور ہر لمحہ شکایت کرتی رہتی ہیں۔ مرد کی ساری زندگی ایک عورت کے گرد گھومتی ہے۔ اگر عورت اسکی کم کمائی میں گزارا کرلے تو مرد کبھی بھی غلط راستہ اختیار نہ کرے اور شاید ہمارے ملک سے بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ ہو سکے۔ لیکن ہم عورتیں دوسروں سے برینڈز کی جنگ میں مرد کی مخلصی اور قربانیوں کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں اور اس کو مجبور کرتی  ہیں کہ  جیسے بھی ممکن ہو،ہماری  خواہشیں ،چاہے وہ ناجائز ہی کیوں  ہوں  ،پوری کرو۔ لیکن ان سب کے پیچھے بھی قصور ان ماؤں کا ہے جو بچپن سے بیٹیوں کے کانوں میں یہ بات ڈالنا شروع کرتی ہیں کہ ایک شہزادہ مرسڈیز میں آئے گا اور محلوں میں لے جائے گا لیکن اصل زندگی میں جب ایسا نہیں ہوتا تو لڑکی اپنے ان خوابوں کے پیچھے نا  صرف بھاگتی ہے بلکہ چادر چار دیواری  کے  تقدس کو بھی پامال کر جاتی ہے۔ تمام فیمنسٹس سے معذرت کے ساتھ بہرحال قصور سراسر عورت کا ہے ۔ معاشرہ بنانے والی صرف ایک عورت ہے اور مرد محض ایک کیٹالسٹ ہے۔

نیز ایسی عورتیں بھی ہمارے معاشرے کا حصّہ ہیں جو اپنا سب کچھ اپنے شوہر کے قدموں میں ڈال دیتی ہیں، جیسا کہ ماہم۔۔ شہوار کی بیوی۔ خواتین اپنے شوہر کی خوشنودی کے لیے اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری نوکریاں چھوڑ کے صرف گھر کی ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ آپ کو اپنے  اِرد گِرد ہی  ایسی بہت سی مثالیں نظر آجا ئیں گی۔

اسی طرح مرد وں کی بھی دو اقسام ہیں۔ دانش اور شہوار
دانش ایسے مردوں کی عکاسی کرتا ہے جو اپنی شریکِ حیات کی خاطر ہر کام کر گزرتے ہیں اپنی اولاد کے لیے آسانیاں پیدا کرتے کرتے اپنا آپ مٹی میں ملا دیتے ہیں اور یہ ہمارے مڈل کلاس معاشرے کے ہر باپ کی کہانی ہے۔ اور شہوار ایک ایسا کردار ہے جس میں جان ڈالنے والی مہوش جیسی خواتین ہیں۔ جب تک مہوش ہے شہوار نکھر کے سامنے آتا رہے گا اور دانش غیرت کی موت مرتا رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلاشبہ یہ ڈرامہ ایک ماسٹر پیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ افسوس ہماری نوجوان نسل نے صرف “دو ٹکے کی عورت” کے علاوہ اور کچھ   سیکھا، نہ سمجھا۔
تمام بہنوں سے گزارش ہے کہ اپنی بیٹیوں کو بڑے محلوں کے خواب دکھانے کی بجائے، بڑی عزت اور آبرو کی پہچان کروائیں۔ اور بیٹوں کو اس عزت کی حفاظت کرنا سکھائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”المیہ۔۔سائرہ خلیل

  1. صد فی صد متفق۔۔۔۔
    لیکن ۔۔۔
    اس کہانی میں سچی محبت کا انجام دکھایا گیا ہے کہ شرک تو اللہ بھی معاف نہیں کرتا۔۔۔ دنیاوی چمک سے بالاتر ہوتی ہے محبت اگر ہو تو۔۔۔۔۔
    دانش اور مہوش کی محبت مثالی تھی مگر مہوش محبت کے عوض دنیاوی چمک کی خریدار بنی جس کے سبب حقیقی محبت بھی گنوا دی اور چمک بھی اُڑا دی
    دانش اپنی محبت کے روٹھنے کے سبب جان گنوا بیٹھا یہ ایک روگ تھا جو وہ برداشت نہ کر سکا۔ اُسے نہ دنیاوی چمک بچا سکی اور نہ ہی بے وفا کی معافیاں۔۔۔۔

Leave a Reply to Saira Khalil Cancel reply