ہمارے ڈرامے اور ہماری ترجیحات۔۔لئیق احمد

“میرے پاس تم ہو” ایک پاکستانی ڈرامہ ہے جو خلیل الرحمن قمر صاحب نے لکھا ہے جس کی ویورشپ نے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے تمام سابقہ ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ڈرامے کی ایک قسط کو 320 ملین افراد نے دیکھا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈیا کے لوگ بھی اسے دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں جس کا اندازہ یوٹیوب کے کمنٹس سے لگایا جاسکتا ہے اس ڈرامے کی آخری قسط آن ائیر ہوچکی ہے ۔ جسے پاکستان کے تمام سینما گھروں میں دکھایا گیا جس کی ایڈوانس بکنگ تین روز قبل ہی 5۔5 کروڑ تک پہنچ چکی تھی۔

اس ڈرامے کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ بیک وقت مذہبی اور لبرل طبقے کی زد میں ہے۔ مذہبی طبقہ اسے ترکی کے ڈرامے ارتغرل سے ملا رہا ہے اور بتانا چاہ رہا ہے کہ ہماری قوم کی ترجیحات کیا ہیں۔ ہماری قوم کس طرح کے کرداروں کو پسند کرتی ہے اور کس طرح کی کہانیوں میں دلچسپی رکھتی ہے اور ناچیز کی راۓ میں یہ تنقید درست بھی ہے جب کہ دوسری جانب لبرل فیمنسٹ NGO’s کی جانب سے بھی یہ ڈرامہ تنقید کی زد میں ہے جس میں انکا یہ مؤقف ہے کہ اس ڈرامے میں مرد کی بالادستی کو دکھایا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مرد اگر باہمی تعلق میں غلطی کریں، تو قابل معافی ہے۔ جبکہ عورت یہی غلطی کرے تو قابل معافی نہیں ہے۔ لبرل فیمنسٹ گروپس کے ان اعتراضات کا جواب ٹی وی ٹاک شوز کے پروگراموں میں خلیل الرحمن قمر صاحب دے چکے ہیں۔

ایسے بہت سے ڈرامے پہلے بھی بنے ہیں لیکن انھیں اس قدر پذیرائی نہیں ملی لیکن جو پذیرائی اس ڈرامے کو ملی ہے اس میں سب سے اہم کردار خلیل الرحمان قمر کے قلم کا ہے۔ اس پورے ڈرامے کی جان اس کے ڈائیلاگز ہیں لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس طرح کہ فالتو موضوعات پر بنائے جانے والے ڈراموں کو ہی پاکستان میں اچھے رائیٹرز ملتے ہیں جو ڈائیلاگز میں اتنی جان بھر دیتے ہیں کہ لوگ ان الفاظ کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسی ڈرامے کے بالمقابل ISPR اور ہم ٹی وی کے اشتراک سے ایک ڈرامہ “عہد وفا” آ رہا ہے یہ ڈرامہ کیوں کہ آرمی کے زیر اہتمام بن رہا تھا تو لوگوں کی امیدیں بھی اس سے وابستہ ہو گئیں  تھی اور لوگ اس آنے والے ڈرامے کو الفا براوو چارلی اور دھواں ڈرامہ سے کمپیئر کرنے لگے تھے اور توقع کر رہے تھے کہ یہ ڈرامہ نظریاتی اعتبار سے ایک بہترین ڈرامہ ہوگا لیکن تھرڈ کلاس سٹوری اور ڈائیلاگز نے ناظرین کو سخت مایوس کیا ۔ 16 اقساط گزر جانے کے بعد بھی کہانی آگے صحیح سمت میں بڑھتی نظر نہیں آ رہی اور کئی ایک واقعات ایسے ہوتے بھی دکھائے گئے جو حقیقت سے  بہت دور تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں بس یہ کہنا چاہوں گا ہمارے پاس اگر اچھے لکھنے والے ہیں تو وہ فضول موضوعات پر لکھ رہے ہیں اور اگر نظریاتی لوگ کوئی ڈرامہ بنا رہے ہیں تو وہ یہ کام کسی اچھے رائٹر اور ڈائریکٹر سے نہیں لے رہے۔ جب کہ ترکی میں آرتغرل کا کردار ادا کرنے والا کردار اور اس کے ساتھ اس ڈرامے میں کام کرنے والے بہت سے کردار اپنی ذاتی زندگی میں سخت لبرل ہیں لیکن ڈرامہ بنانے والوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی اور اسے اس کے فن کی وجہ سے یہ کردار دیا اور ایک لبرل ایکٹر سے اپنی پسند کا اسلامی نکتہ نظر کے مطابق اچھا کام لیا۔ کاش ترکی طرز کے ڈرامے پاکستان میں بھی بننا شروع ہو جائیں۔ جن کے موضوعات “میرے پاس تم ہو” کی طرح نہ فضولیات پر مبنی ہوں اور نہ ہی “عہد وفا” کی طرح مقصدیت سے خالی ہوں۔ پاکستان میں بھی اچھے لکھنے والوں اور اچھے ایکٹرز کے ساتھ بامقصد اسلامی ثقافت کو پروموٹ کرنے والے ڈرامے بن سکتے ہیں لیکن حکومتی سرپرستی اور اسلام پسندوں کی توجہ کی ضرورت ہے جیسے ترکی کی حکومت اور اسلام پسندوں نے اس پر توجہ دی ہے۔

Facebook Comments

لیئق احمد
ریسرچ سکالر شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی ، ٹیچنگ اسسٹنٹ شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply