پیاری رمشا۔۔۔ہُما جمال

پیاری رمشا تبسم
امید کرتی ہوں کہ اپنے نام کی طرح ہنستی مسکراتی زندگی سے چھیڑ خانی میں مصروف ہوگی، آج تم سے بذریعہ خط ہمکلام ہونے کا موقع ملا ،تو سوچتی ہوں اپنے وہ تمام اظہار جو تمہاری تحریروں پر نہ کرسکی آج انہیں اکٹھا کرکے ان کا اجتماع کردوں
رمشا تبسم توقیر تمہیں میں نے پہلی بار دیکھا تو مجھے ایک چلبلی، توتلی اور غیر سنجیدہ لڑکی نظر آئی جس کی باتیں پڑھ کر بے اختیار ہنسی آئی، اور یوں لگا کہ ایک معصوم دل ہے جو زندگی کی تلخیوں سے ناواقف نا صرف کھکھلا کر ہنسنا جانتا ہے بلکہ اپنے اس فن سے دوسروں کو بھی محظوظ کرسکتا ہے۔
لیکن دو ہی دن بعد   میں نے تمہیں اذیت میں مبتلا محبت کے ایک قبرستان میں بیٹھے روتے ہوئے سنا جہاں تم کہہ رہی تھیں

“میری ویرانی اب کسی قبرستان کی سی ہے۔ویرانی سب سے زیادہ قبرستانوں میں ہی تو محسوس کی جاتی ہے”۔۔

تمہارے لفظوں میں جو درد تھا اس نے مجھے بھی دھیرے سے اس قبرستان میں ہی دھکیل دیا اور میں دم سادھے تمہارے لفظوں کا نوحہ سننے لگی
تم کہہ رہی تھیں۔۔

” قبروں کو دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ انسان کا دل سنبھل جاتا ہے اور انسان قبرستان میں کھڑے ہوتے ہوئے گھبراتا نہیں۔ پھر کسی اپنے کی قبر  کے پاس  بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرتا ہے۔”

تم میری موجودگی سے ناواقف ،ہر قبر میں کوئی احساس, کوئی ارمان, کوئی خواہش , کوئی یاد , کوئی لمحہ, کوئی درد, کوئی آنسو, کوئی فریاد اور کوئی ہجر زدہ وجود دفن کرتی جارہی تھیں اور سب کو یہی کہہ رہی تھیں کہ کہ اگر ارمان، آرزو، خواہش، مر جائیں تو انہیں دفنادو ان کی لاشیں لے کر پھرتے رہو گے تو زندگی بھر ان لاشوں سے تعفن اٹھتا رہے گا۔
میں ٹکٹکی باندھے تمہارے لفظ پڑھتی جارہی تھی روتی جارہی تھی ،تمہاری تحریر کا درد اپنی روح میں اترتا محسوس ہورہا تھا،ابھی میں تمہاری اس تحریر کے اثر سے نکلی نہ تھی کہ دن کے اجالے میں تمہارے بلند بانگ قہقہے کسی پانڈے سے کھیلتے ہوئے میری سماعتوں سے ٹکرائے ،
تمہاری شخصیت کا دہرا پن ،تمہاری شخصیت کو گہرا بہت گہرا پُراسرار راز بنارہا تھا،ابھی تمہاری شخصیت کی بھول بھلیوں میں رستہ کھوج ہی رہی تھی کہ تم پھر مخاطب ہوئیں “راستے خون پیتے ہیں”۔۔

پیاری رمشا تمہاری اس درد سے بھری تحریر نے راستوں اور ان راستوں کی اہمیت کو بہت خوب اُجاگر کیا۔
تم نے کہا کسی کے آنے سے, کسی کے گزر جانے سے اور کسی کے بھٹک جانے سے راستوں کو کبھی بھی فرق نہیں پڑتا، جس راستے کو خود اپنا آغازاور انجام   معلوم نہ  ہو، وہ کہاں کسی کے”آغاز” کو “انجام” تک لائے گا؟۔

راستوں کو فقط انسانوں کا ہجوم چاہیے، اس ہجوم کے آنسو، آہیں اور فریادیں چاہئیں تاکہ راستوں کی رونق بحال رہے، بھٹکے ہوئے مسافر کو منزل ملے نہ ملے اس سے راستوں کو کوئی غرض نہیں،رمشا راستے خون پیتے ہیں، رہنمائی نہیں کرتے ۔۔۔اس تحریر سے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو رہنمائی ملی کہ ایک ہی راستے پر بار بار جانا جو منزل تک بھی نہ پہنچاتا ہو ،ایک غلطی سے بڑھ کر کچھ نہیں،

پیاری رمشا تم ہجر کی ایسی منظر نگاری کرتی ہو کہ ہجر بھی خود کسی کونے میں بیٹھ کر روتا ہوگا۔۔

جب تم نے کوے اور کوئل کی مثالیں لے کر ہجر اور وصال لکھا ،یقین جانو میرا پڑھنے کا ذرا ارادہ نہ تھا لیکن تمہارے متوجہ کرنے پر پڑھی اور جوں جوں پڑھتی گئی، یوں لگا جیسے وہ وصل کی کوئل، ہجر کا کوّا سب میرے آنکھوں کے سامنے ہوں۔

تم نے لکھا جب آنکھیں ایک بار ہجر میں پتھرا جائیں تو پھر وصل کی کوئل کا گیت بھی کائیں کائیں  کرنے لگتا ہے، تم نے اپنی تحریر میں وصل کی کوئل کو ہجر کا کالا کوّا سمجھ کر قتل کرڈالا ،یہ ظلم اپنی جان پر نجانے کتنے ہجرزدہ وجود کرتے ہیں لیکن تمہاری طرح قلمبند کرنے کی  ہمت اور اہلیت نہیں رکھتے۔۔

تمہاری یہی تحریر پڑھ کر دل بے اختیار چیخ اٹھا کہ “لڑکی لفظ لکھتی ہو کہ درد لکھتی ہو”؟

وحشت کی اسیری اک بار پھر مجھے وحشت زدہ کرگئی جس میں نازک تتلیوں کا مسلے جانا اور ہر لفظ ہی درد ناک تھا لیکن اس تحریر کی سب سے خوبصورت سطر”میری خواہشوں کے قاتل۔۔۔میں اب صرف میں رہتی ہوں۔مجھے اب نہ “تم” ہونے کی چاہت ہے نہ ہی “ہم” ہونے کا شوق۔ میں اب صرف “میں”رہنا چاہتی ہوں” بہت پُراعتماد تھی۔

اس کے بعد بھی تم نے مجھے اپنی بہت سی تحاریر بھیجیں، جو ایک سے بڑھ کر ایک اور شاندار تھیں اور ساتھ ہی تم نے مجھ پر یہ انکشاف کیا کہ تم ان تحریروں کے احساس سے واقف نہیں بلکہ ایک خاک نشیں کی کہانی لکھ رہی ہو، کیوں لکھ رہی ہو یہ بتانے کا کہا لیکن نہیں بتایا۔۔۔

تمہارے یہ الفاظ میرے لئے بہت حیران کن تھے اور میں سوچنے پر مجبور ہوئی کہ دو قسم کے انسان ہی درد کو بے دردی سے لکھ سکتے ہیں
پہلا وہ جو ہر درد کی انتہا سہہ چکا ہو
دوسرا وہ جس نے درد کا ذائقہ ہی نہ چکھا
اسی لئے جب تمہاری بے فکر سی طبعیت اور گہری تحریروں نے مجھے متذبذب کیا تو یوں کہا
فکر زمانہ سےکُل آزادی
درد ابھی سہا نہیں؟
یا پھر انتہائے درد ہے؟

پیاری رمشا تمہیں بہت تھوڑے عرصے میں اتنا جانا ہے کہ تم غم کو سنجیدگی سے لیتی ہو لیکن اپنے غم میں دوسروں کو سنجیدہ ہونے کا موقع فراہم نہیں کرتیں۔۔تمہارے الفاظ بے نظیر ہیں، تمہارا احساس بے مثال ہے، رب کریم نے تمہیں لفظوں کے اظہار کی بیش قیمت دولت سے مالا مال کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری دعا ہے کہ تم کسی بھی حقیقی غم کی پہنچ سے ہمیشہ دور رہو، جتنی بھی فرضی اذیتیں تم اپنی تحاریر میں بیان کرتی ہو سب سے محفوظ رہواور اسی طرح بہادری و بیباکی سے معاشرتی سچ خواہ کڑوا ہو یا میٹھا لکھتی رہو ۔
آمین
تمہارے لئے ہمیشہ دعاگو
ہُما!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply