سکاٹ لینڈکی آزادی کادوسراریفرنڈم کب ہوگا؟۔۔طاہر انعام شیخ

برطانوی حکومت چونکہ کسی طورپر بھی سکاٹ لینڈ کی یو کے سے علیحدگی نہیں چاہتی، لہٰذا اس نے اسکاٹ لینڈ کی حکومت اور اسکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نکولاسٹرجن کی طرف سے آزادی کے دوسرے ریفرنڈم کے مطالبے کو ماننے پر صاف انکار کردیا ہے، اپنے صرف ایک عملے کے جواب میں وزیراعظم بورنس جانسن نے نکولاسٹرجن کو لکھا ہے کہ 2014 کے آزادی کے ریفرنڈم میں عوام اس بارے میں واضح فیصلہ دے چکے ہیں کہ وہ بدستور برطانیہ کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں، جبکہ اس وقت اسکاٹش حکومت اور پارٹی کے سربراہ الیکس سائمنڈ اور خود نکولاسٹرجن جو اس وقت ڈپٹی فرسٹ منسٹر تھیں کہہ چکے ہیں کہ 2014 کا ریفرنڈم پوری ایک نسل کے لئے ہے،نکولا سٹرجن کا موقف ہے کہ آزادی کے گزشتہ ریفرنڈم کے بعد صورتحال میں ایک جوہری اور بنیادی تبدیلی آچکی ہے اور وہ برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنا یا بریگزٹ سےا سکاٹ لینڈ کے عوام بریگزٹ کے ریفرنڈم میں 38 کے مقابلے میں 62فیصد سے فیصلہ دے چکے ہیں کہ وہ یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں بالکل نہیں نیز بعدازاں الیکشن میں بھی عوام کا بھاریا کثریت سے اسکاٹش نیشنل پارٹی کو ووٹ دینے اور نکولا سٹرجن کے نزدیک یہ ایک طرح سے نئے ریفرنڈم کے لئے عوامی مینڈیٹ تھا، اس کے جواب میں برطانوی حکمران کنزرویٹو پارٹی  کا موقف ہے کہ الیکشن اور آزادی کا ریفرنڈم دو بالکل مختلف چیزیں ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ الیکشن میں سکاٹش نیشنل پارٹی کی جیت تو کیا ہم 2021 میں ہونے والے اسکاٹش پارلیمنٹ کے الیکشن میں بھی ان کی جیت کو مینڈیٹ کے طورپر نہیں لے سکتے، نکولاسٹرجن 2020 کے آخر میں نہ صرف ایک نیا ریفرنڈم چاہتی ہیں، بلکہ وہ اسے لازمی طورپر جیتنا بھی چاہتی ہیں کیونکہ ہار کی صورت میں ان کو اخلاقی طورپر حکومت چھوڑنی پڑے گی، اس مقصد کیلئے انہوں نے برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ سیکشن 30 کے اختیارات جن کے تحت نیا ریفرنڈم منعقد ہوگا، دارالعوام سےا سکاٹش پارلیمنٹ کو منتقل کردیئے جائیں اور یوں وہ اپنی سہولت کے لحاظ سے ریفرنڈم کرواسکیں گی۔ چونکہ اس سلسلہ میں آئین خاموش ہے اور اب یہ ایک لمبی بحث چل نکلی ہے کہ کیا اسکاٹش پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ دارلعوام کے بجائے وہ آزادی کا نیا ریفرنڈم کرائے اس بارے میں آخری فیصلہ عدالت ہی کرے گی، نکولاسٹرجن، بورنس جانسن کے صاف انکار کی صورت میں یقینا ً خاموش نہیں بیٹھیں گی اور اس سلسلہ میں ان کے پاس بھی کئی آپشنز موجود ہے وہ اسکاٹش پارلیمنٹ کی اجازت سے بھی نیاریفرنڈم کرواسکتی ہیں لیکن اس کی حیثیت بالکل اسی طرح کی ہوگی جیسے کہ ا سپین کی ریاست کاتالونیا نے آزادی کا ریفرنڈم کرایا تھا۔ لیکن اس کو دنیا نے تسلیم نہ کیا نکولاسٹرجن چونکہ آزادی کے بعد ایک آزاد ریاست کے طورپر یورپی یونین کا حصہ بننا چاہتی ہیں لہذا وہ لازمی طورپر 2014 کے الیکشن کی طرح آئین اور قانونی ریفرنڈم چاہتی ہیں جیسے یورپی یونین اور باقی دنیا بھی تسلیم کرے برطانوی حکومت کے اس جواب پر کہ 2014 کا ریفرنڈم ایک پوری نسل کے لئے تھا، اس بات پر بھی بحث شروع ہوچکی ہے کہ ایک نسل کتنے عرصے تک محیط ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس بارے میں مختلف حلقے اپنی اپنی رائے دے رہےہیں کہ جنیاتی ماہرین اس کو 29 سے 34 سال قرار دے رہے ہیں، برطانوی حکومت میں اسکاٹ لینڈ کے وزیر ڈگلس رس اس کو 30 سے 50 سال جبکہ دیگر 20 سال تک کہہ رہے ہیں کیونکہ اسکاٹش ڈیولیشن کا پہلا ریفرنڈم 1979 جبکہ دوسرا 1997 میں منعقد ہوا تھا، نکولاسٹرجن کہہ چکی ہیں کہ وزیراعظم بورنس جانسن اور برطانوی حکومت نے آزادی کے دوسرے ریفرنڈم پر جو موقف اپنایا ہے، وہ نہایت کمزور ہے اور وہ اس پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ نکولاسٹرجن کی اب زیادہ تر توجہ 2021 کے الیکشن پر مرکوز ہوگی جسے وہ زیادہ سے زیادہ اکثریت سے جیت کر عوامی دبائو بڑھاسکیں، اگلے ٹرم کے طورپر وہ دارلعوام سے اپنے تمام ممبران کے استعفے بھی دلواسکتی ہیں، وہ اس ماہ کے آخر میں پروگرام بنارہی ہیں کہ اسکاٹش پارلیمنٹ کے ممبران سے ایک نیا ووٹ کرائیں جس کا نام سکاٹ لینڈ رائٹ ٹو چوز Scotland Righto Choose ہوگا اور یہ یورپی یونین سے نکلنے کی تاریخ 31 جنوری سے پہلے ہوگا، آزادی کی تحریک کے سلسلہ میں مختلف سروے سامنے آرہے ہیں یہ ایک بہت مضبوط تحریک ہے، لیکن فی الحال اتنی فیصلہ کن نہیں کہ اکثریتی طرز پر آزادی حاصل کرسکے یہ ابھی 49 کے مقابلے میں 51تک ہے لیکن صورتحال اور حالات کی بھی وقت تبدیل ہوسکتے ہیں یوں لگتا ہے کہ نکولاسٹرجن آزادی کے لئے قلیل اور طویل مدتی دونوں طرح سے پالیسیاں بنائیں گی تاکہ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرسکیں، لیکن فوری طور پر نہ تو آزادی کے دوسرے ریفرنڈم اور نہ ہی آزادی کا امکان ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply