پیاری چھمی،سلام محبت۔۔۔محمد افضل حیدر

آج قلم اور کاغذ لے کر بیٹھا ہوں تو زندگی میں کبھی اتنے فکری انتشار کا شکار نہیں ہوا جتنا اس وقت ہوں۔یاد داشتوں کا ایک سمندر ہے جس میں غوطہ زن ہوں اور مسلسل ڈوب رہا ہوں, ایک جست باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہوں تو یاد کی کوئی نا کوئی  بپھری سی لہر مجھے زیست کے اس گہرے ساگر میں پھر سے ڈبو دیتی ہے۔میری مطالعاتی میز کے نیچے پڑی ڈسٹ  بن میں ضائع شدہ گول لپٹے کاغذوں کا انبار سا لگ گیا ہے۔چند سطریں لکھنے کے بعد جی چاہنے لگتا ہے یہ ٹھیک نہیں کچھ اور لکھا جائے۔جب بھی کاغذ کی پیشانی پر تمہارا وہ نام جو میں نے بڑے پیار سے رکھا تھا “پیاری چھمی ” لکھتا ہوں تو آنکھوں میں قید میری ادھوری محبت کا بھرم چھلکنے سا لگتا ہے۔ڈس بن میں پھینکے گئے زیادہ تر کاغذات پر ہماری ادھوری محبت کی سیاہی آنکھوں سے چھلکے آنسوؤں سے جا بجا بکھری پڑی ہے۔پندرہ سال بیت گئے چھمی پورے پندرہ سال۔۔
ان پندرہ سالوں میں زندگی کے ماہ و سال اتنی بڑی کروٹ بدل لیں گے کبھی نہیں سوچا تھا۔بچپن کی شرارتوں سے جوانی کے زینوں تک ہم ساتھ ساتھ رہے,ہمیں حالات نے نہیں جذبات نے ایک دوسرے سے چھین لیا۔

ہم جدا ہو گئے ہم نے ہونا تھا,تم خود ہی تو کہتی تھی فیضی!مجھے اس بات کا یقین ہے کہ ہم کبھی ایک نہیں ہو پائیں گے اور اس بات کا ڈر بھی کہ ہم ہمیشہ کے لئے بچھڑ جائیں گے۔مجھے یاد ہے میری جان!تم جب بھی یہ بات کرتی تھی تمہارے ہونٹ کانپنے سے لگتے اور تمہاری زندگی کو ہر پل جیتی چمکیلی آنکھوں میں ہجر کی نمی سی تیرنے لگتی تھی۔مجھے وہ آخری ملاقات کے آخری پل کی آخری ہچکی بھی یاد ہے چھمی۔ جب میرے کاندھے پر ٹکی تمہاری پیشانی اور میری الجھی ہوئی  سانسوں کی حدت کو محسوس کرتے تمہارے ہونٹوں سے ہماری دم توڑتی محبت کی آخری سسکیاں نکل رہی تھیں۔ تم بہت رو رہی تھی چھمی! بہت رو رہی تھی۔”میں مر جاؤں گی فیضی! تیری قسم مر جاؤں گی۔ مجھے مرنے سے بچا لو فیضی! خدا کے لئے بچا لو” اور میں اونچے شملوں اور ڈوبتی عزتوں کے ہاتھوں ڈسا ایک شکست خوردہ اور ہارا ہوا انسان, جس کے پاس تمہیں دینے کے لئے فقط ایک چھوٹی سی تسلی بھی نہیں تھی۔کپکپاتے ہونٹوں سے صرف یہ لایعنی سا جھوٹ بول پایا “میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا چھمی! کبھی بھی نہیں”کتنا چھوٹا اور جھوٹا تھا, یہ وعدہ بھی وفا نا کر پایا۔جن کی محبتیں مر جائیں وہ کہاں زندہ ہوتے ہیں۔

ہم جدا ہو گئے۔سماج کے جبر اور وقت کی ظلمت نے ہم سے ہماری محبت اور زندگی کو جینے کا ہنر چھین لیا۔ایک ہی گلی ,قریے میں پروان چڑھیں دو زندہ محبتیں اسی گلی کی کچی مٹی میں کہیں دفن ہوگئیں۔مجھے وہ منظر ابھی بھی یاد ہے جب عروسی جوڑے میں ملبوس تم نے گھر سے رخصت ہوتے وقت ایک بار نگاہیں اٹھا کر میرے گھر کی دہلیز کی جانب دیکھا تھا۔مجھے پتہ ہے میری جان !تم اس گھر کے آس پاس پڑے سماج کے جبر کی کیلوں سے اٹے تابوت میں پڑی الفت کی لاش کو آخری دیدار کے طور دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی یا پھر اس دہلیز سے پھوٹی اپنی پہلی محبت میں ٹوٹے دلوں کی کرچیاں سمیٹ کر اپنے ساتھ لے جا رہی تھی۔میں وہاں نہیں تھا چھمی! لیکن سچ پوچھو تو میں اس وقت کہیں بھی نہیں تھا خدا کی قسم کہیں بھی نہیں۔ہم دونوں گئی  رُتوں کے پنچھیوں کی طرح اپنے اپنے گھونسلوں سے نئے مسکن کی تلاش میں جھٹ سے اُڑ گئے۔تم نے شادی کرکے گاؤں چھوڑا اور میں نے گاؤں چھوڑ کر شادی کی۔قسمت بھی کتنی بے رحم شے ہے ہم جس کے ساتھ جینا چاہتے ہیں وہاں مار دیتی ہے اور جس کے ساتھ مرنا بھی گوارا نہیں وہاں جینے پر مجبور کر دیتی ہے۔۔

میں سکون کی تلاش میں گھر سے نکلا تھا سکون تو نہ ملا البتہ کامیابی ضرور مل گئی۔پڑھ لکھ کر معلم بن گیا اب بچوں کو وفا کا سبق پڑھاتا رہتا ہوں۔کہتا ہوں زندگی میں خوشی کو آس پاس ڈھونڈنے کی بجائے لوگوں سے وفا کرو خوشی خود بخود مل جائے گی۔میں نہیں چاہتا میری طرح آنے والے کل کا کوئی  اور فیضی ادھوری خوشیوں کا بوجھ کاندھے پر لاد کر سب کو وفا کا مطلب سمجھاتا پھرے۔۔
یونیورسٹی کے دنوں میں قسمت نے سدرہ سے ملا دیا اس میں تمہیں ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس کو تلاش کر بیٹھا۔۔ شادی ہوگئی  گھر بن گیا, بچے ہوگئے زندگی کو جینے کی وجہ مل گئی  ۔وہ سب مجھے بہت خوش رکھتے ہیں اور خوش دیکھنا چاہتے ہیں مگر نا جانے کیوں اتنی خوشیوں کے باوجود میں اس ایک لمحے کی خوشی کے لئے ہر پل کیوں ترستا رہتا ہوں جس لمحے تم اپنے گلاب سے ہونٹوں سے میرا نام پکارا کرتی تھی۔” فیضی “کتنی محبت اور مروت سے کہتی تھی تم۔ایسے جی چاہتا تھا وہ وقت ٹھہر جائے اور تم اپنے پنکھڑی سے ہونٹوں سے صرف میرا نام پکارتی رہو فقط میرا نام۔۔

تمہیں بھی تو میرے منہ سے “چھمی” سننا کتنا اچھا لگتا تھا۔ تم کہتی تھی فیضی! تم نے بے مول سی سیمی کو چھمی بنا کر بہت قیمتی کر دیا ہے۔چھمی کتنے خوبصورت پل تھے ناں۔۔!! تم پاس ہوتی تھی تو لگتا تھا دنیا جہاں کی دولت میرے پاس ہے۔میں اس وقت سوچتا تھا میرے لئے اس زندگی کو جینے کی صرف ایک ہی وجہ کافی ہے کہ میرے پاس سیمی ہے۔افسوس !

نہ  پاس جینے کی وجہ رہی اور نہ  تم۔۔تم وہ تھی جس کے لئے میں نے کئ ی بار مرنے اور اتنی ہی بار جینے کی کوشش کی مگر تیری قسم ڈھنگ سے نہ  مر پایا اور نہ  ہی جیا گیا۔ زندہ رہنے کی بہت کوشش کرتا ہوں اب تو ایسا لگتا ہے کہ اب ٹھیک سے مر بھی نہیں پاؤں گا۔ مجھے سدرہ سے کوئی  شکوہ نہیں وہ میرا بے حد خیال رکھتی ہے اور اپنے حصے کی محبت کا استحقاق بھی۔کوئی  یہ نہ  سمجھے کہ محبت بدل جاتی ہے۔میرا ماننا ہے محبت تبدیل نہیں ہوتی حالات اور تقاضے ضرور بدل جاتے ہیں۔پہلی محبت زندگی میں ایک خلا سا چھوڑ جاتی ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا۔کوئی  ہنسنے کی کوشش کرتا ہے تو کہتا ہوں کوئی  تیری طرح ہنس کر دیکھائے تو مانوں۔کوئی  روتا ہے تو خود بھی رو پڑتا ہوں اور دل ہی دل میں کہتا ہوں میری چھمی کی طرح کسی سے رویا بھی نہ  گیا۔

جب بھی گاؤں آتا ہوں تو یہاں کی گلیوں سے بازاروں سے,دروں سے دیواروں سے تیری خوشبو اور تیرا لمس محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ان پندرہ سالوں میں کوئی  موقع بھی ایسا نہیں آیا جب میں گاؤں آیا اور تیری آواز کو ڈھونڈنے کی کوشش نہ  کی ہو۔ مجھے ابھی بھی لگتا ہے گلی کی نوکڑ یا اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑے ہوکر تم مجھے پکارو گی اور میں بھاگا بھاگا آکر تم سے لپٹ جاؤں گا۔میں اس وقت بھی گاؤں میں ہوں اور تیری آواز کو سن رہا ہوں۔مجھے ایسا لگتا ہے تم خاموشی سے میرے گھر کا دروازہ کھول رہی ہو اور دبے پاؤں دھیرے دھیرے میرے قریب آکر میرے کان میں کوئی  میٹھی سی سرگوشی کرکے بے اختیار کھلکھلا کر ہنسنے لگتی ہو۔۔اسی طرز کی ہنسی اور قہقہے جنہیں میں مذاق میں سیمی کے وحشیانہ قہقہے کہتا تھا اور تم مجھ سے چڑ جاتی تھی۔۔آہ! ماضی کی بجھی ہوئی  راکھ سے یاد کی چنگاریاں چننا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اتنا مشکل کہ کوئی  مجھ سے پوچھے۔۔اچھے دنوں کی یاد بھی اس وقت اچھی لگتی ہے,جب بُرے دنوں کی پرچھائی  ان پر حالات کے جبر کی سیاہ کالک نہ  مل دے۔۔

میں ان یادوں سے بہت دور بھاگتا ہوں چھمی!بہت دور۔۔ جب ان کے قریب آنے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ سانپ بن کر مجھے ڈسنے لگتی ہیں۔ابھی بھی یہ سب کچھ خود پر جبر کرکے لکھا۔ یہ سب تمہیں بتانے کا مقصد خود کو با وفا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود کہ ماہ و سال حالات و واقعات بدل جاتے ہیں مگر وفا کے کینوس پر محبت کا کیلنڈر کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔کردار مر جاتے ہیں محبتیں کبھی نہیں مرتیں۔ کبھی بھی نہیں!

کل تمہارے بچپن کی سہیلی بانو سے ملنے گیا تھا۔ ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا کہ چھمی کیسی ہے۔۔ ؟
“وہ پہلے چپ رہی اور پھر رونے لگ پڑی۔کہنے لگی تمہاری چھمی ٹھیک نہیں ہے۔۔اس کی بات پر دل بیٹھنے لگا۔ تسلی کے لئے پھر پوچھا۔کیا ہوا چھمی کو۔۔تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو کہ وہ ٹھیک نہیں۔۔”
“کہنے لگی اگر سننا چاہتے ہو تو سنوں۔۔تم نے تو کیا زندگی نے بھی وفا نا کی اس سے۔۔اسے کینسر ہے۔وہ لاہور کے ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔”
چھمی!میری جان۔۔میری ادھوری محبت کا سب سے قیمتی اثاثہ۔۔ میری یادوں کی ملکہ۔۔ ایسا کیوں ہوا۔۔ آخر کیوں۔۔؟

میرے اضطراب کو بیان کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔میں بکھرا پڑا ہوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں صرف جذبات اور احساسات ہیں۔ میں وقت اور قسمت کے اسے اندھے جبر سے لڑ نہیں سکتا اور نہ  ہی جذبات میں آکر چلا کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا۔ میں   ناکارہ، بے وقعت کچھ بھی نہیں کر پاؤں گا کچھ بھی نہیں۔۔ہماری آخری ملاقات کے وقت تم نے ضرور کہا تھا فیضی !میں تمہارے بغیر جی نہیں پاؤں گی۔ میں مر جاؤں گی فیضی میں مر جاؤں گی۔۔میں ایک شکست خوردہ مصلحت پسند عاشق ِنامراد ان لفظوں کے سینے میں چھپے کرب کو ایک لمحے کے لئے بھی جان نا پایا۔ میں یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا سیمی کہ تیری اس حالت کی وجہ میں ہوں مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وجہ میں نہیں۔۔۔

ان بیتے دنوں میں تم اتنی مضبوط اور بہادر بن جاؤ گی کبھی نہیں سوچا تھا۔ان پندرہ سالوں میں تم نے ایک بار بھی گزرے کل کی اس راکھ کو کرید کرید کر اس میں سے لا حاصل محبت کی کسی بجھتی چنگاری کو ڈھونڈنے کی کوشش نہ  کی۔ہاں! میں بھی قصوروار ہوں۔ تمہارے جتنا مضبوط نا سہی پھر بھی بہار رُتوں کی محبت کو خزاں رسیدہ موسم میں تلاشتا رہا۔تمہیں ڈھونڈنے تم سے بات کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر تم اپنی دُھن کی پکی نکلی۔تم خود ہی تو کہا کرتی تھی کہ گئ رُتوں میں جاکر لوٹ کر آنے والے موسم ہوا کرتے ہیں پنچھی نہیں۔کل بانو اور میں تمہیں تمہاری باتوں کو یاد کرکے روئے اور کہیں ہنسے بھی۔جہاں ہنستا تھا وہاں روتے رہے اور جہان رونا تھا وہاں ہنستے رہے۔میں نے نمدیدہ آنکھوں سے بانو سے کہا: میں ایک بار تم سے ملنا چاہتا ہوں۔میں چند پل تمہاری قربت میں بتانا چاہتا ہوں۔ تمہاری پیشانی پر بوسہ دے کر تمہارے بالوں کو سہلانا چاہتا ہوں۔اور ہاں صرف ایک بار فقط ایک بار تمہارے گلاب سے ہونٹوں سے اپنا نام سننا چاہتا ہوں۔” فیضی” تم کتنے پیار سے کہتی تھی مجھے۔۔اتنے پیار سے کہ کچھ لمحے کے لئے عالم تھم سا گیا ہو۔ زندگی رک سی گئی  ہو۔

ہاں! میں تو بھول ہی گیا۔ میں کس حق اور بھرم سے تمہارے پاس آؤں گا۔ آخر لگتا کیا ہوں تمہارا۔میں تو یہ بھول ہی گیا تھا تم اب کسی اور کے آنگن کا پھول ہو۔ تقاضا کرتے نئے رشتوں کو نبھانے کی سعی کرتے ہم ناموس کی چادر سے ڈھکے چہروں والے انسان خود کو بےتوقیر کیوں ہونے دیں۔ مجھے خود بھی ان باتوں کا احساس تھا مگر بانو نے تیری قسم دے کر روک دیا۔ تمہیں یاد ہے ناں ! “تیری قسم “مجھے کسی پاکیزہ صحیفے کی طرح عزیز تھی۔۔”تیری قسم” اب بھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کل بانو اور اس کی ماں تیری عیادت کے لئے آرہے ہیں۔ میں اپنے دل کے زلزلہ زدہ گھر میں ادھر اُدھر بکھری یادوں کو سمیٹ کر تمہیں خط لکھ رہا ہوں۔پندرہ برسوں کی یادوں کا بوجھ کاندھے سے کچھ وقت کے لئے اتارنا چاہتا ہوں۔یہ خط نہیں میری محبت کا نوحہ بھی ہے اور اعتراف جرم بھی۔۔میں یہ خط بانو کے ہاتھ بھیج رہا ہوں۔ میرے یار! جب کوئی  بھی پاس نہ ہو اور بیماری کی تکلیف سے کچھ راحت محسوس ہو تو مجھ بے بس و لاچار پر رحم کرکے میرا یہ آخری خط ضرور پڑھ لینا۔میں خود کو تمہارا مجرم خیال کرتا ہوں۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔ شائد قصور وار ہم دونوں ہیں میں رشتے نبھانے سے بھاگتا رہا اور تم زندگی سے۔خدا تمہیں میری بھی عمر لگائے۔ اور تمہاری ہنسی کی ہمیشہ حفاظت فرمائے۔مجھے یقین ہے میری جان! یہ بیماری تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کیونکہ بیماریوں سے لوگ مرتے ہیں محبتیں نہیں۔۔!!
فقط تمہارا صرف تمہارا
فیضی

Facebook Comments

محمد افضل حیدر
محمد افضل حیدر شعبہء تدریس سے وابستہ ہیں.عرصہ دراز سے کالم , اور افسانہ نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھا رہے ہیں..معاشرے کی نا ہمواریوں اور ریشہ دوانیوں پر دل گرفتہ ہوتے ہیں.. جب گھٹن کا احساس بڑھ جائے تو پھر لکھتے ہیں..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply