• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وہی غم ہیں میری متاعِ فن میرے تجربے میں جو آئے ہیں۔۔رضوانہ سیّد علی

وہی غم ہیں میری متاعِ فن میرے تجربے میں جو آئے ہیں۔۔رضوانہ سیّد علی

ایک انگریزی میڈیم سکول میں مجھے ملازمت ملی تو دیکھا کہ پرنسپل صاحب نے ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ وہاں اردو کا ایک لفظ بولنے کی آزادی نہیں ۔ حتیٰ کہ السلام علیکم بھی کہنے کی اجازت نہیں ۔ جسے کہنا ہے گڈ مارننگ کہے ۔ میرے لئے یہ بات باعثِ پریشانی تھی ۔ چلیے انگریزی کی برکتیں گنوا کر آپ ایک مصنوعی ماحول اور گملوں میں اُگی تہذیب پروان چڑھا رہے ہیں ، چڑھاتے رہیں۔۔ پر بچوں کو سلامتی کی دعائیں لینے اور دینے سے تو محروم نہ رکھیں ۔

پہلے میں نے اساتذہ کو اس طرف متوجہ کیا ۔ وہ سب میری بات سن کر ڈر گئے اور مجھ سے کترانے لگے کیونکہ جہاں مارشل لاء نافذ ہو وہاں انقلابی بہت خطرناک سمجھے جاتے ہیں ۔

سکول میں پرنسپل اور  سٹاف کی ماہانہ میٹنگ ہوئی تو میں نے یہی سوال داغ دیا ۔ جواب میں پرنسپل صاحب نے انگریزی کی برکات پہ ایک طول طویل تقریر کی ۔ جس کا لبِ لباب یہی تھا کہ سلامتی کی دعا ممنوع رہے گی ۔

میں نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ اس سے پہلے کہ کوئی مجھے گڈ مارننگ کہے ، میں خود سلام میں پہل کرتی اور سامنے والے کےپاس وعلیکم السلام کہنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا ۔ حتیٰ کہ پرنسپل صاحب کے پاس بھی ۔ پر ان کی آنکھوں میں شدید غصے ، بے بسی اور جھنجلاہٹ کی کیفیت دیکھنے کے لائق ہوتی ۔ البتہ ان کا بڑا پن یہ تھا کہ انہوں نے اپنی اس کیفیت کو کبھی ایسا بغض و عناد نہیں بننے دیا کہ میری جاب ہی جاتی رہے ۔ چھوٹے موٹے جھٹکے وہ دیتے رہتے تھے ۔

کوئی دو برس اسی طرح بیت گئے ۔ ایک گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد جب سکول کھُلا تو پرانے پرنسپل صاحب کو جبری چھٹی دی جا چکی تھی اور ان کی جگہ ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ براجمان تھے ۔ انہوں نے ایک ہفتے تک تمام معاملات کا جائزہ لیا اور پھر ایک صبح دعا کے وقت اپنا پہلا خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلی بات یہ کہی کہ میں جس جماعت میں گیا ہوں اور جس شخص سے بھی ملا ہوں ۔ مجھے گڈ مارننگ سننے کو ملا ہے ۔ میری درخواست ہے کہ آپ لوگ انگریزی ضرور بولیں مگر اپنی تہذیب کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور سلام کو رواج دیں ۔ پل بھر میں ماحول ہی بدل گیا ۔ جو سامنے پڑا ۔ ”السلام علیکم ” جس کلاس کے پاس سے گزرو ۔ بچے باجماعت کہہ رہے ہیں ۔ السلام علیکم ”

Advertisements
julia rana solicitors london

اس روز یہ بات سمجھ آئی کہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا کہا جا رہا ہے ۔ یہ دیکھتے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے ۔
اور اس ملک میں مسئلہ یہی ہے کہ جن کی بات میں وزن نہیں وہ بے تحاشا بول رہے ہیں اور جن کی ماشہ بھر زبان ہلتے ہی بہت کچھ ہو سکتا ہے ، وہ منہ میں گھنگنیاں بھرے بیٹھے رہتے ہیں ۔
نہ شکستہ حرف ہیں اجنبی ، نہ فگار لفظ پرائے ہیں
وہی غم ہیں میری متاعِ فن ، میرے تجربے میں جو آئے ہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply