ملنگ شلنگ۔۔سلیم مرزا

بقول فرح خاں ،سرائیکی اتنی میٹھی زبان ہے کہ کسی کو پاگل کہنا ہو تو “سئیں، تسی وی بادشاہ ای او “کہہ کر کام چلا لیتے ہیں، اس بیچاری کو یہ نہیں معلوم کہ لاہور میں صرف “سائیں “کہہ کر اس اعزاز سے نوازا جاسکتا ہے ۔

سرائیکی بہرحال نکلے سیانے ۔۔انہوں نے سائیں لاہور بھیج کر اسے بادشاہ ثابت کیا ۔اور لاہور والے ڈیڑھ سال سے اسے سائیں ثابت نہیں کرپائے ۔
آج پنجاب کا، ہر محکمہ سائیں سائیں کر رہا ہے کیونکہ سائیں بادشاہ ہے اور بادشاہ سائیں ہے ۔
ویسے لاہوریئے بادشاہ اسے بھی کہتے ہیں جو مسائل کا سامنا نہ کر پائے اور کسی بھی بڑے مسئلے کو دیکھ کر لیٹ ہی جائے۔جیسے ابھی ن لیگ نے آرمی ایکٹ پہ لیٹ کر ثابت کیا ہے کہ “اسیں وی بادشاہ ای آں ”
عمران کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے ایک درویش کو درپیش مسائل میں جھونک رکھا ہے ۔
پنجاب حکومت کب کی جاچکی ہوتی، اگر اس کے پیچھے موکلات کی طاقت نہ ہوتی ۔
عوام کو یاد نہیں رہتا ،گیارہ سال لگے ضیاءالحق کی شریعت کو سمجھنے میں ۔اب ڈیڑھ سال میں طریقت کیسے سمجھیں گے۔غور نہیں کرتے کہ اب حکومت فقرا ء اور نانگے پیر چلا رہے ہیں ۔
یاد نہیں ابھی کل تک مرشد کے ارشادات سے ملک چل رہا تھا،اور وہ پہنچے ہوئے مجذوب ہیں جو چینلوں پہ بوٹو بوٹ ہو رہے ہیں ۔
عوام فاقہ کشی سے تصوف کے مراحل طے کر رہے ہیں۔اجتماعی روحانیت اس درجہ پہ سرفراز ہے کہ جنرل سرفراز تک نظر آرہا ہے۔
اب اس کی استعداد بڑھانے کو اسے نصاب کا حصہ بنایا جارہا ہے ۔یقین نہ آئے تو دیکھ لیجیے نیب کے زیر ِ سایہ چلہ کشی کرتی اپوزیشن نے بھی وحدت الوجود کے راز کو پالیا ۔

کامران خاں سے ایک دوست نے ان باکس میں پوچھا کہ یہ تصوف کیا ہوتا ہے؟
انہوں نے عرض کیا تصوف ہر اس بیماری کا علاج ہے جو اصل نہیں ہوتی،اور جو اصل میں بیماری ہوتی ہے وہی روحانیت کے اختیار میں نہیں ہوتی ۔اس کیلئے درویش اترتے ہیں ۔

معرفت اب اس درجہ کمال پہ جا پہنچی ہے کہ بیورو کریسی بھی ان سیاسی ملنگوں مجذوبوں اور نانگے پیروں کو منہ نہیں لگاتی ۔اس کیلئے ہر محکمے میں ایک مرشد کی تعیناتی اس بات کی غماز ہے کہ جہاں وٹس ایپ کے تعویز کی کرامت نہ پہنچے وہاں محکمہ جاتی جھاڑ پونچھ ترنت کر لی جائے ۔۔۔تاکہ عوام کے بچے کھچے جن اتارے جا سکیں ۔

ہمارے ایک چوھدری صاحب مجھے اورر ڈاکٹر منور کو لیکر کہیں دعوت پہ جارہے تھے ۔میزبان نے فون کرکے پوچھا
“کون کون آرہا ہے “؟
چوہدری صاحب نے جواب دیا ” میں اور میرے ملنگ شلنگ ”
میں نے ڈاکٹر منور سے کہا
“میں تو ہوگیا ملنگ، اب رہ گیا شلنگ تووہ تم ہو ”
ڈاکٹر ناراض ہوگیا ۔تو میری حکومت سے درخواست ہے کہ اپنے ملنگوں کو بے شک نوازیں ۔
مگر یہ بھی سوچ لیں کچھ شلنگ بھی ہیں ۔
اور وہ ناراض بھی ہو جاتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply