• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • استنبول!تجھے بُھلا نہ سکوں گا(سفرنامہ)۔۔۔قسط4/پروفیسر حکیم سید صابر علی

استنبول!تجھے بُھلا نہ سکوں گا(سفرنامہ)۔۔۔قسط4/پروفیسر حکیم سید صابر علی

گزشتہ قسط:

خاصی کشادہ جگہ میں خوبصورت فرشی گاؤ تکیے اور بعض جگہ آرام دہ صوفے اور کرسیاں رکھی گئی تھیں،حُقے سے لطف اندوز ہونے کے لیے خوبصورت شیشے کے حُقے جن پر قدرے بڑی ٹوپیاں تھیں،کچھ نوجوان حُقے کی ٹوپیوں میں نشہ آور پُرکیف،قدرے خوشبودار”مواد”تمباکو کی جگہ بھرتے اور ان پر مخصوص ورق چڑھا کر ان پر دہکتے کوئلے رکھ کر ان لوگوں کے سامنے رکھتے،سینکڑوں افراد حپقے کی نے منہ لگا کر گُرگُڑ کرتے اور ہوامیں د ھوئیں کے مرغولے چھوڑتے۔۔حقہ لانے والوں کی مٹھی گرم کرتے اور عالمِ وجد میں عالمِ بالا سے رابطہ جوڑتے نظر آتے،ساتھ ہی ساتھ کافی مختلف قہوے اور چائے کی چُسکیوں سے بھی لُطف اندوز ہوتے۔۔
محسوس ہوا کہ پاکستان کی طرح ترکی میں بھی شیشہ پینے والے تیزی سے بڑھ رہے ہیں،اللہ تعالی اُمت پر رحم فرمائیں۔۔
کچھ دیر یہ نظارہ کیا،اپنی نئی نسل کی بربادی کے ساماں کو دیکھا کیے،اور سردی سے بچنے کے لیے ہوٹل کا رُخ کیا،ہوٹل انتظامیہ میں نوجوان بچیوں کو کام کرتے دیکھا تو یورپ کی جھلک محسوس کی،اگرچہ اب پاکستان کے تمام اداروں،ہوٹلوں،بینکوں،تعلیمی اداروں،ریلوے سٹیشن،اور دیگر اداروں میں بھی مشرف دور کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔

نئی قسط:
ہوٹل سے کچھ فاصلے پرمختلف اطراف میں دو مساجد تھیں،ارادہ کیا کہ فجر کی نماز مسجد میں ادا کی جائے،کافی چڑھائی اوراترائی کے بعد ایک مسجد کی طرف روانہ ہوا،لیکن دکھ اور حیرت ہوئی کہ آوارہ کُتے یہاں بھی گلیوں میں قبضہ کیے ہوئے ہیں۔سہمے سہمے کچھ دیر بعد مقامی لوگوں کے تعاون سے مسجد میں پہنچا،معلوم ہوا کہ فجر کی نماز کے وقت مسجد میں وہ رونق نہیں،جو ایک مسلم ملک میں ہونی چاہیے،واپس آیا تو معلوم ہوا کہ آج ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ہوٹل انتظامیہ کی طرف سے ہوگا،البتہ شام کا کھانا مسافروں کی اپنی صوابدید پر ہے۔ صبح ناشتے میں انواع و اقسام کی نعمتیں موجود تھیں،انڈے،مکھن،پنیر،زیتون،انجیر،ڈبل روٹی،پراٹھے،مختلف اقسام کی بیکری مصنوعات،جام،اچار،حلوہ،کسٹرڈ،کئی قسم کے پھل،چائے،کافی،دودھ،لسّی،قہوہ،غرض یہ کہ ایک عام آدمی کے لیے یہ چناؤ مشکل تھا کہ کن نعمتوں پر ہاتھ صاف کرے،اور کون سی چھوڑدے،فباای الا ای ربکما تکذبان

استنبول کے بارے کچھ۔۔۔
ناشتے کے بعدایک دس بجے تک لاؤنج میں سارے گروپ کو جمع ہونے کی تلقین کی گئی،مقامی سیاحت کا پیدل اہتمام کیا گیا تھا۔ہمیں ایک گائیڈ john،جس کاتعلق ازمیر سے تھا،مہیا کیا گیا۔پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد مشہور مسجد بblue mosqueنیلی مسجد کے عقب میں پہنچے،پتھروں کا ایک بلند ٹاور قدیم تہذیب کی یاد دلاتا ہے،اُس سے کچھ فاصلے پر ایک ٹاورجو 25میٹر
بلندہے،جس کا نام snachead column بتایا گیا،اسی کا سر جو سانپ کے پَھن کی طرح تھا،ٹوٹ چکا ہے،پورے ستون پر مختلفجانوروں اور پرندوں کی تصاویر کندہ ہیں اوپر کا حصہ گرینائٹ کا ہے،یہ ٹاور مصری فن تعمیر کا شاہکار ہے،کب تراشا گیا؟۔۔۔معلوم نہیں،150قبل مسیح کا تراشا ہوا ہے،اس ٹاور کی خوبی یہ ہے کہ اتنا بڑا ٹاور ایک ہی پتھر کا بنا ہوا ہے،کیسے تراشا گیااور کِن انسانوں نے تراشا،عقل احاطہ نہیں کرسکتی۔۔۔البتہ ترکی کے ابتدائی دور کے عروج میں اسکندریہ مصر سے بحری جہاز کے ذریعے یہاں لایا گیا،یہ فن تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔

گائیڈ نے بتایا کہ یہ شہر رومی دور میں آباد کیا گیا تھا،رومی اسے دنیا کا وسط کہتے تھے،مشرق و مغرب کی اُس وقت کی آباد دنیا میں یہ وسط میں سمجھا جاتا تھا،بعد ازاں یہ قسطنطنیہ کے نام سے مشہور ہوا،تاریخ میں یہ new romeبھی کہلایا،،استنبول کے لفظی معنی ترک زبان میں آرام دہ جگہ کے ہیں۔امن و سکون کی جگہ،ایک دور میں یہcentral cityبھی کہلایا،
اتاترک نے اس کا سرکاری نام استنبول رکھا،استنبول کی آبادی 1911 میں صرف دس ہزار تھی۔اب اس کی آبادی 20ملین سے زیادہ ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ اس شہر کی سہولیات،موسمی آب و ہوا،اور ترقی کی وجہ سے لوگوں کا اس شہر میں آبادی کا رجحان اسی طرح بڑھا ہے جیسے پاکستان میں اسلام آباد میں آبادی کا رجحان بڑھا ہے۔
تاہم اس شہر میں آباد ملک بھر کے باشندوں پر ایک آئینی پابندی ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے لیے ووٹ اپنے ہی حلقہ ء انتخاب سے دے سکتے ہیں۔استنبول ان دوعہدوں کے لیے صرف وہی وٹ دے سکتا ہے جس کے آباؤ اجداد یہاں کے رہنے والے ہوں،اور ان کا ووٹ کا آئین کے مطابق یہاں بنا ہو۔۔
جدید جغرافیائی تقسیم کے مطابق یہ ملک رومی نظریہ کے مطابق آج بھی دنیا کے مشرق و مغرب کے وسط میں ہے،یہی وجہ ہے کہ ترکی کے موجودہ حکمرانوں نے ہوائی سفر کے لیے ایک ایشیائی جدید عمرہ،تمام سہولتوں سے مزین ائیر پورٹ تعمیر کردیا ہے،جہاں سینکڑوں ہوائی جہاز روزانہ رُکتے ہیں،ٹرکش ائیرلائن نے سیاحوں میں کشش پیدا کرنے کیلیے مراعات کا اعلان کررکھا ہے۔آج ترکی کی سیاحوں کی آمدورفت سے کروڑوں ڈالر سالانہ کما رہا ہے۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply