خالو جی۔۔بنتِ سعید

ٹھک، ٹھک، ٹھک چمچماتی دوپہر میں لاٹھی کی آواز سے میرا ماتھا ٹھنکہ، ضرور خالو جی ہوں گے میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا، امی، کیا ہے اتنی گرمی میں بھی انکو آرام نہیں ہے میں نے مزید منہ بسورتے ہوئے کہا۔ بیٹا بہت بد تہذیبی ہے۔ مہمان کو ایسے کہتے ہیں امی نے مجھے غصہ سے دیکھا ۔ اچھا ٹھیک ہے نا، یہ بھی تو روز آجاتے ہیں میں نے بہت بیزاری سے کہہ کے اپنی کتاب بند کی جو اچھا اتوار گذارنے کے لیے میں نے لائبریری سے بڑی مشکل سے ایشو کروائی تھی۔ بیٹا اکیلے ہیں تو اس لیے وقت گزرنے کے لیے آجاتے ہیں امی نے مجھے سمجھایا۔

فرقان اب جاؤاور دروازہ کھولو وہ بیچارے سخت گرمی میں باہر کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے کسلمندی سے بستر چھوڑ ا اور دروازے پر جا کے انتہائی بےزاری سے خالو جی کو سلام کیا۔ انہوں نے میری آواز میں چھپی بیزاری کو نظر انداز کیا اور گرمی سے ہانپتے ہوئے بڑی شفیق آواز میں سلام کا جواب دیا اور ایک پھل سے بھرا شاپر مجھے تھما دیا۔،میں نے اچٹتی سی نگاہ شاپر پر ڈال کر اسکو ٹیبل پر رکھ کر کمرے میں آگیا، جہاں خالو جی اب تیز پنکھے کے نیچے بیٹھےاپنی جیب سے رومال نکال کر پسینہ پونچھنے میں مصروف تھے اتنے میں امی پانی لے کر سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتے اندر داخل ہوئیں، سلام کرکے خیریت دریافت کی اور پانی کا گلاس خالو جی کو تھماتےہوئے سامنے رکھے پھلوں کے لفافے کو دیکھا، جو پنکھے کی ہوا سے مسلسل شور پیدا کر رہا تھا۔ خالو جی کیوں زحمت کرتے ہیں آپ اتنی گرمی میں دوکان پر کھڑے ہو کر پھل خریدتے ہیں۔ اور پھر آپکو اٹھا کر لانے میں بھی زحمت ہوتی ہے مت کیا کریں، امی نے بہت اپنائیت سے کہا۔ لو بھئی زحمت کیسی میں تو فرقان کے لیے لاتا ہوں یہ بہت شوق سے کھاتا ہے نا، انہوں نے محبت سے مجھے دیکھا اور میں نے بھی چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ سجائی اور باہر نکل گیا۔ خالو جی بھی بیڈ پر سستانے کی غرض سے لیٹ گئے۔ اور امی کھانا بنانے میں مصروف ہو گئیں۔

خالو جی بہت ادھیڑ عمر کے تھے۔ امی کی خالہ نے بچپن سے امی کو اپنی بیٹی کی طرح پیار دیا، اسکی وجہ یہ بھی تھی کہ انکی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اور امی کی شادی کے بعد ہم بچوں سے بھی انکو خاصی انسیت تھی۔کچھ عرصہ پہلے جب خالہ خالو جی کو دار مفارقت دے گئیں اور خالو جی قید تنہائی کاٹنے لگے تو ہم بچوں سے محبت ان کو ہم سے الگ نہ کر سکی۔ اور خالہ کے جانے کے بعد بھی وہ ہم سے تعلق توڑ نہ سکے۔ گورنمنٹ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی مصروفیات نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً ہر ہفتے ہی ہمارے گھر کا چکر لگا لیتے تھے۔ میں چونکہ سب سے بڑا تھا اور امی کے مطابق خالو اور خالہ نے مجھ سے زیادہ پیار کیا تھا اور اس لیے میرے سے خاص رغبت بھی تھی۔ بہت عمر ہو جانے اور کمزوری اور نقاہت کے باعث خالو جی سے بغیر لاٹھی چلا بھی نہیں جاتا تھا مگر پھر بھی ہانپتے کانپتے میرے لئے لازمی کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آتے تھے۔ پہلے پہل تو سب بہت اچھا لگا کرتا تھا مگر پھر آہستہ آہستہ انکا مسلسل آنا ہم سب کو کھٹکنے لگا۔

اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی، ہمارا گھر کافی چھوٹا تھا دوسرا وہ ہمیشہ ہم بہن بھائیوں کے کمرے میں ہی پورا اتوار کا دن گزارتے تھے،اور وہیں آرام کرتے تھے اس لیے ہر ویک اینڈ پر ہمارا ٹی وی دیکھنا اور آرام کرنا نا گزیر ہو جاتا۔ اس لیے ہر ہفتے انکا آنا انتہائی کوفت کا باعث بن جاتا۔ اسکے علاوہ ہمارے خراب موڈ اور اوازار رویے بھی ان کو آنے سے نہ روک سکے۔ ایک بار تو با با نے بھی اماں سے کہہ دیا کہ خالو جی تو بہت آنے لگے ہیں اس دن اماں تھوڑا پریشان ہوئیں مگر کچھ کہہ نہیں سکیں۔ مگر ہمیں کہتیں ،تنہائی بہت بری چیز ہے اسکو ختم کرنے آتے ہیں اسکو وہی جانتا ہے جو اس سے گزرتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا کہ خالو جی ایسی جگہ کیوں آتے ہیں جہاں انکا کوئی منتظر نہیں ہے۔ اکثر انکو امی کو کہتے سنا میں نے ثریا بیٹا صرف ان بچوں کی آوازیں سننے کو آتا ہوں۔ جو گھر پکے سامنے رکھ دیا کرو کچھ بھی تکلف کرنے کو منع کر دیتے۔ پھر یوں ہوا کہ بہت عرصہ وہ نہیں آئے۔ پتا چلا بہت بیمار ہیں اور ہسپتال میں ہیں۔ امی فوراً گئیں، بہت تیمارداری کی، کچھ دنوں بعد وہ دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

اس دوران میرا دبئی کا ویزہ لگا میں دیار غیر آ گیا۔ شروع میں سب ٹھیک رہا پھر آہستہ آہستہ اپنوں کی یاد ستانے لگی۔ جاب سے واپس آکے بڑا اداس ہوتا۔ خود کو بہت مصروف کرلینے کے باوجود بھی دن نہیں کٹتا تھا۔ اسی دوران جاب میں کچھ تغیرات آئے اور مجھے چند مہینے ایک کمرے میں گزار کر وہاں سے کام کرناپڑا۔ اور تب مجھے صحیح معنوں میں احساس ہوا اصل میں تنہائی کیا ہے۔؟ جب آپ ایسے لوگوں میں رہیں جہاں حال احوال سب پوچھیں مگر آپ سے دکھ سکھ کرنے والا کوئی نہیں، جہاں لوگ بہت ہوں مگررشتوں کی کمی ہو۔ جہاں ساتھ سب دیں مگر کندھا دینے والا کوئی نہ ہو تو وہاں پر احساس ہوتا ہے اپنوں کا جتنا ساتھ رہنا ضروری ہے اتنا ساتھ ہونے کا احساس دلانا بھی ضروری ہے۔ اور یہ کسی حد تک آپکی روز کی ضرورت بن جاتی ہے۔ اس وقت مجھے خالو جی کے جذبات سمجھ آنے لگے، کہ کیوں وہ ہمارے اوازار لہجے بھی نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ اگر ہر ہفتےآجاتے ہوں گے تو انکی تنہائی انکی عزت نفس کو مات دے دیتی ہو گی اور بالآخراپنی قید اور عزت کی جنگ میں عزت کو شکست دے دیتے ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تنہائی کا احساس ہمیشہ اسکو ہوگا جو اس تلخ تجربہ سے گزرے گا۔ کچھ پل کسی اپنے کا ساتھ یا صرف اسکے ساتھ کے کچھ لمحے تنہائی میں آکسیجن کا کام کرتے ہیں۔ کوئی ایسا شخص جسکو آپ نہیں جانتے مگر آپکو دیار غیر میں مل جائے تو آپ اسکو دیکھ کر کھل اٹھتے ہیں اپنی تمام تر اپنائیت اس پر انڈیلنے کو تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ تنہائی کو شکست دینے کا یہی واحد ہتھیار ہوتا ہے۔
اپنے ارد گرد اپنوں کی تنہائی کو سمجھنے کی کوشش کریں ، اس جنگ میں اُن کا ساتھ دے کر فاتح بنائیں۔ اور اپنے ساتھ ہونے کا احساس دلاتے رہیں۔ اپنی مسکراہٹ سے انکی زندگی کے کچھ پل خوبصورت بنانے کی کوشش کریں یہ بھی صدقہ جاریہ ہے، بڑوں کی قربت حاصل کریں۔ آسانیاں بانٹتے رہیں یہی ہماری معاشرت اور دین کا حسن ہے۔
تنہا رہنے والے اپنے دوست احباب کیساتھ تعلق قائم رکھیں۔ کچھ پل ان سے بات کر کے انکا حال پوچھنے کی عادت ڈالیں اس سے آپکی نیکیوں میں اضافہ ہو گا اور صلہ رحمی بھی ہوگی۔
اپنے آس پاس کے خالو جی پہچاننے اور انکے اکیلے پن کو دور کرنے میں حصہ دار بنیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply