• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شہریت ترمیمی قانون: سوالات اور تاریخ کے آئینے۔۔عبد الرحمن عالمگیر

شہریت ترمیمی قانون: سوالات اور تاریخ کے آئینے۔۔عبد الرحمن عالمگیر

آج وطنِ عزیز جس بحران سے گزر رہا ہے وہ تاریخِ ہند کا شدید ترین بحران ہے۔ چاہے وہ بحران سماجی حیثیت سے ہو یا معاشی اعتبار سے ہو، چاہے اس کا تعلق مذہبی و مسلکی شدت پسندی سے ہو یا دستورِ ہند کی پامالی سے ،ہو غرض ہمارا ملک چوطرفہ یلغار سے گِھرا ہوا ہے۔ یہ ملک جس کی بنیاد سیکولر و غیر مذہبی تھی اسے ایک مخصوص رنگ میں رنگنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک میں جس چیز کو سب سے زیادہ بالادستی حاصل ہے وہ یہاں کا آئین و دستور ہے جس میں برسرِ اقتدار پارٹی اپنے بھگوا نظریہ کے مطابق ترمیم کرنے کی ناروا کوشش کر رہی ہے۔ روز بروز اپنی اکثریت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے نئے قوانین لا رہی ہے۔ دفعہ 370 کا خاتمہ، طلاق ثلاثہ پر پابندی اور اب سی اے اے شہریت ترمیمی قانون اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اس نئے قانون کے تحت کوئی بھی ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائی اگر افغانستان بنگلہ دیش یا پاکستان سے 31 دسمبر 2014 سے پہلے پہلے ہندوستان آیا ہوگا تو اسے یہاں کی شہریت دی جائے گی۔ اس نئے قانون کے پارلیمنٹ سے پاس ہوجانے کے بعد باشندگانِ وطن کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات  جنم لے رہے ہیں  ۔ جن میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے ۔۔

1۔ 6 مذاہب کا تذکرہ کرنے کے بعد صرف مسلمان ہی کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ کیا یہ مذہبی تفریق نہیں ہے؟ یہ ایک ہی ملک کے باشندوں کے ساتھ دوہرا رویہ نہیں ہے؟
2۔ تین پڑوسی ممالک کے علاوہ اور بھی کئی ممالک ہیں ان کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ نیپال، بھوٹان، سری لنکا، برما اور چین کو کیوں نہیں شامل کیا گیا؟ وہاں کی مظلوم اقلیت کی حمایت کیوں نہیں کی گئی جن پر آئے دن مذہب کے نام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں؟ کیوں کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون اس لیے لایا گیا ہے تاکہ دوسرے قریبی ممالک میں مذہبی بنیاد پر ستائے جا رہے افراد کو پناہ دی جائے اور ان کو باعزت شہری بنایا جائے۔ کیا مذہب کی وجہ سے صرف انہی تین ممالک میں ظلم و ستم ہوتا ہے؟ کیا ان تینوں دیشوں میں مسلمان نسلی، زبانی، علاقائی اور مسلکی عتاب کا شکار نہیں ہوتے ہیں؟ اگر وہ وہاں امن و سکون کے ساتھ ہیں تو پھر وہ کیوں سرحد کی دشواریوں کو جھیل کر ہمارے ملک آتے ہیں؟
3۔ وزیر داخلہ کے اعلان کے بموجب این آر سی کے ذریعہ ہندوستان کے تمام “گھس بیٹھیوں” کو باہر نکالا جائے گا۔ چنانچہ ان دراندازوں کے مذہب سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہر ایک غیر قانونی در انداز “گھس پیٹھی” ہے چاہے وہ ہندو ہو، سکھ ہو، بدھسٹ ہو، جین ہو، پارسی ہو، عیسائی ہو، یا مسلمان ہو۔ تمام کے ساتھ یکساں معاملہ ہونا چاہیے۔ ورنہ یہ روش ہمارے ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک ثابت ہوگی ۔ کیا حکومت اس قانون کے ذریعے  غیر مسلموں کو شرنارتھی اور اپنے ہم وطن مسلموں کو گھس پیٹھی قرار دے کر مظالم ڈھانا چاہتی ہے؟ اپنے گھر کے لوگوں کو بے گھر اور غیر ملکی جاسوسوں کو تخریب کاری کے لیے راہیں ہموار کر رہی ہے؟
4۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ انڈیا کے مسلمانوں کو اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قانون شہریت دینے کے لیے لایا گیا ہے نا کہ شہریت چھیننے کے لیے۔ مگر جب ہم اس کو این پی آر اور این آر سی سے ملا کر دیکھتے ہیں تو اس کے پیچھے ہندوتوا کی زعفرانی سوچ واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ جو ان حیلے بہانوں کے ذریعہ غیر علانیہ ہندو راشٹر کے ایجنڈے کو دستوری شکل دینا چاہتی ہے۔ پہلے سی اے اے سے غیر ملکی ہندوؤں کو شہریت دی جائے گی۔ پھر این آر سی آئے گا۔ جن کا اس رجسٹر میں نام آگیا وہ وطن کے شہری ٹھہریں گے، لیکن جس کا نام اس میں نہ آ سکا اور وہ مذکورہ چھ دھرموں میں سے کسی ایک کا پیروکار ہے تو اس کو اُسی سی اے اے سے سیفٹی گارڈ فراہم کیا جائے گا۔ چنانچہ جن کا نام این آر سی میں آگیا اور جن کو سی اے اے سے پروٹیکشن مل گئی وہ محفوظ ہوں گے۔ لیکن جن مسلمانوں کا این آر سی میں نام شامل نہ ہو سکا ان کا کیا ہوگا؟ ڈیٹینشن سینٹر یا ملک بدر؟ ان کا مسئلہ کون سلجھائے گا؟

اس کرونولوجی کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں:
ایک کشتی ہے جس میں بہت سارے لوگ سوار ہیں جن میں سے کچھ کے پاس ٹکٹ ہے اور کچھ کے پاس نہیں ہے۔ جب ان کے ٹکٹ کی تفتیش ہوتی ہے تو جن کے پاس ٹکٹ ہوتا ہے ان کو کشتی پر رہنے دیا جاتا ہے اور جن کے پاس ٹکٹ نہیں ہوتا ہے ان میں سے چند کو لائف جیکٹ فراہم کر دیاجاتا ہے جس سے وہ بچ جاتے ہیں۔ لیکن بقیہ لوگوں کو یوں ہی حوادثِ زمانہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انصاف تو یہ تھا کہ بغیر ٹکٹ سوار ہونے والے تمام اشخاص کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جاتا، مگر اس بیچ عصبیت کی دیوار حائل ہے۔ چنانچہ  وہ کشتی ہندوستان ہے۔ اس کے سوار ہندوستان کے باشندے ہیں۔ جن کے پاس ٹکٹ ہے۔ ان کا نام این آر سی میں آجاتا ہے اور جن کو لائف جیکٹ دی  جاتی  ہے وہ مذکورہ چھ مذاہب کے پیروکار ہیں اور جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں، وہ بیچارہ مسلمان ہے۔ یہ ہے اس کالے قانون کی حقیقت۔ ہمارا ملک کس رخ پر جا رہا ہے؟ جس کی بنیاد تمام مذاہب عالم کے ساتھ رواداری اور عدل و انصاف پر رکھی گئی ہو۔ کیا اس کا یہ طرز عمل درست ہے؟ جس ملک کے دستور کی تمہید یہ ہو کہ WE, THE PEOPLE OF INDIA, having solemnly resolved to constitute India into a SOVEREIGN SOCIALIST SECULAR DEMOCRATIC REPUBLIC and to secure to all its citizens JUSTICE, social, economic and political; LIBERTY of thought, expression, belief, faith and worship; EQUALITY of status and of opportunity; and to promote among them all FRATERNITY assuring the dignity of the individual and the unity and integrity of the Nation;
ہم بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو مقتدر، سماج وادی، سیکولر، عوامی جمہوریہ بنائیں اور اس کے تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، اور سیاسی انصاف،اظہار رائے، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی،حیثیت اور مواقع کی مساوات حاصل کریں اور سب کو اخوت میں ترقی دیں، فرد کے وقار، قوم کی یکجہتی اور سالمیت کو یقینی بنائیں۔ کیا ایسے ملک کو روا دیتا ہے کہ وہ وہاں کے باشندوں کے درمیان مذہبی و انسانی تفریق کرے؟
5۔ جس پارٹی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو یہ کہتے ہوئے ختم کیا تھا کہ ایک ملک ایک قانون، جس امت شاہ نے ہندی دِوَس کے موقع پر خواہش کی  تھی  کہ ایک دیش ایک بھاشا اور جس نے یونیفارم سول کوڈ کی حمایت میں ایک بھارت ایک آئین کا نعرہ بلند کیا تھا وہی آج شہریت ترمیمی ایکٹ کے وقت کیوں ایک ملک ایک دستور کو فراموش کر رہی  ہے؟ کیوں آرٹیکل 15 اور دفعہ 25 کی مخالفت کر رہی ہے؟
6۔ حکومت کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ نیا قانون دوسرے ممالک سے غیر قانونی طور پر آنے والے لوگوں کو روکنے کے لیے لایا گیا ہے جب کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت کے 640 میں 500 سے زیادہ اضلاع میں غیر دستوری طور پر دراندازی کی شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے اگر آپ دوسروں کو اپنے ملک میں پناہ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو ان کی رہائش، روزگار، علاج اور معالجہ اور ان کے بچوں کی تعلیم کا بھی انتظام کرنا ہوگا۔ آخر یہ سب کون کرے گا؟ مزید یہ کہ یہ کام ایسی صورت میں کرنا ہوگا جب کہ ملک کی جی ڈی پی کی شرح خستہ حالی کا شکار ہے، ملک میں 45 سال میں سب سے زیادہ بے روزگاری ہے، پورا ہندوستان معاشی و اقتصادی پریشانیوں سے جوجھ رہا ہے اور تعلیمی اداروں کی قلت ہے۔
7۔ اس قانون کے جاری ہونے کے بعد ہر ہندوستانی کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی، اس کے لیے ابھی تک حکومت نے کوئی مستقل پیمانہ متعین نہیں کیا ہے البتہ بعض لوگ آسام میں لاگو ہونے والے این آر سی کے قوانین سے اس کا موازنہ کر رہے ہیں واضح ہو کہ آسام کا مسئلہ کچھ الگ تھا۔ ضروری نہیں ہے کہ جب پورے ہندوستان میں این آر سی لاگو کیا جائے تو وہی ضابطے اپنائے جائیں جو آسام میں اختیار کیے گئے تھے کیوں کہ آسام میں قومیت کی لڑائی تھی وہاں آسامیت و غیر آسامیت کا معاملہ تھا۔ آسام میں دوسرے غیر آسامی کے آباد ہو جانے کی وجہ سے آزادی کے بعد ہی سے احتجاج  و مظاہرے ہو رہے تھے۔ پھر مشرقی و مغربی پاکستان کی تقسیم کے وقت وہاں سے کافی ہندو و مسلم ہجرت کرکے ہندوستان آگئے تو یہ آندولن مزید شدت اختیار کرگیا اور غیر آسامیوں کو نکالنے کی لڑائی غیر ملکیوں کو خارج کرنے کے بکھیڑے میں تبدیل ہوگئی۔ لیکن اس وقت مرکزی حکومت نے ان مظاہروں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، جب کہ اُس سال ووٹر لسٹ میں اچانک غیر معمولی اضافہ بھی ہوا بالآخر 1985 میں راجیو گاندھی نے بلاتفریق مذہب و ملت غیر ملکیوں کو باہر نکالنے کی بات کی۔ پھر رفتہ رفتہ مشکوک باشندوں کے ووٹر آئی ڈی کارڈ میں نام کے آگے “ڈی” کا نشان لگایا گیا۔ این آر سی کی کارروائی شروع ہوئی جس کا آخری نتیجہ 21 اگست 2019 کو منظر عام پر آیا۔ اگر ہم اس تناظر میں دیکھیں تو آسام کی طرح پورے بھارت میں این آر سی کی ضرورت نہیں ہے۔ بالفرض حکومت کو آسام کی طرح پورے انڈیا میں در اندازی کا خطرہ ہے۔ پھر بھی آسام کے بالمقابل گھس پیٹھیوں کی تعداد دوسری جگہوں پر نہ ہونے  کے برابر ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق 640 اضلاع میں سے 500 سے زیادہ اضلاع میں غیر دستوری در اندازی کی شرح %0.5 سے بھی کم ہے۔ اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ پورے ملک میں آسام جیسی این آر سی کی حاجت نہیں ہے۔ نہ  ہی ہندوستان کی پہلی مردم شماری 1951 یا بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی 25 مارچ 1971 تک کے دستاویزات کو ہندوستانی شہریت کی بنیاد بنانا ہرگز درست نہیں ہے۔ البتہ فرقہ پرست حکومت کی بدنیتی کا کوئی ٹھکانہ نہیں کیوں کہ وہ سی اے اے پَلَس این آر سی کو اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔
8۔ اگر آسام میں لاگو ہونے والے این آر سی ظابطے کو پورے ہند واسیوں پر نافذ کر دیا جائے اور دستاویزات طلب کیے جائیں تو یہ ان کے لیے نہایت مشکل ترین امر ثابت ہوگا۔ کیوں کہ تیس سال سے زائد عمر کے کروڑوں لوگوں کے پاس اپنی پیدائشی سند نہیں ہوگی۔ باشندگانِ وطن کے ایک بڑے گروہ کو کبھی ان کاغذات کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی ہوگی جس وجہ سے انہوں نے یہ دستاویزات بنوانے پر توجہ نہیں دی ہوگی۔ مزید برآں 30 کروڑ لوگوں کے پاس کوئی زمین ہی نہیں ہے۔ 170 لاکھ بے گھر ہیں۔ لاکھوں لوگ ناخواندہ ہیں خصوصاً 1970 کی دہائی میں ناخواندگی کی شرح اور بھی زیادہ تھی۔ پھر یہ لوگ کیسے اپنی شہریت ثابت کریں گے؟ کون سے دستاویز دکھائیں گے؟
ان تمام سوالات اور خدشات کے باوجود این آر سی کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں ہے بلکہ تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں ظالم و جابر حکمرانوں کی طرف سے اس طرح کے ظلم پر مبنی قوانین نافذ کیے گئے اور انہوں نے اپنے مخالفین کو ملک بدر اور جلا وطن کرنے کے لیے ان حربوں کو استعمال کیا۔ یہ نئی شہریتی قانون بھی اسی تاریخی کشمکش کا نتیجہ ہے “وتِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاس”(ِ سورة آل عمران: 140)
ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔
انبیائے کرام کو بھی ستایا گیا، ان کو ان کی قوم سے نکالنے کی کوشش کی گئی، ان کو یہ پرپوزل دیا گیا کہ اگر آپ ان قوانین سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ ہمارے دین کو قبول کر لیجیے۔ آپ پر یہ پابندی ہٹا دی جائے گی۔ لیکن انہوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ (سورة الكافرون 6)
تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس طرح کے بہت سارے واقعات کا قرآن میں ضمناً اور وضاحتاً تذکرہ کیا ہے۔ سورہ ابراہیم کی آیت ہے۔ “وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِرُسُلِہِمۡ لَنُخۡرِجَنَّکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ لَنُہۡلِکَنَّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾ وَ لَنُسۡکِنَنَّـکُمُ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامِیۡ وَ خَافَ وَعِیۡدِ ” ( سورة ابراہیم 13 ۔ 14)
کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کر دیں گے ۔ اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے یہ ہے ان کے لیے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میری وعید سے خوف زدہ رہیں ۔
تقریباً تمام نبیوں کی امت نے اپنے رسول اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ کبھی اس قہر کا شکار موسی ہوئے، کبھی عیسی کبھی لوط تو کبھی شعیب علیہم السلام۔ اللہ تعالی شعیب علیہ السلام کی  قوم کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ “قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ ﴿۟۸۸﴾” (سورة الأعراف 88)
ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور جو آپ کے ہمراہ ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ شعیب ( علیہ السلام ) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروہ ہی سمجھتے ہوں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی اسی قسم کی سازش کی گئی، ان کو جلا وطن کیا گیا، ڈیڈینشن سینٹر شعب ابی طالب میں رکھا گیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر قتل کا منصوبہ بنایا گیا “وَ اِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَ یَمۡکُرُوۡنَ وَ یَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ﴿۳۰﴾” (سورة الأنفال 30)
یاد کیجیے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے ۔
ان تمام لوگوں کے ساتھ یہ سب کیوں کیا گیا؟ کیا ان لوگوں نے کوئی گناہ کیا تھا؟ نہیں! ہرگز نہیں؛ بلکہ ان کا ایک ہی جرم تھا وہ تھا ان کا جرمِ ایمانی؛ یہ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے، پاکی کی تعلیم دیتے اور طہارت و پاکیزگی کو اپناتے۔ ارشادِ ربانی ہے: “فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَخۡرِجُوۡۤا اٰلَ لُوۡطٍ مِّنۡ قَرۡیَتِکُمۡ ۚ اِنَّہُمۡ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوۡنَ ” (سورة النمل 56)
ان کی قوم کا جواب بجز اس کہنے کے اور کچھ نہ تھا کہ آل لوط کو اپنے شہر سے شہر بدر کر دو یہ تو بڑے پاکباز بن رہے ہیں ۔
اللہ نے ایسے نازک حالات میں ان لوگوں کی حفاظت فرمائی جن پر ان کے ایمان کی وجہ سے قہر ڈھایا جاتا تھا۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کرتے تھے۔ اگر بفرض محال اللہ ایسا نہ کرتا تو زمین میں فساد برپا ہوتا، دنگے ہوتے جس میں بلا تفریق مذہب و ملت عبادت گاہوں کو مسمار کیا جاتا، لوگوں کی جانیں جاتی، عورتوں کی عصمتوں کو تار تار کر دیا جاتا اور اخیر میں سوائے خسارہ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ “الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ” (سورة الحج 40)
یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا ، صرف ان کے اس قول پر کہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے ، اگر اللہ تعالٰی لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام باکثرت لیا جاتا ہے ۔ جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا ۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے۔
اس لیے جب بھی فسطائی طاقتیں دو گروہ کو آپس میں لڑوانا چاہیں، ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے  جتن کریں تو جان لینا چاہیے کہ اس میں ہمارا ہی نقصان ہے۔
جب آگ لگے گی تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
(راحت اندوری)

ایسی بات نہیں ہے کہ صرف مسلمانوں ہی کو اپنے عقائد کی وجہ سے زور و زبردستی اور جبر و اکراہ کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اسٹالن نے 1929 میں روسی مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کرکے قتل کروایا اور عوام کو سائبیریا کے جنگلات میں لے جا کر ان کی نسل کشی کی گئی، ہٹلر نے 1935 میں نوریمبرگ لا لاکر یہودیوں کی شہریت منسوخ کردی، 1948 سے 1950 کے درمیان افریقہ میں رنگ و نسل کی بنیاد پر دورنگی شہریت نافذ کی گئی اور 1982 میں برما کے روہنگیاؤں سے شہریت چھین لی گئی جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ خدشات حقیقت کا روپ نہ دھارے اور ہم پر پچھلی تاریخ نہ دوہرائی جائے تو اس نئے قانون کو کالعدم کروانے کی کوشش کریں اور ایک انسان کوشش کے علاوہ کر ہی کیا سکتا ہے “وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۹﴾” (سورة النجم 39)
اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔
اور اللہ تبارک و تعالی کی یہی سنت ہے کہ جب تک انسان کوشش نہیں کرتا ہے اللہ بھی اسے اس کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا۔ فرمان باری تعالی ہے: “اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِم” (سورة الرعد 11)
شاعر نے اس آیت کا مفہوم شعر میں اس طرح پرویا ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسے خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اگر ہم نے اس کے خلاف کوششیں نہیں کیں تو ممکن ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اس قانون کو ہم پہ نافذ کر دے گا اور صرف یہی نہیں بلکہ ظلم و ستم کی لہر اور تیز ہو جائے گی جس کی لپیٹ میں ہر کوئی آجائے گا۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی چیز کی طرف اشارہ کیا تھا کہ «إِنَّ النَّاس إِذا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَم يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيه أَوشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ». [صحيح.] – [رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وأحمد.]
لوگ جب ظالم كو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان سب پر عمومی عذاب نازل ہوجائے۔
لیکن یاد رہے کوئی بھی سرگرمی اسلامی تشخصات کے مخالف نہ ہو کیوں کہ اگر ہم مفاد کے لیے اپنے شعائر کا سودا کرنے کے لیے راضی ہوگئے تو پھر ہمیں کوئی بھی دہریت سے نہیں بچا سکتا۔ یوں ہی ہم نئی نسل کے فکری ارتداد سے خوف زدہ ہیں۔ کیوں کہ بھگوائیوں کا مقصود ہی یہی ہے کہ ہمیں دین سے برگشتہ کر دے۔ ہمارا دین و ایمان ہی وہ جڑ  ہے جس کی وجہ سے ہم پر آئے دن مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں۔ اگر ہم نے دین کے ساتھ کمپرومائز کرنا شروع کر دیا جائے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا “وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ بَعۡدَ الَّذِیۡ جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ ۙ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۲۰﴾ؔ” (سورة البقرة 120)
آپ سے یہودی اور نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آ جانے کے ، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار ۔
میں اپنی بات ایک یہودی مفکر ہنّا آرینٹ Hannah Arendt کے قول پر ختم کرتا ہوں؛ میرے اس مقولہ کے ذکر کرنے کا قطعی یہ مقصد نہیں ہے کہ اس لڑائی کو سیکولر انداز میں نہ لڑا جائے بلکہ  اسلامی تشخص سے پست ہمت ہونے والوں کو تنبیہ کرنا ہے:
“If one is attacked as a Jew, one must defend oneself as a Jew. Not as a German, not as a world citizen, not as an upholder of the rights of man”
اگر کسی فرد پر حملہ یہودی کے طور پر ہو، تو ضروری ہے کہ وہ اپنا کا دفاع بطور یہودی ہی کرے، ناکہ جرمن یا دنیا کے ناگرک کے طور پر اور نہ ہی انسانی حقوق کے حامل کے طور پر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

عبد الرحمن عالمگیر کلکتوی
ایک ادنی سا طالب علم جو تجربہ کار لوگوں کے درمیان رہ کر کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply