ریڈ سکوائر روڈ پر سینٹ باسلز کتھیڈرل کے سامنے جب ہم دونوں پہنچ گئے۔تو چُھٹکی سر پر ٹوپی صحیح کرتے ہوئے سینٹ باسلز کی طرف دیکھتے ہوئے مُجھ سے پوچھنے لگی۔ “اس چرچ کی تاریخ کیا ہے؟”میں نے اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں پر رکھتے ہوئےجیسے سرگوشی سی کر ڈالی ۔
“12 جنوری 2001۔”
وہ کسمسائی۔ ہونٹ ہٹاتے ہوئے بُرا سا مُنہ بنا کر بولی۔ میں اس کتھیڈرل کی بات کررہی ہوں۔ میں اُس کے ہونٹوں کی لالیوں میں جیسے مدہوش سا ہوا جارہا تھا۔جھنجھلا کر کہا “وہی جو بونیر کے پیر بابا اور لاہور کے داتا دربار کی ہے۔ ”
چُھٹکی نے بُہت حیرانگی سے پُوچھا۔
“کیا سینٹ باسلز بچے دینے میں مدد کر سکتا ہے؟”
میں اُس کے چیری جیسے سُرخ اور بھرے بھرے ہونٹوں پر للچائی سی نظریں جماتے ہوئے بولا۔ “ان روسیوں کے سینٹ بھی خصی ہیں۔ ورنہ ہمارے ہاں تو ایک پیر ہزاروں مُریدینیوں کی گود ایک ماہ میں ہری کروا دیتا ہے۔بس وہاں تک جانے کی دیر ہوتی ہے۔
جب کہ ادھر کی عورتیں بیس سالوں میں دو بچوں کو جنم دے دیں۔تو خوشی سے پھولے نہ سماکر جامے سے باہر نکل آتی ہیں۔
چُھٹکی میری عجیب و غریب تشریح سُنتے ہوئے کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اور میری آنکھوں میں دیکھ کر جیسے ڈوبتے ہوئے بولی۔
“خان صاب مُجھ سے کتنے بچے پیدا کرنے کا ارادہ ہے؟”
میں اس بے تُکے سوال کے لئے ہرگز تیار نہیں تھا۔ جُزبُز ہوتے بولا ۔
“دراصل ابھی تک خود کو آزمایا نہیں ہے۔ مگر ہماری دادی کہتی تھیں۔کہ اماں اتنی زرخیز تھیں۔کہ ابا کی تصویر دیکھ کر اُمید سے ہو جاتی تھی۔ سو میں بھی آخر اُسی کا بیٹا ہوں۔۔۔۔
چُھٹکی نے میرے سینے پر مُکا مارا۔
اور بولی۔
"تم ایک معصوم راسپوٹین ہی تو ہو۔ مُجھے یقین نہیں آتا کہ اتنا نرم و نازک اور شوخ وشنگ بچہ پشاور کے پٹھانوں سے بچا ہوگا۔ پر آپ کہتے ہو تو مان لیتی ہوں۔
سوانحِ حیات “چُھٹکی” سے اقتباس
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں