ایک نظم ایک کہانی

کرسمس کا نمکین لمحہ

کرسمس کی اس رات جب شہر کی سڑکیں برف کے گالوں سے سفید اور قہوہ خانے میں بیٹھے اسکی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔
وہ اس بات پر رو رہی تھی کہ اسکے والدین آرتھوڈوکسن ہیں وہ ایک مسلمان کو کبھی اپنی بیٹی کی زندگی کا حصہ نہیں بنائیں گے۔
میں حیران بیٹھا سرخ شمپین کے گلاس میں بے رنگ آنسو گھلتے دیکھتا رہا۔
محبت کو کرسمس کی اس رات صرف ایک جھوٹے وعدے کی ضرورت تھی۔
وہ جو میرے اور اپنے درمیان ہزار فاصلوں کو پاٹ کر محض اس بات پر آزردہ تھی کہ اسکا باپ جو اس سے بے تحاشہ محبت کرتا ہے، اپنی محبت ایک بے مذہب سے شئیر نہیں کرسکے گا۔
وہ دو حصوں میں نہیں بٹنا چاہتی تھی۔ وہ اپنی محبت کو مکمل کرنا چاہتی تھی۔ اسکو باپ کی محبت اور پریوں کی کہانی ایک ساتھ چاہیے تھی۔
اسکو محض ایک جھوٹے وعدے کی تلاش تھی۔
میں وہ جھوٹا وعدہ اسکی ہتھیلی پر رکھ دیتا تو کرسمس کی اس رات سانتا اسکے بالوں کے لیے سرخ گجرے لے کر آتا۔
مگر اپنے سارے لاابالی پن کے ساتھ، میں اس کو محض تسلی کے چند حرف دے سکا، جو اس نے اپنے سرخ شوز کی ایڑی تلے مسل دیے، اور غصے میں اپنے آنسوؤں سے بھیگے تمام ٹشوز ایک ایک کر کے مجھ پر پھینکنا شروع کر دیے۔
جب سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہو گئے تو وہ بھیگی آنکھوں سے ایک ہسٹریائی ہنسی ہنستے ہنستے میرے کاندھے آ لگی۔
موسیقی اور رات اپنے جوبن پر آچکی تھیں، کرسمس کا لمحہ نمکین ہو چکا تھا

(محمودفیاضؔ)

نمکین کرسمس

رات تھی کرسمس کی
برف نے بچھائی تھی
چاندنی سی سڑکوں پہ
خواب سی وہ لڑکی تھی
جس کی نم سی آنکھوں میں
سُرخیاں جھلکتی جب
شیمپئین کی سُرخی بھی
ماند پڑنے لگتی تھی
میرے اور اس کے بیچ
فاصلہ تھا صدیوں کا
کعبہ اور کلیسا کا
عشق نے تو صدیوں کے فاصلے سمیٹے تھے
پاؤں میں مگر اسکے
انَ دیکھی سی زنجیریں
کعبہ اور کلیسا کا فاصلے سمیٹے تو
باپ سے بچھڑنے کا
مان کے بکھرنے کا
دکھ پگھلنے لگتا تھا
منتظر تھی جانے کیوں
صرف ایک وعدے کی
شاید چند لفظوں کی
زندگی جیسے اُس پَل
پریوں کی کہانی تھی
ایک جھوٹا وعدہ جو
اس پری سی لڑکی کی
زندگی کا ضامن تھا
ہر خوشی کا حاصل تھا
میرے ہاتھ خالی تھے
میرے حرف بے رنگ تھے
میں نہ دے سکا اس کو
جھوٹ کا کوئ جگنو
سانتا بھی اس لمحے
روٹھ سا گیا تھا کچھ
اسکی مضطرب سی ہنسی
کانچ جیسی لگتی تھی
درد کا ایک سُر جیسے
چاروں اور بکھرا تھا
برف نے بچھائی تھی
چاندنی سی سڑکوں پہ
ہر طرف مگر جیسے آنسوؤں کی بارش تھی
رات تھی کرسمس کی

(ثمینہ رشید)

تعارف
محمود فیاض

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی سے جو پوچھا ہے، زندگی نے جو بتایا ہے، ہم نے کہہ سنایا ہے۔

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply