گدھا گاڑی کی ڈرائیونگ۔۔سید شازل شاہ گیلانی

وہ لوگ ذرا نیڑے نیڑے آ جائیں جنہوں نے بچپن میں کھوتا ریڑھی کی ڈرائیونگ کی ہوئی ہے، میں نے تو خیر بھری جوانی میں بھی یہ مزے لوٹنے سے گریز یا پرہیز نہیں برتا لیکن یہ فن محض تسکین طبع کیلئے سیکھا ہے ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ میرے والدین میری تعلیمی پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے بطور پیشہء روزگار مجھے کھوتا ریڑھی لے کر دینے پر سنجیدگی سے غور کرنے پہ مجبور ہو گئے تھے ۔

خیر! قصہ کچھ یوں ہے کہ بچپن میں مجھے کھوتا ریڑھی کی ڈرائیونگ سیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا جو بڑے ہی الم ناک طریقے سے پورا ہوا۔اُس وقت ہمارے ایک پڑوسی چاچے بخشو کے پاس ایک عدد کھوتا ریڑھی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ گرمیوں کی ایک کڑکتی دوپہر میں چاچے بخشو نے کھوتا ریڑھی ہمارے گھر کے پاس ایک سایہ دار درخت کے ساتھ باندھا اور خود کسی کام سے شہر چلا گیا،اور میں تو پھر ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا لہذا جلدی جلدی کھوتے کی رسی کھولی، لگام ہاتھ میں پکڑی، ریڑھی پر سوار ہو گیا اور کھوتے میاں کو حسبِ مشاہدہ ایک عدد چابک رسید کر دیا لیکن اب ” کونڑ دلاں دیاں جانڑیں ہُو” مجھے کیا پتہ تھا کہ کھوتا دراصل کیا سوچ رہا ہے (اور یہ نقطہء راز بھی بعد میں کھلا کہ کھوتے ریڑھی کی ڈرائیونگ سے پہلے کھوتے کو یہ باور کرانا بڑا ہی ضروری ہوتا ہے کہ میں تمہارا مالک ہوں) بس پھر کھوتے نے چھوٹتے ہی آؤ تاؤ دیکھے بغیر چوتھا گیئر لگایا اور رفتار کی تمام قانونی اور اخلاقی حدیں عبور کرتے ہوئے ہوا سے باتیں کرنے لگا،

میں کچھ دیر تو ریڑھی پر کھڑے کھڑے لگام کھینچ کر حالات کو کنٹرول کرنے کی جدوجہد کرتا رہا لیکن جب حالات ہاتھ سے جاتے ہوئے محسوس ہوئے تو نیچے بیٹھ کر کھوتے سے رحم کی اپیل کرنے لگا، لیکن کھوتا میری تمام تر رحم کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے راستے کی پگڈنڈیوں روڑوں وٹوں اور کھائیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی رفتار موٹروے کی حدِ رفتار تک لے گیا۔اچانک کچھ فاصلے پر ایک بہت بڑا کھڈا سامنے آ گیا، میں نے سوچا اگر اس کھوتے کے بچے میں ذرا برابر بھی رحم ترس اور عقل کا مادہ ہوگا تو یہ کھڈا اسی سپیڈ میں کراس کرنے سے پہلے ایک ہزار بار سوچے گا۔

لیکن یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ اگر مذکورہ صفات کھوتے کی شخصیت میں پائی جاتیں تو اسے کھوتا کون کہتا؟ خیر میں نے آنکھیں بند کیں ریڑھی کے ساتھ چپک کر لیٹ گیا ریڑھی کے کناروں کو کَس کر پکڑا اور ورد وظیفے شروع کر دیے، پھر جیسے ہی ریڑھی کا ایک ٹائر کھڈے میں پڑا ایک زور کے جھٹکے کے ساتھ میں ہوا میں بلند ہوا اور پھر تڑاخ سے ریڑھی پر آ گرا۔ابھی تک جو لگام ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے طور پر ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی وہ بھی ہاتھ سے چھوٹ گئی، اب میں ریڑھی پر کچھ اس انداز میں اوندھا پڑا تھا کہ ایک آدھ اور ایسا جھٹکا لگنے کی صورت میں , مَیں ہوا میں معلق ہونے کے بعد عالمِ بالا کی جانب کوچ کر جاتا. پھر کچھ فاصلہ پر جب کھوتا تاریخ کے ایک نازک ترین موڑ سے گزرنے لگا تو میرے ہاتھ سے چھوٹنے والی لگام اسکی اگلی ٹانگوں سے لپٹ گئی اور کھوتا منہ کے بل زمین پر دھڑام سے آ گرا، اور میں کھوتے کے اوپر سے پرواز کرتا ہوا کچھ فاصلے پر واقع ایک رواں نالے میں جا گرا۔۔

کچھ دیر بعد جب ہوش آیا تو کھوتا نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔بس پھر اس دن کے بعد سے قانون تو کئی بار ہاتھ میں لیا البتہ کبھی کھوتے کی لگام ہاتھ میں لینے کی جسارت نہیں کی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

سید شازل شاہ گیلانی
پاسبان وطن سے تعلق , وطن سے محبت کا جذبہ اور شہادت کی تڑپ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply