سوشلزم ایک زندہ و جاوید نظریہ۔۔حسنین جمیل فریدی

لال لال کیا لہرایا کہ سماج کے  مد ہوش طبقے  کے ایسے ہوش اُڑےکہ اس نے لال کے نظریٗ مساوات کو سوچے ، سمجھے اور پڑھے بغیر رَد کرنا شروع کر دیا ۔ یہ اس سو سالہ پروپیگنڈے کے اثرات ہیں ۔یقینا ً معاشرے کے اندر پائی جانے والی عدم مساوات اس نظام کو ہی متبادل بنا کر ختم کی جاسکتی ہے کیونکہ ایسا مفصل اور جامع معاشی برابری کا نظریہ کسی اور نظام میں موجود نہیں ۔ لہذا اس تھیسز سٹیٹمنٹ کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک معاشرے میں عدم مساوات اور معاشی نا ہمواریاں وجود رکھتی ہیں یہ نظریہ بدرجہ اتم اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ امرتھا ،ہے اور رہے گا۔

اس نظریہ کو جاننے کیلئے ہر انسان کو اسے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، شرط یہ ہے کہ اسے پڑھنےوالا جذبہ انسانیت سے مزین ہو اور سماج میں پائے جانے والی معاشرتی نا انصافیوں کا حل چاہتا ہو۔ خود غرض، مفاد پرست، مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دینے والے، اپنی ذاتی عیش و عشرت پر یقین رکھنے والے، دوسروں کا استحصال کر کے مال و دولت کمانے والوں کا اس نظریہ پر تنقید کرنا معنی نہیں رکھتا ،کیونکہ وہ اپنی ذاتی عیش و عشرت میں ایسے مگن ہیں کہ انہیں کسی کی پرواہ نہیں رہتی ۔انفرادیت کے نظریہ پر مبنی، مفاد پرستی، حرس، جھوٹ، نفرت اور استحصال اس نظریئے کو سمجھنے سے قاصر رہا ،یا انفرادی ترقی کی آگ نے ان کے جذبہ انسانیت کو ہی معدوم کر کے رکھ دیا۔

وہ نظریہ جو دنیا کے 90  فیصد کا ہو ،کیسے رَد کیا جاسکتا ہے؟ اس نظریئے کے بارے میں جاننے کیلئے آپ کو کہیں دور دراز جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ نظریہ ہر اس گلی اور محلے میں پایا جاتا ہے جہاں غربت اور افلاس کا چرچا ہے۔ اس نظریئے کی ترجمانی کرنے والا  طبقہ پوری دنیا میں پایا جاتا ہے ۔ جہاں دنیا کے امیر ترین دس فیصد پچاسی فیصد دولت کے مالک ہیں جبکہ باقی ماندہ نوے فیصد کے پاس صرف پندرہ فی صد دولت ہے ۔ جہاں دنیا کے دس فیصد کے پاس تقریباً 68 فی صد زمین جبکہ سب سے غریب دس فیصد صرف ایک فیصد زمین پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جہاں دنیا کے ۔۔۔۔۔ 2,043امیر ترین لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ  وہ سات دفعہ تمام دنیا کی غربت ختم کر سکتے ہیں۔ جہاں دنیا کے چھبیس امیر ترین لوگوں کے پاس دنیا کے تین ارب اسی کروڑ لوگوں کے مساوی دولت ہے۔ جہاں ان تمام امیروں کا منافع اور سرمایہ بڑھتا جارہا ہے اور غربت کی شرح میں ہوشربا اضافہ بھی ہورہا ہے۔جہاں معیشت ہر طرف ارتکاز دولت کا شکار ہے مگر انسانوں کا ایک بہت بڑا ہجوم غربت کے باعث خود کشیاں کرنے پر مجبور ہے۔

ایسے بے شمار اعدادوشمار ہم روزانہ کی بنیاد پر پڑھتے  ہیں ۔ ہم ان اعدادو شمار کو تسلیم کرتے ہوئے دنیا میں تیزی سے پھیلتی اس معاشی نا انصافی کے خلاف آواز بھی اٹھاتے ہیں اور انفرادی سطح پر ان کے حل کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر اس اجتماعی مسئلے کا حقیقی حل، سوشلزم بطور سسٹم تسلیم کرنے سے انکار بھی کرتے ہیں۔

سوشلزم کا لفظی معنی اجتماعیت ہے یعنی سماج میں بسنے والے تمام لوگ باہم مل  کر ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دیں جو بغیر کسی امتیاز کے سب کو مساوی حقوق دے۔ جہاں تمام لوگوں کے پاس مساوی مواقع ہوں، جہاں ذہنی اور جسمانی صلاحیت کو برابر تسلیم کیا جائے۔ جہاں کسی بھی مذہب و رنگ و نسل کے لوگ امتیازی سلوک کے بغیر آزاد زندگی گزار سکیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا میں رہنے والے چند امیر دنیا کے سب سے زیادہ محنتی کرنے والے ہوں ؟ یقیناً  وہ سارا سرمایہ بہت سے غریب مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کا استحصال کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔

میری اس نظرئیے کی تشریحات بہت سادہ اور آسان فہم ہیں، اس نظریئے کو جدلیات اور مادہ کی بحث میں بڑے بغیر آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے مگر صد افسوس کہ اس کا پرچار کرنے والوں نے اسے بے حد مبہم اور پیچیدہ نظریہ بنا کر پیش کیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا کو سادہ اور مذہبی زبان دی گئی جو براہ راست عوام الناس کے دل پر اثر رکھتی ہے۔ اگر اس نظریئے کی ترویج لوکائی کی زبان میں کی جائے تو یہ انتہائی عام فہم نظریہ ہے ۔ اس کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا کی کامیابی کی اصل وجہ اس کا نوے فیصد عوام سے کٹا ہونا ہے جو اس نظریئے کے حقیقی وارث ہیں۔

پاکستان میں ایک ایسا طبقہ ہے جو اس نظام کو خود بخود اپنا دشمن تصور کرتا ہے جس نے ماضی میں امریکی ڈالروں کے عوض اس عوام دوست نظرئیے کو مذہب سے متصادم قرار دے کر فروخت کر ڈالا۔ جبکہ حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔ یہ نظریہ تمام انسانوں کو بغیر کسی مذہبی و نسلی تفریق کیے مساوی معاشی حقوق فراہم کرتا ہے مگر اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ کو جب اس نظرئیے میں کوئی تنقید نظر نہ آئی تو اس نے اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کیلئے مذہب کا استعمال کیا اور زبردستی اس کی وہ تشریحات پیش کی گئیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر مذہب یا سیکولرازم کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام جیسی استحصالی معیشت کو جگہ دی جاسکتی ہے تو غرباء کی داد رسی کرنے والے اس نظریہ سے کیا مسئلہ ہے؟

بہت سے افراد اسے ایک فیل نظریہ قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ نظریہ صرف روس تک محدود تھا۔اور روس میں اس کے خاتمے کے بعد اخذ کر لیا گیا ہے کہ یہ نظریہ دوبارہ کبھی ابھر نہیں سکتا۔ لوگوں کو روزانہ گر کر اٹھنے کا مشورہ دینے والے اس سوچ کا اطلاق اس نظرئیے پر نہیں کرتے۔ یقیناً اگر کوئی نظریہ گرتا ہے تو دوبارہ زیادہ قوت اور مزاحمت کے ساتھ اُبھرتا ہے۔بڑھتے ہوئے بین الاقوامی انتہاء پسند دائیں بازو کے نظریہ کے خلاف یہ نظریہ مختلف شکلوں میں موجود ایک بہترین متبادل کے طور پر موجود ہے ۔ بھارت ، پاکستان، چلی، مصر، فرانس امریکہ اور برطانیہ میں حالیہ مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ نوجوان نسل میں بے حد پذیرائی حاصل کر رہا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ بہت تیزی سے عام کے دلوں میں بطور متبادل سرائیت اختیار کر چکا ہے۔

جدید نیو لبرل اور سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالی پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے سیاستدان بھی اس نظام کی موجودگی کے باعث اس بڑھتی ہوئی معاشرتی تفریق کو ختم کرنے  میں ناکام رہے۔یہ وہ نظام ہے جس میں سرمایہ دار کا منافع نجی ملکیت ہوتا ہے جبکہ اس کا ہونے والا  خسارہ  اجتماعی طور پر غریبوں پر ٹیکس لگا کر، انکی تنخواہیں اور پنشنز کاٹ کر پورا کیا جاتا ہے۔اس معیشیت کو چلانے والے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں سے بھی سب واقف ہیں جن کا مقصد صرف سرمایہ داروں کا تحفظ کرنا اور امریکہ دوست مفاد کو یقینی بنانا ہے۔ اس استحصالی معاشی نظام کے ہوتے ہوئے کسی صورت بھی اس معاشرتی تفریق کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اس کا متبادل ہے تو صرف اور صرف سوشلسٹ معیشت۔ سکینڈی نیوین معاشی ماڈلز کی مثالیں دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے مفت تعلیم اور صحت اور بے روزگاری الاونس جیسی اقدار سوشلسٹ معاشی ماڈل سے اخذ کی ہیں۔ اور انکی بہتر کارکردگی کی وجہ ان ممالک کی آبادی کم ہونا ہے ، برصغیر پاک و ہند اور دیگر بڑے ممالک کی بہت بڑی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کلی معاشی ماڈل کو تبدیل کیے بغیر معیشت کسی صورت بھی بہتری کی طرف نہیں جاسکتی۔

اگر ہم واقعی اس معاشرتی تفریق کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں اس نظام کو جگہ دینی ہوگی۔ کسی بھی نظرئیے کی نظریاتی اساس سمجھے بغیر اسے  رَد کر دینا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ یقیناً ہر نظریہ اٹل نہیں بلکہ وقت گزرتے ہوئے اپنے ساتھ بہت سی تبدیلیاں لے کر آتا ہے۔ ہمیں اسے جدید تقاضوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشلزم بطور نظام اس سماج میں از سر ِنوع تشریح اور اسےجدید پرکھوں پر تعمیر کرنا ناگزیر ہے۔

یہی نظریہ ہے جو اس وقت تک زندہ و جاوید رہے گا جب تک سماج میں امیر و غریب کی تقسیم رہے گی ۔ جب تک اس سماج کی تشکیل نہ  ہو جس کی پیداوارکا مقصد چند کا فائدہ نہ رہے بلکہ سب کو اجتماعی فائدہ فراہم کرے۔ جہاں دولت چند ہاتھوں سے نکال کر پورے معاشرے میں مساوی بنیادوں پر تقسیم ہو۔ جہاں کوئی بھوک اور افلاس کے باعث خود کشی نہ کرے۔ جہاں ذہنی و جسمانی محنت کا معاوضہ برابر ہو۔ جہاں معاشی آزادی کے ساتھ دیگر آزادیوں کی اصل شکل نمودار ہو۔ اگر اس نظرئیے کا اطلاق مشکل ہے تو سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہ کر ان معاشی نا انصافیوں کے خاتمے کی امید لگانا بے وقوفی ہے کیونکہ حقیقت میں یہ نا ممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply