ٹھگلے چاچڑ۔۔۔عزیز خان/قسط6

چیک پوسٹ کوٹ سبزل سے تقریباً دو کلومیٹر دور تھانہ اوباڑو کا موضہ شاہ پور ہے جس میں چاچڑ قوم آباد ہے۔یہ ٹھگلے چاچڑکے نام سے زیادہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں ان کا ذریعہ معاش صرف ڈکیتیاں کرنا ہے یہ سندھ میں واردات نہیں کرتے جبکہ پورے پنجاب میں وارداتیں کرتے ہیں۔آٹھ سے دس لوگو ں کا یہ گروہ ہے ان کے پاس بیڈ فورڈ ٹرک ہوتے تھے جن میں سوار ہوکر یہ کسی بھی کاٹن فیکٹری میں واردات کرلیتے تھے اس کے علاوہ سڑک پر جاتے ہوئے کنٹینرز یا آئل ٹینکرز کے ڈرائیورز کو باندھ کر پھینک دیتے تھے اور بعد میں پورا کا پورا آئل ٹینکر یا کنٹینر لے جاتے تھے جس کا مال بیچنے کے بعد خالی گاڑیاں کسی جگہ پہ کھڑی کردی جاتی تھیں۔یہ بہت خطرناک گروہ تھا۔

1989ء میں اس وقت کے ASPایوب قریشی نے بھی صادق آباد سرکل کی نفری کے ساتھ ان پر ریڈ کیا انھوں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی۔اپنی ایک بوڑھی خاتون کو بھی خود فائر مار دیا کچھ پولیس والوں سے سرکاری گاڑی، وائرلیس سیٹ اور اسلحہ چھین لیا۔ASPایوب قریشی،SHOاحمد پور لمہ عبدالطیف کانجو وغیرہ کو یرغمال بنا لیا۔بعد میں ان تمام ملازمین کو تھانہ اوباڑو پولیس کے حوالے کردیا گیا۔میری پوسٹنگ ان دنوں تھانہ سہجہ ہوا کرتی تھی میں بھی اپنی نفری کے ساتھ تھانہ کوٹ سبزل پہنچا تھا۔حسین کرار خواجہ SSPہوا کرتے تھے آخرکار سندھ پولیس کے افسران کی منت سماجت کے بعد ASPایوب قریشی اور باقی ملازمین کو چھوڑ دیا گیا۔ یہ وقوعہ پنجاب پولیس کے لیے شرمناک تھا اس واقعہ کے بعد کسی بھی پولیس والے نے ان پر ریڈ کرنے کی جرات نہ کی ٹھگلے چاچڑ دیدہ دلیری سے وارداتیں کرتے مگر کوئی بھی ان پرریڈ نہ کرتاتھا۔چاچڑ وں میں نبی بخش عرف نبو، احمد ولد حسن، اللہ ودھایا ولد لعل بخش، ہاشم ولد لعل بخش وغیرہ مشہور تھے۔یہ تما م ملزمان صدر صادق آباد، کوٹ سبزل، صدر رحیم یارخان اور ضلع کے مختلف تھانوں کے سنگین مقدمات میں بھی مطلوب تھے۔SSPملک اعجاز نے یہ تما م مقدمات تفتیش کے لیے میرے حوالے کردئیے اور ان ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک بھی مجھے دیا ہوا تھا۔

میں نے ان ملزمان پر ریڈ کرنے کا پروگرام بنایا اس سلسلے  میں اپنے مخبران سے موضہ شاہ پور میں ملزمان کی رہائش اور اُن کے اردگرد رہنے والے لوگوں کے کوائف بھی معلوم کیے لیکن اس انفارمیشن سے میں مطمئن نہیں تھا میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا حال بھی ASPایوب قریشی جیسا ہو کیونکہ اس وقوعہ کے بعد ایوب قریشی تین ماہ تک اپنے گھر سے باہر نہیں نکلے تھے۔ اگر میرا ریڈ بھی ناکام ہوتا تو پھر مجھے کوٹ سبزل میں رہنے کا کوئی حق نہ تھا۔

میں یہ چاہتا تھا کہ ایک دفعہ خود تما م ایریا کو دیکھوں تاکہ مجھے سبکی نہ اٹھانی پڑے اس ریڈ کے بارے میں،میں کسی کو کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا۔میں نے سوالی بکھرانی (مرحوم) کو بلوایا سوالی بکھرانی مجھے سندھ کے تمام جرائم پیشہ افراد کے بارے میں اطلاعات دیا کرتاتھا دو دفعہ بھیس بدل کر میں خود سوالی بکھرانی کے ساتھ موٹر سائیکل پر گیااور تمام علاقہ دیکھا۔واپس آکر نقشہ مرتب کیا نقشے میں تمام باتوں کو مدنظر رکھا گیا تھا کہ پولیس کس طرح ان گھروں کو گھیرا ڈالے گی اگر یہ فرار ہوتے ہیں تو ان کو کیسے روکا جائے گا۔سندھ کے جرائم پیشہ افراد پر جب بھی پنجاب سے پولیس ریڈ کرتی تھی تو گاؤں کی مساجد سے لاؤڈ اسپیکر پر یہ اعلان کردیا جاتا تھا کہ پنجاب سے ڈاکو آگئے ہیں اس پر تمام گاؤں والے اپنا اپنا اسلحہ لے کر پولیس ملازمین کو گھیرا ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔اگر ملازمین کم ہوں تو گاؤں والے ان کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے زیادہ ملازمین کی صورت میں یہ فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کرتے تھے۔

تقریباََ ایک ماہ تک میں مختلف زاویوں سے اس ریڈ کو پلان کرتا رہا مکمل نقشہ بنایا جس میں تمام ملزمان کے گھروں کی نشاندہی کی گئی تھی اس کے علاوہ کون کون ان کی مدد کو آسکتا تھا یہ بھی اس نقشہ میں بتایا گیا تھا ریکی مکمل ہونے کے بعد میں نے ASPصادق آباد ڈاکٹر مجیب الرحمٰن سے میٹنگ کی ASPسے میٹنگ کے بعد SSPرحیم یار خان ملک اعجاز سے بھی میٹنگ ہوئی اور انھیں اس ریڈ کے بارے میں آگاہ کیا۔G3رائفل ضلع میں نئی نئی آئی تھیں میں نے دس G3رائفلیں اپنے تھانہ کے لیے SSPسے منظور کروائیں۔ G3لانگ رینج رائفل ہے جو کہ ایک کلومیٹر تک ٹارگٹ کو ہٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اگلی میٹنگ صادق آباد سرکل کے SHOصاحباََن کے ساتھ کی گئی ان دنوں میاں عرفان اللہ انسپکٹر بہاولپور سے تھانہ صدر صادق آباد اور نویداکرام (مرحوم)بہاولپور سے بھونگ تعینات ہوئے تھے۔ ریڈ پلان کے مطابق میاں عرفان اللہ اور نوید اکرام نے سندھ کی طرف سے آنا تھا جبکہ ASPڈاکٹر مجیب اور میں نے اپنی نفری کے ساتھ پنجاب کی طرف سے مورچہ بند رہناتھا۔SHOاحمد پور لمہ بشیر جموں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ اگر ملزمان فرار ہوتے ہیں تو یہ انھیں روکے گا۔کیوں کہ ان کے فرار ہونے کا ایک ہی راستہ تھا اگر یہ KLPروڈ کراس کر کے نکل جاتے۔

مورخہ 02-09-1993کو رات 12بجے تمام ملازمین تھانہ کوٹ سبزل اکٹھے ہوئے۔ سوائے SHOصاحباََن کے کسی کو بھی اس ریڈ کے بارے میں معلوم نہ تھاکہ کہاں ریڈ ہو رہا ہے۔تمام ملازمین کو میں نے بریفنگ دی رات کو تقریباََ دو بجے تمام نفری اپنے اپنے مقررہ مقامات کے لیے روانہ ہوگئی۔پروگرام کے مطابق میاں عرفان اور نوید اکرام نے سندھ کی طرف سے گھیرا ڈالا جبکہ میں اور ASPصادق آباد پنجاب کی طرف سے گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے۔SHOاحمد پورلمہ اپنی نفری کے ساتھ KLPروڈ پر مورچہ بند ہوگئے۔

اب ہمیں پو پھوٹنے کا انتظار تھا جوں ہی ہلکی ہلکی روشنی ہوناشروع ہوئی وائرلیس سیٹ پر میاں عرفا ن اور نوید اکرام کو ہدایت کی گئی کہ وہ ملزمان کے گھروں کی طرف پیش قدمی کریں۔ساتھ ہی میں نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ملازمین کو وائرلیس سیٹ پرکہا کہ اگر سندھ کی طرف سے ہمارے پولیس ملازمین فائرنگ کرتے ہیں تو ہم نے فائرنگ نہیں کرنی ایسا نہ ہو کہ کراس فائرنگ میں اپنے ہی ملازمین کا نقصان ہوجائے۔
سندھ کی طرف سے آئی پنجاب پولیس کو دیکھ کر حسب دستور ٹھگلے چاچڑوں نے مساجد میں اعلان کرنے شروع کردیے اورپولیس پارٹی پر فائرنگ کرنی شروع کردی۔پولیس نے بھی جواباََ فائرنگ کی لیکن ہماری طرف سے کوئی فائر نہ ہوا بلکہ ہم خاموشی سے اپنی اپنی جگہ پر چھپ کر بیٹھے رہے تھوڑی دیر بعد دس، گیارہ ملزمان جو تمام مسلح تھے ہماری طرف آتے نظر آئے۔اب میں نے وائرلیس پہ میاں عرفان کو کہا کہ وہ لوگ فائرنگ نہ کریں اور جس جگہ موجود ہیں وہیں لیٹ جائیں تاکہ ہماری طرف سے کی ہوئی فائرنگ سے ان کا نقصان نہ ہو۔ ہم نے ملزمان پر فائرنگ شروع کردی ہماری طرف سے فائرنگ ہونے پر تمام ملزمان ایک مکان میں گھس گئے اور اس کی چھت پر بنے ہوئے مورچوں سے ہم پر فائرنگ شروع کردی۔ میرے ساتھ نذیر نیازی اور اکرم نیازی بطور گن مین تھے میں نے ان دونوں کو G3رائفلیں دی ہوئی تھیں اور پھر میں نے G3رائفل کا کمال دیکھا۔ نذیر نیازی اور اکرم نیازی میرے شانہ بشانہ پیش قدمی کرتے رہے ہم ایک دوسرے کو کور دیتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ASPڈاکٹر مجیب بھی ہمارے ساتھ تھے۔G3رائفل کی گولیوں نے ٹھگلے چاچڑوں کے مورچے تباہ کردئیے ملزمان بھاگنا شروع ہوگئے۔ نبی بخش عرف نبو کو ذخمی حالت میں ہم نے گرفتار کرلیا جبکہ ہاشم اللہ ودھایا چاچڑ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ KLPروڈ کی طرف سے فرار ہوگئے۔میں نے وائرلیس پر SHOاحمد پور لمہ کو اطلاع دی کہ ملزمان مسلح ہیں اور ان کی طرف آرہے ہیں لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سارے ملزمان جن کے پاس کلاشنکوف اور دیگر اسلحہ تھا ان ملازمین کے سامنے سے گزر گئے لیکن انہوں نے انھیں نہ روکا۔
ملزمان کے گھروں کی تلاشیاں لی گئیں۔اسلحہ برآمد ہوا، ان کے مال مویشی، بھینسیں وغیرہ 550ض ف قبضہ میں لے لیے دوٹریکٹر بھی ملے جو چوری کے تھے یہ پنجاب پولیس کی بہت بڑی کامیابی تھی اور ASPایوب قریشی کے ساتھ کی گئی زیادتی کا بدلہ تھا جو ہم نے لیا اس ریڈ کی وجہ سے کافی عرصہ تک کوٹ سبزل اور اردگرد کے علاقوں میں وارداتیں نہ ہوئیں۔اکتوبر میں الیکشن ہونے والے تھے نور محمد خان لنڈ جوکہ پیپلز پارٹی کے MNAبھی تھے سے میرا بہت اچھا تعلق تھا وہ میرے پاس ٹھگلے چاچڑوں کی سفارش کے لیے آئے میں نے انھیں کہا کہ ملزمان ہاشم اللہ ودھایا کو میرے پیش کردیں تو میں ان کا مال مویشی واپس کرسکتا ہوں انھوں نے ملزمان کو پیش کرنے کا وعدہ کیا لیکن ساتھ ہی مجھ سے کچھ مال مویشی واپس کرنے کی درخواست کی کیونکہ الیکشن قریب تھے اور چاچڑ قوم ان کی ووٹر سپوٹر بھی تھی لہذا میں نے پچاس بھینسیں انھیں واپس کردئیں۔کیونکہ اتنی زیادہ تعداد میں مال مویشی کو تھانہ پر رکھنا بہت مشکل تھا اور اس وجہ سے میرا محرر تھانہ محمد عاشق بہت پریشان تھا۔بقیہ مال مویشی میں نے حلف لینے کے بعد مختلف مدعیوں کو دے دیا جن کی چوریاں صادق آباد تحصیل میں ہوئیں تھیں۔ جب تک میری پوسٹینگ تھانہ کوٹ سبزل رہی ٹھگلے چاچڑوں نے میرے علاقہ میں کوئی واردات نہ کی۔

کسی بھی ریڈ پر جانے سے پہلے مکمل پلانگ بہت ضروری ہوتی ہے خاص طور پر پنجاب کے اضلاع کے وہ تھانے جودریائی علاقوں یا سندھ پنجاب بارڈر کے ساتھ ہیں۔جب بھی ان علاقوں میں پولیس ملازمین بغیر پلانگ اور مناسب اسلحہ ساتھ نہیں جاتے تو نقصان اُٹھاتے ہیں۔تھانہ بھونگ، کوٹ سبزل، ماچھکہ میں میری ملازمت کے دوران کئی ایسے واقعات ہوئے جن میں ہمارے جوانوں نے شہادتیں پائیں اور زخمی بھی ہوئے۔کیونکہ ان ریڈز پر کبھی بھی سنیئر پولیس افسران نہیں جاتے لہذاانھیں اپنے ملازمین کے مسائل کا بھی علم نہیں ہے۔دوران سروس صرف سرمد سعید خان ایسے پولیس آفیسر تھے جو خود تو ریڈ پہ نہیں جایا کرتے تھے مگر ریڈ پر جانے سے پہلے بریفنگ اور ریڈسے واپس آنے پر ڈی بریفنگ کیا کرتے تھے۔PSPہونے کے باوجود ان کا رویہ اپنے ماتحتوں سے بہت اچھا ہوتا تھا۔اُمید ہے ایسے افسران جن کی تعیناتی خطرناک علاقوں میں ہوتی ہے ریڈ پہ جانے سے پہلے اپنے ملازمین کو بریفنگ سے کر بجھوائیں گئے تاکہ نقصان نہ ہو۔سنا ہے ٹھگلے چاچڑاب بھی اسی طرح پنجاب میں وارداتیں کرتے ہیں میرے اس ریڈ کے بعد آج تک کسی بھی پولیس آفیسر نے وہاں ریڈ نہیں کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply