خیراتی سیاست۔۔راحیلہ کوثر

ہم پاکستانی عوام بہت جگاڑو ٹائپ کے لوگ ہیں اور جگاڑ بھی ایسے ایسے لگاتے ہیں کہ دنیا دنگ اور گنگ رہ جاتی ہے۔ اب ہم پر مسلط  بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ ہم پر ہمارے مسلط  شُدہ حکمران بھی ہمارے جیسے ہی ہوئے، ایک دم رابچک ٹائپ کے جگاڑو ،اپنا کام چل رہا تو سب ایک دم اوکے ہے۔۔بولے تو۔۔۔(all is well) باقی آگے آنے والا جانے اور یہ مسئلہ جانے۔

اب اگر میں اپنے اسی جملے کو مہذب انداز میں تحریر کروں، تو جملہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ایک نظریاتی بنیادوں پر بننے والے ملک کی عوام بمع حکمران نظریہ ضرورت کے تابع ہیں ،بالکل غیر سنجیدہ ، غیر مستقل مزاج اور غیر مستحق ۔

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی ہے ،اب ایسا بھی نہیں کہ سب کے سب عوام ہی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، بہت سے عوامی حلقوں کو بنیادی سہولیات بمعہ آسائشی سہولیات کے بھی وافر مقدار سے بھی بڑھ کر حاصل ہیں، اب سب کے سب کنگلے تھوڑی   ہیں پاکستان میں ،اور نہ ہی غریب مہاتر ہیں ،بھئی جس کی جتنی طاقت اور دولت ،اتنی ہی عیاشیاں ہیں۔اب یہ تو غریب غرباء  کی ہی غلطی ہے جو وہ غریب ہیں اور دیکھیں ناں! ہیں بھی تو کتنے ڈھیر سارے،اوپر سے ان کے مسائل کی اپنی ہی طویل گردان ہے، ایسے میں حکمران بیرونی مسائل چھوڑ دیں کیا ؟ وہ بھی ان غریبوں کے لیے؟۔۔۔اب ایسا تھوڑی  ہوتا ہے، دنیا داری بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے اب یہ غریب غربا  ء کیا جانیں دنیا داری رکھ رکھاؤ ، وڈے لوگوں کی وڈی باتیں ،چھوٹے موٹے لوگوں کے چھوٹے دماغ اور موٹی عقل میں تو سمانے سے رہیں۔ انہیں توبس روٹی ،کپڑا، مکان،نان  سٹاپ سستی بجلی، گیس ،صاف پانی، اچھا نظام نکاسی،سہولیات سے لیس ہسپتال جہاں انہیں انسان بھی سمجھا جائے، اچھےاور مساوی تعلیمی مراکز،بر وقت اور فوری انصاف ، سستی اشیاء اور روزگار کے ساتھ باوقار زندگی چاہیے۔لو جی اب صدا کے نازک دور سے گزرتے ملک میں خالی خزانے سے عوام سب پانا چاہتے ہیں ۔ احمق کہیں کے۔۔

مسائل کا تو کیا ہی کہنا ، کبھی یہ بھی ختم ہوئے ہیں اس دنیا میں کسی کے ؟جو ہمارے ہوجاتے۔۔۔

بس خیراتی کارڈز ہی کھیلے جا رہے ہیں،بنام برائے جگاڑ ہر حکومت اپنا اپنا کارڈ پھینک کر واہ واہ وصول کرتی آرہی ہے۔کبھی بینظیر انکم سپورٹ کارڈ تو کبھی ہیلتھ کارڈ ،اب راشن کارڈ بھی آنے کو ہے ۔سنا ہے کہ  اس بینظیر انکم  سپورٹ کی ضرورت 17 ویں سکیل کے حکومتی ملازمین کو بھی تھی، بے چارے غریبوں کے بھی غریب نکلے، تنخواہ کم پڑ جاتی ہو گی ان کی، گزارا نہیں ہوتا ہو گا یا پھر بیوی ساری تنخواہ دبوچ لیتی ہوگی ،اب ایسے میں بے چارے اپنی سفید پوشی کیسے چھپاتے؟ آخر کو جیب خرچ بھی تو درکار ہوتا ہے انسان کو۔ کاش! کہ ان کی مائیں اور بیگمات ان پر یہ ظلم نہ کرتیں ، نہ وہ مظلوم ہوتے نہ انہیں انکم اسپورٹ درکار ہوتی۔

آپ یہ ہرگز نہ سوچیے گا کہ عوام کے ساتھ صرف کارڈز ہی کھیلے گئے بلکہ ان کارڈز کے بیچ میں بہت سی ڈیلزاور ریلیفز بھی عوام کو دیے گئے ،جیسے کہ ہاؤسنگ  سکیمیں ، سی این جی ماحول دوست رکشہ روزگار،دانش  سکول ،سستی روٹی، لنگر خانے ، مسافر خانے، یوٹیلیٹی  سٹورز، رمضان بازار وغیرہ وغیرہ،اب اگر یہ  نا شکری عوام نہیں خوش ہوتی تو نہیں ہوتی ، ان کو تو سب کچھ   چاہیے ڈیلز میں، اب جس میں سب مل جائے وہ ڈیل کیسی؟اب یہ نہ  کہہ دیجیے گا کہ ڈیلز کا بھی نہیں پتہ  آپ کو کہ ڈیل کیا ہوتی ہے ؟ ارے وہی جو جیتو پاکستان والا فہد دیتا ہے گیم شو میں۔۔۔اور مسکراتے ہوئےبڑے پیار سےیہ بھی کہتا ہےکہ فلاں فلاں لو اور گھر جاؤ۔

آخر میں بتاتی چلوں کہ پاکستان میں جو پانی اچانک ختم ہونے لگا تھا اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جو ڈیم فنڈ دیا تھا آپ نے ،اس کی کوئی ڈیم یا ڈیل ابھی تک نہیں آئی ،اس ضمن میں موصول ہونے والے ایس ایم ایس فیک ہیں چنانچہ نوسر بازوں سے ہوشیار رہیں اور اپنا مزید پیسہ اپنے پر ہی خرچ کریں۔

نوٹ : یہ سہولت صرف آمدن کے مطابق اثاثہ جات رکھنے والوں کے لیے ہے، ورنہ آپ کی عزت کا بھی فالودہ ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خیراتی سیاست۔۔راحیلہ کوثر

Leave a Reply to M. Awais Cancel reply