• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر سکندر علی مرزا کی یادداشتیں۔۔۔۔ریویو: لیاقت علی ایڈووکیٹ

آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر سکندر علی مرزا کی یادداشتیں۔۔۔۔ریویو: لیاقت علی ایڈووکیٹ

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہلے دس سال کی سیاست اور سیاسی واقعات کی تفہیم کے لئے پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے متفقہ طورپر منتخب صدر، پاکستان کا پہلا آئین(1956) نافذ کرنے والے، بعدازاں اس کی تنسیخ اور ملک میں بطور صدر پہلا مارشل لا نافذ کرنے والے میجر جنرل سکندر علی مرزا کی شخصیت اور ان کے فوجی اور سیاسی کیرئیر کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ فوج کی سیاست میں مداخلت، سیاسی حکومتوں کی برخاستگی جیسے اقدامات ہوں یا پاکستان کی خارجہ پالیسی کو امریکی مفادات سے وابستہ کرنے جیسے دور رس فیصلے، ان سب میں ان کا کردار کلیدی تھا۔پاکستان کے ابتدائی سالوں میں رونما ہونے والے واقعات جن کی بنیاد پر پاکستان کا فوجی اور سیاسی ڈھانچہ استوار ہوا ان میں میجر جنرل سکندر علی مرزا کا رول بہت اہم اور بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ برطانوی فوج کے کرنل سکندر علی مرزا قیام پاکستان کے وقت وزارت دفاع میں ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے فائز تھے۔

سکندر علی مرزا کی زیر نظر آپ بیتی جس کا اردو ترجمہ اشرف شاد نے کیا تھا، کم و بیش چار دہائیاں قبل محمود شام کی زیر ادارت کراچی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’معیار‘ میں قسط وار شائع ہوئی تھی۔سکندر مرزا کی یہ آپ بیتی ان خود نوشت یادداشتوں سے مختلف ہے جو سیاست دانوں،فوج، نوکر شاہی اور ریٹائر ججوں نے لکھی ہیں اور جن میں انھوں نے اپنے سیاسی، عدالتی اور انتظامی فیصلوں کی پردہ پوشی اور جواز پیش کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔ ایسی آپ بیتیوں کے بارے میں ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا ’ان آپ بیتی لکھنے والوں نے غلطیاں کیں، سازشوں میں شریک رہے،جورتوڑ کیا،دھوکہ دہی، فریب اور بدعنوانیاں کیں ہیں۔یہ سب ان داغوں کو دھوکر اپنی بے گناہی اور معصومیت ثابت کرنے  کے لئے لکھی گئی ہیں‘۔

پاکستان کے ماضی کی تشکیل کے لئے سکندر مرزا کی زیر نظر خود نوشت اہم شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔ان میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں، ان کی صحت پر کبھی شک و شبے  کا اظہار نہیں کیا گیا۔ ان یادداشتوں میں تحریک قیام پاکستان میں شامل  اور قیام پاکستان کے بعد کاروبار مملکت اور رموزِ سیاست چلانے والے رہنماؤں سے ملاقاتوں کا احوال اور ا ن کے ساتھ کام کرنے کے تجربات اور مشاہدات بیان کیے گئے ہیں۔ ان رہنماؤں میں محمد علی جناح، لیاقت علی خان،خواجہ ناظم الدین، ملک غلام محمد،سردار عبدالرب نشتر، عبدالغفار خان،ڈاکٹر خان صاحب، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی،ممتاز دولتا نہ اور اس دور کے دیگر وزرائے اعظم اور فوجی جنرلز شامل ہیں۔

سکندر علی مرزا ہندوستان میں انگریز سرکار کے اہم کارندے رہے تھے ،اس لئے برطانیہ کو وہ اپنا دوست اور مربی سمجھتے تھے۔اپنی یادداشتوں میں انھوں نے اپنی امریکہ نوازی کا بھی کھل کر اقرار و اعتراف کیا ہے۔امریکہ کے زیر سایہ بننے والے سیٹو اور سینٹو فوجی معاہدوں کو بنانے اور پاکستان میں اس معاہدوں میں شامل کرنے والوں میں خود کو شامل بیان کرتے ہیں۔ ان فوجی معاہدوں میں پاکستا ن کی شمولیت ان کے نزدیک ضرور ی تھی۔سکندر مرزا مذہب کے سیاسی استعمال،ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دینے اور قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کے شدید مخالف تھے۔لکھتے ہیں کہ ’8۔جنوری1956 کو مجوزہ آئین کا مسودہ شائع کیا گیا۔ اس کے دو پہلووں کے بارے،میں بہت مشکو ک تھا۔ میں سرکاری مشینری میں اسلامی دفعات شامل کرنے کا مخالف تھا۔ہم دیکھ چکے تھے کہ لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد نے علما کو ایک ہتھیار دے دیا تھا اور 1953میں انھیں پاکستان کو تقریباً تباہ کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی تھی لیکن مسلم لیگ نے اپنے سابقہ تجربات سے کبھی کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔ میرے کئی بار کے انتباہ کے باوجود چوہدری محمد علی (وزیر اعظم) نے جان بوجھ کر پاکستان کے لئے اسلامی جمہوریہ کا اضافہ اور علما کو مداخلت کی ایک اور دعوت دے ڈالی تھی۔ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کو پورے ملک کا ستیاناس کرنے کا کھل کر موقع فراہم کردیا گیا (صفحہ 80)۔

وزیراعظم لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد کیوں اسمبلی میں پیش اور منظور کروائی تھی اور ان کے پیش نظر کیا مقاصد تھے اس کا ذکر کرتے ہوئے اسکند ر مرزا لکھتے ہیں ’میں اگرچہ وزیر اعظم کی حیثیت سے لیاقت علی خان کا معترف ہوں۔۔۔ لیکن ایک سلسلے میں مجھے ان پر کچھ شک سا رہا کہ پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دینے کا مطالبہ کرنے والوں کو خوش کرنے کے لئے انھوں نے قرار داد مقاصد پیش کی تھی۔ اس قرارداد سے میری رائے میں پاکستان کو بہت نقصان پہنچا۔ یہ قرارداد ملاوں کے لئے تحفہ تھی جس نے مذہبی جنون کو ہوادی، میں نے جب لیاقت علی خان سے پوچھا کہ انھوں نے یہ قرارداد اسمبلی میں پیش کرنا کیوں ضروری سمجھی، تو میں ان کا جواب سن کر حیران رہ گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے انہیں اس کی ضرورت تھی۔ پھر انھوں نے جو بات کہی وہ اور بھی پریشان کن تھی۔ وہ کہنے لگے”ان میں سے کچھ لوگ مجھے باہر کا آدمی سمجھتے ہیں“۔ اس وقت سے مسلم لیگیوں نے یہ ظاہر کرنا شروع کردیا تھا کہ وہ کتنے چھوٹے لوگ تھے‘(صفحہ53)

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے آج ہماری سیاسی جماعتیں جس یکسوئی اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کررہی ہیں اس کی جڑیں ہمارے سیاسی ماضی میں پیوست ہیں۔سکندر مرزا لکھتے ہیں کہ ’1956کا آئین 23 فروری 1956کو اسمبلی نے منظور کیا اور 23 مارچ 1956 کو یہ آئین نافذالعمل ہوگیا۔صدر کے عہدے کے لئے میرے اور علاوہ کوئی اور امیدوار نہیں تھا لہذا مجھے نئی اسمبلی نے متفقہ طورپر صدر منتخب کرلیا‘ (صفحہ 81)

محمد علی جناح بارے ہماریے ریاستی بیانیہ کے مطابق جمہوری اصولوں اور طریقہ کار پر پختہ یقین رکھتے تھے لیکن سکندر مرزا کہتے ہیں کہ ’انھوں نے مسلم لیگ کی کمان اس طرح کی تھی کہ وہ جو چاہتے تھے کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد مسلم لیگ اس سخت کنٹرول سے آزاد ہوگئی تھی‘(صفحہ (78۔ سکندر مرزا نے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کا واقعہ بھی لکھا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں روز اول ہی سے جمہوریت کو مذاق بنادیا گیا تھا۔ لکھتے ہیں 1955 کے اوائل میں دستور ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔یہ ایک بہت مخصوص طرز کے انتخابات تھے جو اس روز سے آج تک میری سمجھ میں نہ آسکے۔میں ایک پنجابی گروپ کی طرف سے سیالکوٹ کے اس علاقے سے نمائندگی کرنے کے لئے منتخب ہوا جہاں میں کبھی گیا تک نہیں تھا(صفحہ 74)

ون یونٹ اور اس کے مخالفین بارے سکندر مرزا دلچسپ انکشاف کرتے ہیں۔و ہ کہتے ہیں کہ ’ہر شخص پر یہ بات واضح تھی کہ ون یونٹ ریفارم سے پنجابیوں نے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کیا۔ان کا دارالحکومت لاہور سیاسی مرکز تھا۔عبدالغفار خان نے سندھ کے رہنما جی۔ایم سید سے مل کر ون یونٹ کو توڑنے کے لئے ایک عوامی مہم شروع کردی(جسے میری مکمل حمایت بھی حاصل تھی (صفحہ 79)سکندر مرزا کے پاکستان کی تخلیق محمد علی جناح نے کی لیکن آزادی ہمیں گاندھی،موتی لعل نہرو، جواہر لعل نہرو، مولانا محمد علی جوہر،عبدالغفار خان اور دوسرے ایسے سینکڑوں لوگوں کی قربانیوں کے نتیجے میں ملی جنھیں پاکستان میں آج تک کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے(صفحہ 112)۔

پاکستان اس وقت مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس کا آغاز قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوگیا تھا۔ قرارداد مقاصد اولین آئینی دستاویز تھی جس نے مذہب اور ریاست کا ملاپ کرایا تھا۔ مذہب، ریاست اور سیاست کو باہم خلط ملط کرنے میں ہماری سیاسی قیادت کا کیا رول تھا اس کا نمونہ سکندر مرز ا نے سردار عبدالرب نشتر کی شکل میں اپنی ان یادداشتوں میں پیش کیا ہے۔ نشتر پاکستان مسلم لیگ کے صدر، مغربی پاکستان کے گورنر اور وفاقی وزیر رہے۔ ان کے بارے میں مرزا لکھے ہیں ’جب نشتر کابینہ میں تھے تو انھوں نے واقعتا ً ایک روز یہ تجویزپیش کی کہ رمضان کے مہینے میں ہر شخص کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہواور ہر علاقے میں چوکیدار علی الصبح راونڈ کریں اور دیکھیں لوگوں نے سحری پر اٹھ کر روزہ رکھنے کی تیاری کی ہے یا نہیں۔میں نے اس پر یہ کہا کہ بہتر یہی ہوگا کہ یہ لوگ میرے کبھی میرے گھر کا رخ نہ کریں‘(صفحہ 113) نشتر کے بارے میں مزید لکھتے ہیں ’جنوری 1956میں چوہدری محمد علی وزیر اعظم نے نشتر کو صدر پاکستان مسلم لیگ نامزد کردیا۔نشتر ایک مولوی کے بیٹے تھے اور اپنے نظریات میں بالکل جنونی تھے۔وہ مغربی پنجاب کے گورنر رہے تھے اور انھوں نے اپنے اس جنون کا کھلم کھلا مظاہرہ کیا تھا۔انھوں نے لاہور میں مال روڈ پر ایک پریڈ کی سلامی لینے سے محض اس لئے انکار کردیا تھا کہ اس کے قریب ہی ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ نصب تھا(ایک مردے کا بت ایک متقی مسلمان کے لئے نفرت انگیز حیثیت رکھتا ہے)انھوں نے لڑکیوں کے ایک ہاکی میچ میں شرکت کی لیکن ٹیم کے ارکان سے اس لئے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا کہ وہ نامحرم تھیں (صفحہ86)

سکندر مرزا کی یادداشتیں قیام پاکستان کے بعد پہلے دس سالوں کی سیاسی تاریخ، سازشوں اور متحرک سیاسی شخصیات کے کردار کو سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔ ان یادداشتوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جن سیاسی مسائل کا آج ہمیں سامنا ہے اس کی بنیادیں انہی دس برسوں میں استوار کی گئی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply