ہاں ! میں بے وفا تھا ۔۔۔(قسط1)عثمان ہاشمی

میری اس سے پہلی ملاقات جاڑے کی ایک گیلی گلابی سرد  شام میں کچھ ایسی حالت میں ہوئی کہ میں گاڑی کی چابی گاڑی میں ہی بھول کر باہر کھڑا تھا اور گاڑی خود کار طریقے سے مقفل ہو چکی تھی ، یخ بستہ برفانی ہوائیں میرے گلے اور چہرے سے ٹکراتیں تو محسوس ہوتا برف کی سِلوں کے ساتھ مجھے پیٹا جا رہا ہے ، منفی پانچ  ڈگری جو جرمنی کے جنوری میں گو کہ معمول کی بات ہے لیکن جب تن پر سوائے ایک معمولی شرٹ کے کچھ نہ ہو اور جیکٹ و سردی سے بچنے کے تمام ہی لوازمات بھی چابی کے ساتھ ساتھ گاڑی میں قید ہو چکے ہوں تو ایسے میں مجھ ایسے “پہلوان “کے ساتھ جو بیتنی چاہیے تھی ،بِیت رہی تھی ۔

میں فرنٹ سیٹ پر پڑے اپنے دونوں فون دیکھ تو سکتا تھا مگر ان تک پہنچنے میں گاڑی کی ونڈ سکرین حائل تھی ۔

اور مقام ایسا تھا کہ میرے گھر سے تین صد کلو میٹر دور ، جیب میں بٹوہ تک نہیں تھا کہ گاڑی چھوڑ کر بھاگنے کی کوئی ترکیب سوچ سکتا ، اور کسی سے رابطہ کرنے یا مدد کے لئے بلانے کے رستے تو ویسے ہی مفقود ہو چکے تھے ۔

میں  شہر کے  گنجان آباد حصے کی ایک مرکزی شاہراہ پر تھا ،اور جو چیز سلگانے سے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے وہ سلگانے کا من کیا تو گاڑی سائیڈ پر لگائی ،اپنی عادت  کے مطابق چابی نکالی اور پھر اپنی ہی سیٹ پر رکھ  کرباہر نکل آیا ، ایک کے بعد ایک” سلگا سلگائی” کے چکر میں پانج سے دس منٹ لگ گئے ، جب وجود نے ایمرجنسی الارم آن کیے اور کپکپاہٹ طاری ہوئی تو اندازہ ہوا کہ سردی کافی ہے اور میں بنا جیکٹ باہر نکل کر کافی بڑی غلطی کر چکا ہوں ،سو فوراً گاڑی  کی جانب پلٹا تو اندازہ ہوا ” کارروائی ” پڑ  چکی ہے یعنی کہ گاڑی مقفل ۔ ۔۔۔

مجھے کپکپاتے اور ٹھٹھرتے گاڑی کے طواف کرتے ہوئے قریباً تیس منٹ ہو چکے تھے، میں آہستہ آہستہ گاڑی کے گرد گھومتا جاتا اور دماغ پر زور دیے جاتا تھا کہ اب اس آفت ناگہانی سے نپٹا جائے تو کیسے ، مگر جان خلاصی ہونے کی کوئی تدبیر  سمجھ نہیں  آرہی تھی ۔۔۔۔ شاید تلخیء  موسم نے دماغ کی سوچنے والی حِس کو ہی منجمد کر دیا تھا ۔

اور ظلم بالائے ظلم کے ابّا آدم کی اولاد کا کوئی فرد بھی دور دور تک نہ دِکھتا تھا کہ اس کا دماغ ہی استعمال کر کے اس پریشانی سے خلاصی پائی جاتی ، اور دِکھتا بھی تو کیوں ؟ کہ رات کے ایک بجے اور وہ بھی اتوار و پیر کی درمیانی رات کہ جس میں” رندان ِجرمنی” بھی دس بجے کے بعد باہر نہیں نکلتے ایسے میں کوئی نارمل انسان بھلا کیونکر دکھائی دیتا ۔

اور سائرن بجاتی پولیس کی گاڑیاں جو ویسے تو دن رات دماغ کا دہی کیے جاتی ہیں آج تو سب ہی جیسے ” چِلّے ” کو نکل گئی تھیں ۔۔۔

میں جب چکر کاٹ کاٹ تھک چکا ، تو بائیں جانب بنے ایک سُپر مارٹ کے مرکزی دروازے کے آگے بیٹھ گیا ۔۔۔اور سامنے کھڑی اپنی گاڑی کو بیچارگی کے ساتھ تکنے لگا کہ شاید اسے خود ہی مجھ پر ترس آجائے اور دروازے کھول، بانہیں پھیلا کر کہے ۔۔۔کہ آئیے مالک ! آپ اپنی ٹھرک کا خمیازہ خوب بھگت چکے لہذا اب مجھے شرف سواری بخشیے اور گھر کی راہ لیجیے ۔

مگر کہاں ۔۔۔ ایں خیال است و محال است و جنوں کے مصداق نہ تو کچھ ایسا کرشمہ ہونا تھا اور نہ ہی ہوا ۔۔

گاڑی کو تو مجھ پر نہ ترس آنا تھا نہ آیا مگر کسی اور کو مجھ پر ترس آ گیا ۔ ۔ ۔

جی ہاں ! اچانک ایک رسیلی و نازک آواز ،خالص جرمن لہجے میں میری سماعتوں سے ٹکرائی۔۔
” Kann ich ihnen Helfen “( کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں ؟ ) مجھے لگا کوئی سراب ہے مگر نہ تھا، حقیقت تھی ۔۔۔ میں نے نظریں گھما کر دیکھا تو ایک بڑی جیکٹ میں ملبوس اور ” ٹراؤزر” پہنے ایک بائیس تیئس سالہ لڑکی میرے سامنے کھڑی تھی ، سردی کی وجہ سے اس کی تیکھی اور گوری ناک کی نوک سرخ ہورہی تھی ، اور گالوں کی حالت بھی کچھ مختلف نہ تھی ۔ ۔۔۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنی جیکٹ کی جیبوں میں ڈالے اور ایک پاؤں گھما کر دوسرے پاؤں پر رکھے کچھ اس طرح سے کھڑی تھی کہ دیکھتے ہی اندازہ ہو کہ ابھی کسی گرم کمرے سے باہر نکلی ہے اور میرا جواب پا کر یا مدد کرکے  جلد ہی لوٹنا چاہتی ہے ۔

میں ایک جھٹکے سے فوراً کھڑا ہوا اور بِلا ارادہ زبان سے ” Vielen Dank ” ( بہت شکریہ ) نکلا ۔۔ اس نے میری جانب دیکھا اور مسکرائی مگر اس کی مسکراہٹ ایسی تھی کہ جیسے کسی لڑکی سے اپنے ” خواستگار ” کو پانی کا گلاس تھماتے تھماتے ڈگمگا جائے اور وہ ایک شرمندگی بھری مسکراہٹ کے ساتھ اپنے اوپری دانت نیچے کے دانتوں میں پیوست کر لے اور ہونٹ اس قدر پھیلا دے کہ داڑھیں ظاہر ہونے لگیں ۔۔۔

خیر ! ساتھ ہی اس نے کمال ہمدردی و نرمی کے ساتھ مجھ سے پوچھا ۔۔۔ “? Was Passiert ” یعنی کہ کیا ہوا ہے ؟

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عثمان ہاشمی
عثمان ھاشمی "علوم اسلامیہ" کے طالب علم رھے ھیں لیکن "مولوی" نھیں ھیں ،"قانون" پڑھے ھیں مگر "وکیل" نھیں ھیں صحافت کرتے ھیں مگر "صحافی" نھیں ھیں جسمانی لحاظ سے تو "جرمنی" میں پاۓ جاتے ھیں جبکہ روحانی طور پر "پاکستان" کی ھی گلیوں میں ھوتے ھیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply