• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آج چاقو کی نوک سے کالم لکھنے کی ضرورت ہے۔۔اسد مفتی

آج چاقو کی نوک سے کالم لکھنے کی ضرورت ہے۔۔اسد مفتی

میرا سیاست سے اتنا ہی تعلق ہے یا ہوسکتا ہے،جتنا کسی عام پاکستانی کا،یعنی میں نہ پیشہ ور سیاست دان ہوں، نہ کرسی کا متمنی،میری سیاست صرف اتنی ہی ہے کہ اس ملک کے لوگوں کی صدیوں پرانی مشکلات اور مصائب میں کمی کرنے کے لیے کچھ کرسکوں،تو ضرور کروں۔۔۔
اپنے اردو گرد کے حالات سے وہی لوگ بے خبر رہ سکتے ہیں جن کے ضمیر مردہ ہوچکے ہوں،یا جنہیں محض اپنی ذات سے دلچسپی ہو،اگر آپ اپنا شمار ایسے لوگوں میں نہیں کرتے تو پھر آپ کو اپنے ارد گرد رہنے والوں کی محرومیوں کا احساس بھی ہوگا،
اگر آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں تو پھر آپ یہ بھی غور کریں گے کہ آبادی کی اکثریت محرومیوں کا شکار کیوں ہے؟
اور اگر آپ درد مند دل رکھتے ہیں تو پھر موجودہ خرابیوں کو دور کرنے کے لیے آگے بھی بڑھیں گے،عملی طور پر نہ سہی،تحریری طور پر ہی سہی،جلسے میں نہیں تو،گھر میں،محلے میں،اپنے حلقہ ء احباب میں،جہاں بھی موقع ملے گا،آپ اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کریں گے،اس نظام کے خلاف آواز بلند کریں گے،جو چند افراد کی جھولیاں بھر رہا ہے،اور آبادی کی غالب اکثریت کو زندگی کی بنیاد ی ضرورتوں اور معمولی آسائشوں سے بھی مھروم رکھ رہاہے۔یہی سیاست ہے۔۔
میں نے یہ مفروضات اس لیے پیش کیے ہیں کہ میرے کچھ قارئین اور اپنے دوستوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ میں سیاست میں پڑگیا ہوں،شاید وہ چاہتے ہیں میں اپنے خول میں دبا رہوں،اور ارد گرد سے آنکھیں بند کرلوں اور یہ تاثر دوں کہ “سب اچھا ہے”۔۔
کاش میں ایسا کرسکتا،مگر افسوس ہے ک سب اچھا پہلے تھا،نہ اب ہے،اور نہ کسی معجزے یا مافوق الفطرت کارنامے سے درست ہوسکتا ہے،اس کے لیے بے غرض اور اپنے مفادات کی قربانی دینے والے بہت سے افراد کی ضرورت ہے، اس کے لیے لوگوں کے پاس پہنچنے اور ان کے دُکھ درد معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے دیارِ غیر میں بیٹھ کر ملکِ عزیز کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے،اس کے لیے گھر گھر جانے،ہر دروازے پر دستک دینے اور انہیں نئی صبح کی نوید دینے اور اس کو قریب لانے کے لیے کام کرنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے،
کیا ہم ایسا کررہے ہیں؟۔۔۔یا کیا ایسے کوئی آثار نظر آرہے ہیں؟کہ آج نہین تو کل یہ کام شروع ہوگا۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مجھے ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا،ایسے کوئی آثار تک نہیں ہیں۔
ذرائع ابلاغ پر حکومت کا قبضہ ہے،جو انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں،یا کرنا چاہتے ہیں،جو استعمال ہونے سے انکار ی ہیں وہ زیرِ عتاب ہیں یا زیرِ احتساب ہیں۔بلکہ وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں،سیاستدانوں،دانشوروں،ادیبوں،اور صحافیوں کا ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا ہے،جو اس ملک کی غالب اکثریت کی قیمت پر ایک محدود طبقے کے مفادات کا ڈھول پیٹ رہا ہے،پلاٹ لے رہا ہے،لفافے وصول کیے جارہے ہیں،رائے عامہ کو گمراہ کیا جارہا ہے،ایسے میں کسی باضمیر فرد یا دارے کا خاموش رہنا ممکن نہیں ہے۔
میں معروف معنی میں سیاست نہیں کررہا،مگر ملکِ عزیز کا ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض پورا کررہا ہوں،میری آواز کمزور سہی مگر حق و صداقت کی قوت میرے ساتھ ہے،ا س لیے میں اپنی استطاعت کے مطابق یہ کام کرتا رہوں گا،میری نظر کے سامنے ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں ہمیں کھل کر اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہیے تھا،مگر حکومتِ وقت نے قانون اور ضابطوں کی دھمکیوں سے حق وصداقت لکھنے والوں کے قلم چھین لیے،۔
ماضی پر نگاہ ڈالیے۔۔۔سانحہ مشرقی پاکستان کو ہی لیجیے۔۔جن لوگوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنتے اور اس مملکتِ خداد داد کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے،انہیں اچھی طرح سے یاد ہوگا کہ جب مشرقی پاکستان کے عوام اپنے جائز حقوق کے مطالبات کی جدوجہد کررہہے تھے تو اس بے ضمیر ٹولے نے انہیں شر پسند اور دہشت پسند جیسے الفاظوں سے یاد کیا۔
اگر آپ اُس زمانے کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو اسی قسم کے دلائل سے اور القابات سے جھوٹ کا پرچار کیا گیا اور پھر سب نے دیکھا کہ جھوٹ کا انجام کیا ہوا۔ہم نے ملک تڑوا لیا،مگر اپنی جہالت،عصبیت اور کم عقلی کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی باتوں پر اصرار کرتے رہے اور کررہے ہیں۔
ضرور سوچیے،آپ کس طرف جارہے ہیں؟۔۔۔تاریخ کبھی ایسے لوگوں کو معاف نہیں کرتی،جو اس کا رُخ پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہیں،اور اگر آج بھی آپ نے عقل و خرد کی باگ ہاتھ میں نہ لی اور ویسے ہی حالات پیدتے رہے اور لوگوں تک اپنی بات نہ پہنچا سکے تو نتائج وہی ہوں گے،جو اس سے قبل پیش آچکے ہیں،اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی غیر معمولی فہم و دانش کی ضرورت نہیں ہے،بس ذرا سا نظر جھکا کر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔
اب آپ بتائیں اس قسم کی حماقتوں کو دیکھتے ہوئے میں سیاست سے علیحدہ رہ سکتا ہوں؟
اب آئیے دعا کریں کہ۔۔۔ہم نے امیدوں،وعدوں او ر دلاسوں کے سہارے ایک سال گزار دیا،365دن انتظار کی سولی پر لٹکا دئیے،
میں جانتا ہوں کہ میں کوئی نئی بات نہیں لکھ رہا ہوں،لیکن بہتے دریاؤں کا رنگ بدلا ہے،نہ سورج کی تمازت میں تیزی آئی ہے،ٹھٹھرتی راتوں کی یخ بستگی بھی وہی ہے۔اور امیدوں،وعدوں دلاسوں کی بارات بھی روانہ نہیں ہوپائی،میں گزشتہ سال انہی دنوں میں مانگی دعا دہراتا ہوں۔۔۔آپ بھی ہاتھ اٹھائیں۔۔کہ دکھوں کی ان کہی،اَن دیکھی دعا شکلوں سے نجات کا آخری سال ہو، سال کا آخری دن،وعدوں،دلاسوں کا بھی آخری دن ثابت ہو۔
مجھے کمی نہیں ہوتی کبھی محبت میں
یہ میرا رزق ہے،اور آسماں سے اُترا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply