نقوش۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

توہمات اور ایمان بظاہر ایک دوسرے کا متضاد ہیں، جہاں ایمان کا بسیرا ہو وہاں توہمات کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔
اگر اس سادہ سے جملے پر یقین کر لیا جائے تو نتیجتاً ایمان کے دعویدار  کسی بھی قسم کی توہمات سے پاک ہونے چاہئیں، مگر ہماری روزمرہ زندگی کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ مذہب کے نام پر رائج توہمات پوری کتاب کی متقاضی ہیں، تو پھر ایسا کیوں ہے؟

ہم ایسا کوئی حق محفوظ نہیں رکھتے کہ کسی بھی شخص یا گروہ کے ایمان کے دعوے پر شک کیا جائے، ایسے اشخاص جو واقعی اخلاص، محبت اور محنت کے ساتھ صراطِ مستقیم پر رواں ہیں، یا کوشش کرتے ہیں، وہ بھی کم یا زیادہ، مختلف انواع کے توہمات سے پاک نہیں۔

مذہب اور سائنس مختلف اطراف سے فرد کو توہم پرستی سے نجات دلانے میں کوشاں ہیں اور جزوی طور پر اس کے مثبت اثرات دیکھے جا سکتے ہیں مگر شاید ہی ایسا ممکن ہو پائے کہ فرد توہم پرستی کی جڑوں سے مکمل طور پر نجات پا سکے۔

مصنف:ڈاکٹر مختیار ملغانی

فریڈرک نطشے نے کہا تھا کہ “خلا اپنے ناظر کا اتنی ہی گہرائی سے مشاہدہ کر رہی ہوتی ہے جتنی دلچسپی سے ناظر خلا کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے “۔ انسانی دماغ بے مقصد خالی پن کو کبھی برداشت نہیں کرتا، وہ ہرحال میں مختلف تخیلات سے اس خالی پن کو بھرنے میں مصروف رہتا ہے کہ یہی  اس کی جبلت ہے، غار کی دیوار پر پڑتے رات کے بے ہنگم  اور تاریک سایوں ، کمرے کی دیوار کے وال پیپر پر گھومتے پنکھے کے پروں کا سایہ یا کھڑکی سے درخت کی ہلتی ٹہنیوں کے سایوں میں سے یہ دماغ غیر حقیقی اشکال یا اعداد کو تشکیل دیتا ہے، ہمارا تخیل ہمارے خوفوں کو بیرونی دنیا میں پیش کرتا ہے، جیسے سینما کے کیمرے سے نکلتی شعاع سفید اور خالی  سکرین پر کچھ اشکال اور ان کی حرکات کی تخلیق کا باعث بنتی ہے، ایسے ہی خلا کے مشاہدے کے دوران انسانی ذہن خوف کی شعاع سے گویا کہ دیوارِ حال پہ ٹھوس اشکال اور ان کی حرکات تراشتا ہے، یہیں سے اس خوف سے بچاؤ کی تدبیر کا خیال آتا ہے اور پھر اگلے ہی لمحے راستہ کاٹتی کالی بلّی اس دن کی تمام ناکامیوں کی وضاحت بن کر سامنے آتی ہے۔

اِن من گھڑت، غیر حقیقی اور اختراعی خطرات سے کیسے نمٹا جائے؟ ، یقینا ًایسے ہی من گھڑت، غیرحقیقی اور اختراعی ذرائع ہی ان خطرات کا بہترین علاج ہیں، یعنی کہ عمل اور ردعمل کے اصول کے مطابق جیسے خطرات ہیں، ویسے ہی ذرائعِ تحفظ سامنے آئیں گے، اس کیلئے کلائی میں سرخ یا کالا دھاگہ، مزار پر چادر، دھمال برائے برکت، کوئی نگ یا کڑا، کسی پوِتر جانور کا پیشاب وغیرہ جیسے توہمات فرد یا گروہ کا مقدر ٹھہریں گے۔

فطرت کی طاقتوں سے انسان ہمیشہ خوفزدہ رہا اور مختلف زمانوں میں اپنی استطاعت کے مطابق ان خطرات سے بچاؤ کی تدابیر کرتا رہا، اس مادّی دنیا میں جب معاملات انسان کی طاقت اور سمجھ سے بلند ہوتے محسوس ہوئے اور انسان نے کسی کو اپنا محافظ نہ پایا تو انسان نے غیر مرعیت کو ایجاد کیا، خدا کی ذات کے منکرین یہ بات تواتر سے کہتے آرہے ہیں کہ انسان نے خدا کی ذات کو اسی خوف سے نجات پانے کی خواہش میں ایجاد کیا، یہ ایک علیحدہ بحث ہے اور آج کا موضوع نہیں، مگر ایک بات واضح ہے جہاں انسانی دنیا میں خدا کا وجود نہیں وہاں گمان اپنا وجود منواتے ہیں اور توہم پرستی کی شکل میں اپنے سے زیادہ طاقتور قوتوں سے نمٹنے  اور نفسیاتی اطمینان کی نئی راہیں تراشنے میں مدد دیتے ہیں۔

ایک کمزور نومولود کیلئے  اس کی کل کائنات اس کی ماں ہے، اور نومولود خود کو کائنات کا مرکز تصوّر کرتا ہے، کیونکہ اس نومولود کو اپنی ضرورتوں کے پورا ہونے، یعنی بھوک، پیاس کے مٹنے، گرمی سردی سے بچنے اور دیگر عوامل کی تکمیل کیلئے بہت زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑتی، بس پوری قوت سے رونا اور ساری کائنات ،یعنی ماں، کو تمام ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش میں بے چین پانا، یعنی کہ نومولود کے لاشعور میں دنیا کا ایک اپنا تصور اور پھر اپنی ضروریات یا تحفظ کیلئے کچھ مخصوص رسومات، جیسے رونا یا بگڑنا، ہیں۔

مگر بلوغت یا شعور کی دنیا میں قدم رکھتے ہی بچہ یہ بات سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ اس کی ماں کُل دنیا نہیں، بلکہ حقیقی دنیا یا کائنات کہیں بڑی اور پیچیدہ ہے، لیکن  اس حقیقی دنیا کو اپنی خواہشات یا ضروریات کی تکمیل کیلئے مخصوص” رسومات ” کی مدد سے اپنے حق میں بے چین پانا اور مدد پر مجبور کرنے کا تصّور اس کے لاشعور میں گویا کہ پتھر پہ لکیر کی مانند کنندہ ہوتا ہے،اس لیے عمر کے کسی بھی حصے میں اپنی خواہشات کی تکمیل یا عدم تحفظ سے بچنے کیلئے اس کا لاشعور اسے میّسر اور رائج رسومات کی طرف دھکیلتا ہے، یعنی کہ بچپنے کی یہ کیفیت  انسان پر تاعمر طاری رہتی ہے، کسی میں کم  اور کسی میں زیادہ، اس کا انحصار تعلیم و شعور کی بلندی ، بچپنے میں لگے جذباتی صدمات اور سنِ بلوغت کے آغاز میں دی گئی نفسیاتی و جنسی تعلیمات کے معیارات پر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply