ایٹم بم،ہم دنیا سے کیا منوانا چاہتے ہیں!

ان دنوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر پھر خبرو ں میں ہیں،ہالینڈ کے ایک میگزین نے اپنی حالیہ اشاعت میں بتایا ہے کہ شام نے پاکستان میں سنیٹری فیوج مشینیں حاصل کرکے صدام حسین کے حوالے کی تھیں۔میگزین نے کینیڈین ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مشینیں پاکستان کے ڈاکٹر عبدالقدیر سے خریدی گئیں تھیں،اور یہ خطرناک سودا شام کے وزیر دفاع کے بیٹے نے طے کرایا تھا۔اسی خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسرائیلی اخبار”یروشلم پوسٹ”نے مڈل ایسٹ نیوز لائن کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکی عہدہ داروں کے مطابق 2001میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے شام کے وزیر دفاع کے بیٹے فراز کے ہاتھ سنیٹری فیوج بیچا تھا۔جس میں سے کچھ مشینیں عراق کے صداق حسین کو بیچ دی گئیں۔

اس سے قبل سابق ایٹمی توانائی ادارے کے سربراہ محمد ابرادی نے اپنے ایک انٹر ویو میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے20 کے قریب ممالک اور بڑی کمپنیوں سے کمرشل روابط تھے۔جنھیں ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کی گئی،یہ انٹر ویو بھی انہوں نے اسرائیلی اخبار ہیرٹیز کو دیاتھا،جس میں یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ یہ ممالک جن کو ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کی گئی ہے اس کے پھیلاؤ کی روک تھام میں مدد کریں گے۔علاوہ ازیں اردن کے سابق وزیر دفاع سرگئی ایواتوف نے ایک حیر ت انگیز انکشاف کرتے ہوئے ماسکو میں مقیم غیر ملکی صحافیوں اور نمائندوں کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ماسکو بہت پہلے سے جانتا ہے کہ پاکستان ایٹمی ٹیکنالوجی دوسرے ملکوں کو کو منتقل کررہا ہے،انہوں نے لیبیا کے سربراہ کرنل قزافی کے بیٹے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایٹمی سودے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے علم میں بہت کچھ ہے لیکن فی الحال ماسکو کوئی سرکاری بیان نہیں دینا چاہتا،لیکن میں پہلے بھی گاہے گاہے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے ولے ہتھیاروں کی خریدوفروخت کے خطرات کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرچکا ہوں۔بالخصوص پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ ہنوز ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔یہ خطرہ اب ایک حقیقی خطرہ بن چکا ہے۔
انہوں نے پاکستان کانام لے کر کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے خوفناک تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے غلط ہاتھوں میں پہنچنے کی حکمتِ عملی کے خلاف ماسکو اینٹی دہلی کے ساتھ مکمل تعاون کررہا ہے۔

مجھے یادہے آپ کو بھی یاد ہوگا کہ برصغیر کے معروف صحافی اور میرے قریبی دوست کلدیپ نئیر نے ایک بار پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے اسلام آباد میں انٹر ویو کیا تھا۔جس میں اور باتوں کے علاوہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے یہ بھی واضح طور پر کہا تھا،اگر آپ “ہندوستان “لوگوں نے آئندہ کبھی بنگلہ دیش جیسا سلوک کیا یا ہمیں دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی تو یہ بم ہم دہلی پر گرا دیں گے۔۔۔۔اور اب چند ماہ پہلے ہی پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے واضح طور پر یہ بیان دیا تھا کہ “پاکستان نے ایٹم بم شبِ برات پر چلانے کے لیے نہیں بنایا”۔۔۔بم بم بم۔۔۔آخر ہمیں ہو کیا گیا ہے،میری تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم دنیا کو کیا بتانا چاہتے ہیں،یا دنیا سے کیا منوانا چاہتے ہیں۔؟پاکستان کے ایٹمی پروگرا م کی 1974میں “مقتول” ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں بنیاد رکھی گئی۔

اس کی تکمیل حالیہ معزول شدہ میاں نواز شریف سابق وزیراعظم پاکستان کے عہدِ حکومت میں کی گئی،اس “وکھری ٹائپ” کے پروگرام کی حفاظت کے لیے سترہ وزیراعظم،دس چیف آف سٹاف،چھ معزول حکومتیں اور دو شب خونوں کا خون درکار رہا تب کہیں یہ بیل منڈھے چڑھی،اور ایسی چڑھی کہ آدھی سے زائد دنیا کانپ کانپ اٹھی،لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی پہلی ریاست جو ایٹمی طاقت بننے کے بعد بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو پا رہا،مسلسل اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں،چالیس برس کی اس جانفشانی کے بعد بھی اسے سکھ کا سانس لینا نصیب نہیں ہوا،وہ ملک جہاں گزشتہ ستر برسوں سے بشمول وزرائے اعظم،باون سربراہان مملکت اقتدار کے “جھوٹے “لے چکے ہیں،وہاں پاکستان جو اسلامی دنیا کی پہلی،ایشیا کی تیسری،اور دنیا کی ساتویں طاقت ہے کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہمارے دفاع کے ضامن ہیں،یا سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں،بہت سے لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ ان ہتھیاروں کی کمانڈ اور کنٹرول نظام یعنی نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی میں ایک بھی سویلین رکن شامل نہیں ہے،یعنی جو کچھ کرنا ہے فوج نے کرنا ہے، لیکن۔۔۔اگر 12 اکتوبر کے بعد اور نائن الیون کے فوری بعد ایک ٹیلی فونکال گزشتہ بیس پچیس برسوں کی پالیسی پر یوٹرن لیا جاسکتا ہے تو مستقبل کی ضمانت کون دے گا؟۔۔۔
سوال یہ ہے کہ کشو حسین شاد باد کے لوگ کہاں کھڑے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

ظلم ہم،مظلوم کبھی ہم ہر شر سے منسوب ہیں ہم
ایسا حال ہوا کیوں اپنا میں بھی سوچوں تُو بھی سوچ!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply